الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
ابواب: جن چیزوں سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور جن سے نہیں ہوتا
Mention When Ghusal (A Purifying Bath) Is Obligatory And When It Is Not
192. بَابُ : فَرْثِ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ يُصِيبُ الثَّوْبَ
192. باب: حلال جانوروں کے لید، گوبر کپڑوں میں لگ جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 308
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا احمد بن عثمان بن حكيم، قال: حدثنا خالد يعني ابن مخلد، قال: حدثنا علي وهو ابن صالح، عن ابي إسحاق، عن عمرو بن ميمون، قال: حدثنا عبد الله في بيت المال، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي عند البيت وملا من قريش جلوس وقد نحروا جزورا، فقال بعضهم: ايكم ياخذ هذا الفرث بدمه، ثم يمهله حتى يضع وجهه ساجدا فيضعه يعني على ظهره؟ قال عبد الله: فانبعث اشقاها، فاخذ الفرث فذهب به ثم امهله فلما خر ساجدا وضعه على ظهره، فاخبرت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهي جارية، فجاءت تسعى فاخذته من ظهره، فلما فرغ من صلاته، قال:" اللهم عليك بقريش، ثلاث مرات، اللهم عليك بابي جهل بن هشام، وشيبة بن ربيعة، وعتبة بن ربيعة، وعقبة بن ابي معيط حتى عد سبعة من قريش". قال عبد الله: فوالذي انزل عليه الكتاب، لقد رايتهم صرعى يوم بدر في قليب واحد.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيم، قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ مَخْلَدٍ، قال: حَدَّثَنَا عَلِيٌّ وَهُوَ ابْنُ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ فِي بَيْتِ الْمَالِ، قال: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ وَمَلَأٌ مِنْ قُرَيْشٍ جُلُوسٌ وَقَدْ نَحَرُوا جَزُورًا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَيُّكُمْ يَأْخُذُ هَذَا الْفَرْثَ بِدَمِهِ، ثُمَّ يُمْهِلُهُ حَتَّى يَضَعَ وَجْهَهُ سَاجِدًا فَيَضَعُهُ يَعْنِي عَلَى ظَهْرِهِ؟ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَانْبَعَثَ أَشْقَاهَا، فَأَخَذَ الْفَرْثَ فَذَهَبَ بِهِ ثُمَّ أَمْهَلَهُ فَلَمَّا خَرَّ سَاجِدًا وَضَعَهُ عَلَى ظَهْرِهِ، فَأُخْبِرَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ جَارِيَةٌ، فَجَاءَتْ تَسْعَى فَأَخَذَتْهُ مِنْ ظَهْرِهِ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ، قَالَ:" اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِأَبِي جَهْلِ بْنِ هِشَامٍ، وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مَعِيطٍ حَتَّى عَدَّ سَبْعَةً مِنْ قُرَيْشٍ". قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَوَالَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، لَقَدْ رَأَيْتُهُمْ صَرْعَى يَوْمَ بَدْرٍ فِي قَلِيبٍ وَاحِدٍ.
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیت المال میں بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے، اور قریش کے کچھ شرفاء بیٹھے ہوئے تھے، اور انہوں نے ایک اونٹ ذبح کر رکھا تھا، تو ان میں سے ایک شخص نے کہا ۱؎: تم میں سے کون ہے جو یہ خون آلود اوجھڑی لے کر جائے، پھر کچھ صبر کرے حتیٰ کہ جب آپ اپنا چہرہ زمین پر رکھ دیں، تو وہ اسے ان کی پشت پر رکھ دے، تو ان میں کا سب سے بدبخت (انسان) کھڑا ہوا ۲؎، اور اس نے اوجھڑی لی، اور آپ کے پاس لے جا کر انتظار کرتا رہا، جب آپ سجدہ میں چلے گئے تو اس نے اسے آپ کی پشت پر ڈال دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمسن بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خبر ملی، تو وہ دوڑتی ہوئی آئیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت سے اسے ہٹایا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے تین مرتبہ کہا: «اللہم عليك بقريش» اے اللہ! قریش کو ہلاک کر دے، «اللہم عليك بقريش»، ‏ «اللہم عليك بأبي جهل بن هشام وشيبة بن ربيعة وعتبة بن ربيعة وعقبة بن أبي معيط» اے اللہ! ابوجہل بن ہشام، شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور عقبہ بن ابی معیط سے تو نپٹ لے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے سات ۳؎ لوگوں کا گن کر نام لیا، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا، میں نے انہیں بدر کے دن ایک اوندھے کنویں میں مرا ہوا دیکھا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 69 (240)، والصلاة 109 (520)، والجھاد 98 (2934)، والجزیة 21 (3185)، ومناقب الأنصار 29 (3854)، صحیح مسلم/الجھاد 39 (1794)، (تحفة الأشراف 9484)، مسند احمد 1/ 393، 397، 417 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: صحیح مسلم کی تصریح کے مطابق وہ ابوجہل تھا۔ ۲؎: اس سے مراد عقبہ بن ابی معیط ہے جیسا کہ مسند ابوداؤد طیالسی میں اس کی صراحت ہے۔ ۳؎: چار تو وہ ہیں جن کا ذکر خود حدیث میں آیا ہے اور باقی تین یہ ہیں: ولید بن عتبہ بن ربیعہ، امیہ بن خلف اور عمارہ بن ولید۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري3960عبد الله بن مسعوداستقبل النبي الكعبة فدعا على نفر من قريش على شيبة بن ربيعة وعتبة بن ربيعة والوليد بن عتبة وأبي جهل بن هشام فأشهد بالله لقد رأيتهم صرعى قد غيرتهم الشمس وكان يوما حارا
   صحيح البخاري3854عبد الله بن مسعودساجد وحوله ناس من قريش جاء عقبة بن أبي معيط بسلى جزور فقذفه على ظهر النبي فلم يرفع رأسه فجاءت فاطمة عليها السلام فأخذته من ظهره ودعت على من صنع فقال النبي اللهم عليك الملأ من قريش أبا جهل بن هشام وعتبة بن ربيعة وشيبة بن ربيعة وأمية بن خلف أو أبي بن خلف شع
   صحيح البخاري2934عبد الله بن مسعوداللهم عليك بقريش اللهم عليك بقريش اللهم عليك بقريش لأبي جهل بن هشام وعتبة بن ربيعة وشيبة بن ربيعة والوليد بن عتبة وأبي بن خلف وعقبة بن أبي معيط قال
   صحيح البخاري3185عبد الله بن مسعوداللهم عليك الملا من قريش اللهم عليك أبا جهل بن هشام وعتبة بن ربيعة وشيبة بن ربيعة وعقبة بن أبي معيط وأمية بن خلف أو أبي بن خلف فلقد رأيتهم قتلوا يوم بدر فألقوا في بئر غير أمية أو أبي فإنه كان رجلا ضخما فلما جروه تقطعت أوصاله قبل أن يلقى في البئر
   صحيح البخاري240عبد الله بن مسعوداللهم عليك بقريش ثلاث مرات فشق عليهم إذ دعا عليهم قال وكانوا يرون أن الدعوة في ذلك البلد مستجابة ثم سمى اللهم عليك بأبي جهل وعليك بعتبة بن ربيعة وشيبة بن ربيعة والوليد بن عتبة وأمية بن خلف وعقبة بن أبي معيط وعد السابع فلم يحفظ قال فوالذي نفسي بيده لقد ر
   صحيح البخاري520عبد الله بن مسعوداللهم عليك بقريش اللهم عليك بقريش اللهم عليك بقريش ثم سمى اللهم عليك بعمرو بن هشام وعتبة بن ربيعة وشيبة بن ربيعة والوليد بن عتبة وأمية بن خلف وعقبة بن أبي معيط وعمارة بن الوليد قال عبد الله فوالله لقد رأيتهم صرعى يوم بدر ثم سحبوا إلى القليب قليب بدر ثم ق
   صحيح مسلم4652عبد الله بن مسعوداستقبل رسول الله البيت فدعا على ستة نفر من قريش فيهم أبو جهل وأمية بن خلف وعتبة بن ربيعة وشيبة بن ربيعة وعقبة بن أبي معيط فأقسم بالله لقد رأيتهم صرعى على بدر قد غيرتهم الشمس وكان يوما حارا
   صحيح مسلم4650عبد الله بن مسعوداللهم عليك الملأ من قريش أبا جهل بن هشام وعتبة بن ربيعة وعقبة بن أبي معيط وشيبة بن ربيعة وأمية بن خلف أو أبي بن خلف شعبة الشاك قال فلقد رأيتهم قتلوا يوم بدر فألقوا في بئر غير أن أمية أو أبيا تقطعت أوصاله فلم يلق في البئر
   صحيح مسلم4649عبد الله بن مسعوداللهم عليك بقريش ثلاث مرات فلما سمعوا صوته ذهب عنهم الضحك وخافوا دعوته ثم قال اللهم عليك بأبي جهل بن هشام وعتبة بن ربيعة وشيبة بن ربيعة والوليد بن عقبة وأمية بن خلف وعقبة بن أبي معيط وذكر السابع ولم أحفظه فوالذي بعث محمدا بالحق لقد رأي
   سنن النسائى الصغرى308عبد الله بن مسعوداللهم عليك بقريش ثلاث مرات اللهم عليك بأبي جهل بن هشام وشيبة بن ربيعة وعتبة بن ربيعة وعقبة بن أبي معيط حتى عد سبعة من قريش قال عبد الله فوالذي أنزل عليه الكتاب لقد رأيتهم صرعى يوم بدر في قليب واحد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3185  
´مشرکوں کی لاشوں کو کنویں میں پھینکوانا اور ان کی لاشوں کی (اگر ان کے ورثاء دینا بھی چاہیں تو بھی) قیمت نہ لینا`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ وَحَوْلَهُ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِذْ جَاءَ عُقْبَةُ بْنُ أَبِي مُعَيْطٍ بِسَلَى جَزُورٍ فَقَذَفَهُ عَلَى ظَهْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَرْفَعْ رَأْسَهُ حَتَّى جَاءَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام فَأَخَذَتْ مِنْ ظَهْرِهِ وَدَعَتْ عَلَى مَنْ صَنَعَ ذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ عَلَيْكَ الْمَلَا مِنْ قُرَيْشٍ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ وَعُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ وَشَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ وَعُقْبَةَ بْنَ أَبِي مُعَيْطٍ وَأُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ أَوْ أُبَيَّ بْنَ خَلَفٍ، فَلَقَدْ رَأَيْتُهُمْ قُتِلُوا يَوْمَ بَدْرٍ فَأُلْقُوا فِي بِئْرٍ غَيْرَ أُمَيَّةَ أَوْ أُبَيٍّ، فَإِنَّهُ كَانَ رَجُلًا ضَخْمًا فَلَمَّا جَرُّوهُ تَقَطَّعَتْ أَوْصَالُهُ قَبْلَ أَنْ يُلْقَى فِي الْبِئْرِ . . .»
. . . عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مکہ میں (شروع اسلام کے زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کی حالت میں تھے اور قریب ہی قریش کے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر عقبہ بن ابی معیط اونٹ کی اوجھڑی لایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر اسے ڈال دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ سے اپنا سر نہ اٹھا سکے۔ آخر فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر سے اس اوجھڑی کو ہٹایا اور جس نے یہ حرکت کی تھی اسے برا بھلا کہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بددعا کی کہ اے اللہ! قریش کی اس جماعت کو پکڑ۔ اے اللہ! ابوجہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، عقبہ بن ابی معیط، امیہ بن خلف یا ابی بن خلف کو برباد کر۔ پھر میں نے دیکھا کہ یہ سب بدر کی لڑائی میں قتل کر دئیے گئے۔ اور ایک کنویں میں انہیں ڈال دیا گیا تھا۔ سوا امیہ یا ابی کے کہ یہ شخص بہت بھاری بھر کم تھا۔ جب اسے صحابہ نے کھینچا تو کنویں میں ڈالنے سے پہلے ہی اس کے جوڑ جوڑ الگ ہو گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ: 3185]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3185 باب: «بَابُ طَرْحِ جِيَفِ الْمُشْرِكِينَ فِي الْبِئْرِ وَلاَ يُؤْخَذُ لَهُمْ ثَمَنٌ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم فرمایا ہے وہ مشرکین کی لاشوں کی قیمت وصول نہ کرنے پر دلالت کرتا ہے، مگر جو حدیث پیش کی ہے اس میں قیمت کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں واضح قیمت کا ذکر موجود ہے مگر وہ آپ رحمہ اللہ کی شرائط کے مطابق نہ تھی اسی لئے آپ نے یہاں اس کا ذکر نہیں فرمایا، مگر ترجمۃ الباب کے ذریعے اس کا دقیق اشارہ فرما دیا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أشار به إلى حديث ابن عباس رضى الله عنه أن المشركين أرادوا أن يشتروا جسد رجل من المشركين فأبي النبى صلى الله عليه وسلم أن يبعيهم . . . و ذكر ابن إسحاق فى المغازي، أن المشركين كانوا سألوا النبى صلى الله عليه وسلم أن يبعيهم جسد نوفل بن عبدالله بن المغيرة، و كان اقتحم الخندق، فقال النبى صلى الله عليه وسلم لا حاجة لنا بثمنه ولا جسده.» [فتح الباري، ج 6، ص: 348]
امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے: مشرکین نے ارادہ کیا کہ مشرکین میں سے ایک آدمی کی نعش (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے) خریدیں، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا (مشرکین کی نعش کو فروخت کرنے سے)۔ ابن اسحاق نے «المغازي» میں ذکر کیا کہ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا نوفل بن عبداللہ کی نعش کے بارے میں کہ اس کی نعش مشرکین کو بیچ دی جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہمیں نہ ہی اس کی نعش کی ضرورت ہے اور نہ ہی (اس کی نعش) کی رقم کی ضرورت ہے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ظاہر (ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ہو گی کہ) امام بخاری رحمہ اللہ کو یہ حدیث پہنچی ابن ابی لیلی سے کہ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقتول کی لاشوں کو فروخت کر دیں، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کر دیا، لیکن یہ حدیث (جو کہ ترمذی کی ہے، رقم: 2715) امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر نہیں ہے۔ [المتواري، ص: 199]
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ یوں ہو گی کہ ترمذی اور ابن ہشام کی کتاب المغازی میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لاشوں کی قیمت وصول کرنے سے انکار کر دیا، لہذا امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی اشارہ انہیں روایات کی طرف ہے، چونکہ یہ احادیث آپ کی شرائط پر نہ تھیں اسی لئے آپ نے دلیل کے طور پر ان کا ذکر نہیں فرمایا، مگر ترجمۃ الباب کے ذریعے اس کی طرف اشارہ فرما دیا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 467   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 308  
´حلال جانوروں کے لید، گوبر کپڑوں میں لگ جانے کا بیان۔`
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیت المال میں بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے، اور قریش کے کچھ شرفاء بیٹھے ہوئے تھے، اور انہوں نے ایک اونٹ ذبح کر رکھا تھا، تو ان میں سے ایک شخص نے کہا ۱؎: تم میں سے کون ہے جو یہ خون آلود اوجھڑی لے کر جائے، پھر کچھ صبر کرے حتیٰ کہ جب آپ اپنا چہرہ زمین پر رکھ دیں، تو وہ اسے ان کی پشت پر رکھ دے، تو ان میں کا سب سے بدبخت (انسان) کھڑا ہوا ۲؎، اور اس نے اوجھڑی لی، اور آپ کے پاس لے جا کر انتظار کرتا رہا، جب آپ سجدہ میں چلے گئے تو اس نے اسے آپ کی پشت پر ڈال دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمسن بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خبر ملی، تو وہ دوڑتی ہوئی آئیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت سے اسے ہٹایا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے تین مرتبہ کہا: «اللہم عليك بقريش» اے اللہ! قریش کو ہلاک کر دے، «اللہم عليك بقريش»، ‏ «اللہم عليك بأبي جهل بن هشام وشيبة بن ربيعة وعتبة بن ربيعة وعقبة بن أبي معيط» اے اللہ! ابوجہل بن ہشام، شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور عقبہ بن ابی معیط سے تو نپٹ لے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے سات ۳؎ لوگوں کا گن کر نام لیا، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا، میں نے انہیں بدر کے دن ایک اوندھے کنویں میں مرا ہوا دیکھا۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 308]
308۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ خبیث رائے پیش کرنے والا ابوجہل تھا جسے بعضھم کہا گیا ہے اور عمل کرنے والا عقبہ بن ابی معیط تھا جسے أشقاھم سے موسوم کیا گیا ہے۔
➋ امام صاحب نے اس روایت سے ماکول اللحم کے گوبر کے پاک ہونے پر استدلال کیا ہے۔ اور یہ درست ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے باوجود نماز جاری رکھی، بعد میں اعادہ بھی نہیں کیا، حالانکہ بعد میں آپ کو یقیناًً پتا چل گیا تھا کہ یہ فلاں چیز ہے۔ جو لوگ اسے پلید سمجھتے ہیں، ان میں سے امام مالک رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ ایسی چیز اگر نماز کے اندر جسم یا کپڑے کو لگ جائے تو نماز مکمل کی جا سکتی ہے، البتہ اگر نماز سے پہلے لگی ہو تو صفائی ضروری ہے لیکن امام نسائی رحمہ اللہ کا استدلال زیادہ قوی ہے۔
➌ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اگرچہ جرم ہے، مگر کم از کم یہ ہدایت کا راستہ بند نہیں کرتی، مگر نبی کی گستاخی اور توہین مستقل طور پر ہدایت کا راستہ بند کر دیتی ہے۔ آپ کی گستاخی کرنے والے وہ سب کے سب کفر پر مرے مگر محض مخالفت کرنے والوں کواللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب فرما دی۔ اہل اللہ سے کسی مسئلے میں اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کی گستاخی اللہ کی رحمت و توفیق سے محروم کر دیتی ہے۔ اہل علم کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے۔
➍ جب ظالم کا ظلم حد سے بڑھ جائے تو اس کا نام لے کر بددعا کی جا سکتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 308   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.