الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: اذان کے احکام و مسائل
The Book of the Adhan (The Call to Prayer)
10. بَابُ : هَلْ يُؤَذِّنَانِ جَمِيعًا أَوْ فُرَادَى
10. باب: کیا دونوں مؤذن ایک ساتھ اذان دیتے تھے یا یکے بعد دیگرے؟
Chapter: Should They Call The Adhan Together or Separately?
حدیث نمبر: 640
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا حفص، عن عبيد الله، عن القاسم، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا اذن بلال فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن ام مكتوم، قالت: ولم يكن بينهما إلا ان ينزل هذا ويصعد هذا".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَذَّنَ بِلَالٌ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، قَالَتْ: وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَهُمَا إِلَّا أَنْ يَنْزِلَ هَذَا وَيَصْعَدَ هَذَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بلال اذان دیں تو کھاؤ پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں، ان دونوں کے درمیان صرف اتنا وقفہ ہوتا تھا کہ یہ اتر رہے ہوتے اور وہ چڑھ رہے ہوتے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 13 (622، 623)، مختصراً الصوم 17 (1918، 1919)، صحیح مسلم/الصیام 8 (1092)، (تحفة الأشراف: 17535)، مسند احمد 6/44، 45، 185، 186، سنن الدارمی/الصلاة 4 (1227) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مبالغہ کے طور پر ایسا کہا ہے، ورنہ صحیح بخاری میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں صراحت ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ تہجد پڑھنے والوں کو اور سونے والوں کی متنبہ کرنے کے لیے اذان دیتے تھے کہ جا کر سحری کھا لو، یا غسل وغیرہ کی ضرورت ہو تو فارغ ہو لو، (دیکھئیے حدیث نمبر ۶۴۲)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري1919عائشة بنت عبد اللهكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن أم مكتوم فإنه لا يؤذن حتى يطلع الفجر
   صحيح مسلم845عائشة بنت عبد اللهابن أم مكتوم يؤذن لرسول الله وهو أعمى
   سنن أبي داود535عائشة بنت عبد اللهابن أم مكتوم كان مؤذنا لرسول الله وهو أعمى
   سنن النسائى الصغرى640عائشة بنت عبد اللهإذا أذن بلال فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن أم مكتوم قالت ولم يكن بينهما إلا أن ينزل هذا ويصعد هذا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 535  
´نابینا آدمی کی اذان کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن تھے اور وہ نابینا تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 535]
535۔ اردو حاشیہ:
نابینے شخص کا اذان دینا یا امامت کا اہل ہونے کی صورت میں امامت کرانا بالکل صحیح اور جائز ہے۔ اذان کے بارے میں ظاہر ہے کہ کوئی دوسرا ہی اس کی رہنمائی کرے گا۔ اور آج کل تو ایسی گھڑیاں بھی ایجاد ہو چکی ہیں، جن سے ایسے لوگوں کو وقت معلوم کرنے میں دقت نہیں ہوتی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 535   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 640  
´کیا دونوں مؤذن ایک ساتھ اذان دیتے تھے یا یکے بعد دیگرے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بلال اذان دیں تو کھاؤ پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں، ان دونوں کے درمیان صرف اتنا وقفہ ہوتا تھا کہ یہ اتر رہے ہوتے اور وہ چڑھ رہے ہوتے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 640]
640 ۔ اردو حاشیہ:
ایک اترتا اور دوسرا چڑھ جاتا تھا۔ اس سے قلت میں مبالغہ مقصود ہے، جیسا کہ عرف میں اس قسم کے جملے مشہور ہیں، ورنہ تو دو اذانوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی اکثر کتب میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ اذان اول کا آغاز رات کے دوسرے نصف حصے سے ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علماء کے ہاں اس کا مفہوم یہ ہے کہ پہلا مؤذن اذان کے بعد بیٹھا ذکر و دعا کرتا رہتا تھا حتیٰ کہ فجر طلوع ہوتی اور اسے نظر آنے لگتی تو وہ نیچے اتر کر دوسرے مؤذن کو اوپر بھیج دیتا تھا۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ دوسرے مؤذن حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینے تھے، فجر نہیں دیکھ سکتے تھے، انہیں اطلاع دینا ضروری تھا۔ لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس قول کی تردید میں فرماتے ہیں: سیاق حدیث کی واضح مخالفت کے ساتھ ساتھ یہاں اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ وہ کون سی خاص دلیل ہے جس کی بنا پر انہوں نے اس معنی کی تصحیح کی ہے اور یہ مفہوم مراد لیا ہے یہاں تک کہ ان کے لیے یہ تاویل کرنا جائز ہو گئی؟ دیکھیے: [فتح الباري: 125/2]
بہرحال لگتا ہے کہ دونوں اذانوں کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ نہ ہوتا تھا، اسے منٹوں ہی میں بیان کیا جا سکتا ہے، گھنٹوں میں نہیں، یعنی اندازاً 20، 30 منٹ کا فاصلہ ہوتا ہو گا۔ واللہ أعلم۔
➌ روایت سے ثابت ہوا کہ دو مؤذن الگ الگ اذان کی پہچان کی سہولت کے لیے تھے نہ کہ اس لیے کہ دونوں اکٹھے اذان کہیں۔ اس کا تو کوئی فائدہ ہی نہ تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 640   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.