الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
3. باب وَمِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ
3. باب: سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2958
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا عبد الملك بن ابي سليمان، قال: سمعت سعيد بن جبير يحدث، عن ابن عمر، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم " يصلي على راحلته تطوعا اينما توجهت به، وهو جاء من مكة إلى المدينة، ثم قرا ابن عمر هذه الآية ولله المشرق والمغرب سورة البقرة آية 115، فقال ابن عمر: ففي هذا انزلت هذه الآية "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، قَال: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ تَطَوُّعًا أَيْنَمَا تَوَجَّهَتْ بِهِ، وَهُوَ جَاءٍ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ، ثُمَّ قَرَأَ ابْنُ عُمَرَ هَذِهِ الْآيَةَ وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ سورة البقرة آية 115، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَفِي هَذَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ آتے ہوئے نفل نماز اپنی اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ اونٹنی جدھر بھی چاہتی منہ پھیرتی ۱؎، ابن عمر نے پھر یہ آیت «ولله المشرق والمغرب» اللہ ہی کے لیے مغرب و مشرق ہیں (البقرہ: ۱۱۵) پڑھی۔ ابن عمر کہتے ہیں: یہ آیت اسی تعلق سے نازل ہوئی ہے ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- قتادہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: آیت: «ولله المشرق والمغرب فأينما تولوا فثم وجه الله» (البقرة: ۱۱۵) منسوخ ہے، اور اسے منسوخ کرنے والی آیت «فول وجهك شطر المسجد الحرام» آپ اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیں (البقرہ: ۱۴۴) ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 4 (700)، سنن النسائی/الصلاة 23 (492)، تحفة الأشراف: 7057)، و مسند احمد (2/20، 41)، وراجع أیضا: صحیح البخاری/الوتر 6 (1000) وتقصیر الصلاة 9 (1098)، 12 (1105)، و سنن ابی داود/ الصلاہ 277 (1224)، وسنن النسائی/الصلاة 23 (491)، والقبلة 1 (745) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: معلوم ہوا کہ مسافر اپنی سواری پر نفلی نماز پڑھ سکتا ہے، اس سواری کا رخ کسی بھی سمت ہو، شرط یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت قبلہ رخ ہونا ضروری ہے اس کے بعد جہت قبلہ سے ہٹ جانے میں کوئی حرج نہیں۔
۲؎: عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک آیت کے سبب نزول کے سلسلے میں کئی واقعات منقول ہوتے ہیں، دراصل ان سب پروہ آیت صادق آتی ہے، یا متعدد واقعات پر وہ آیت دوبارہ نازل ہوتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صفة الصلاة

قال الشيخ زبير على زئي: (2958) إسناده ضعيف
قول قتاده: ”هي منسوخة“ سنده ضعيف، سعيد بن أبى عروبة عنعن وهو مدلس (تقدم: 30)

   صحيح البخاري1000عبد الله بن عمريصلي في السفر على راحلته حيث توجهت به يومئ إيماء صلاة الليل إلا الفرائض يوتر على راحلته
   صحيح البخاري999عبد الله بن عمريوتر على البعير
   صحيح البخاري1095عبد الله بن عمريصلي على راحلته يوتر عليها
   صحيح البخاري1105عبد الله بن عمريسبح على ظهر راحلته حيث كان وجهه يومئ برأسه
   صحيح البخاري1096عبد الله بن عمريصلي في السفر على راحلته أينما توجهت يومئ برأسه
   صحيح مسلم1612عبد الله بن عمريصلي وهو مقبل من مكة إلى المدينة على راحلته حيث كان وجهه فيه نزلت فأينما تولوا فثم وجه الله
   صحيح مسلم1614عبد الله بن عمريصلي على حمار وهو موجه إلى خيبر
   صحيح مسلم1615عبد الله بن عمريوتر على البعير
   صحيح مسلم1610عبد الله بن عمريصلي سبحته حيثما توجهت به ناقته
   صحيح مسلم1611عبد الله بن عمريصلي على راحلته حيث توجهت به
   صحيح مسلم1616عبد الله بن عمريصلي على راحلته حيثما توجهت به
   صحيح مسلم1618عبد الله بن عمريسبح على الراحلة قبل أي وجه توجه يوتر عليها لا يصلي عليها المكتوبة
   صحيح مسلم1617عبد الله بن عمريوتر على راحلته
   جامع الترمذي472عبد الله بن عمريوتر على راحلته
   جامع الترمذي2958عبد الله بن عمريصلي على راحلته تطوعا أينما توجهت به
   سنن أبي داود1226عبد الله بن عمريصلي على حمار وهو متوجه إلى خيبر
   سنن أبي داود1224عبد الله بن عمريسبح على الراحلة أي وجه توجه يوتر عليها لا يصلي المكتوبة عليها
   سنن النسائى الصغرى1688عبد الله بن عمريوتر على بعيره
   سنن النسائى الصغرى744عبد الله بن عمريصلي على راحلته في السفر حيثما توجهت
   سنن النسائى الصغرى1689عبد الله بن عمريوتر على البعير
   سنن النسائى الصغرى745عبد الله بن عمريصلي على الراحلة قبل أي وجه توجه به ويوتر عليها لا يصلي عليها المكتوبة
   سنن النسائى الصغرى493عبد الله بن عمريصلي على راحلته في السفر حيثما توجهت به
   سنن النسائى الصغرى741عبد الله بن عمريصلي على حمار وهو متوجه إلى خيبر
   سنن النسائى الصغرى491عبد الله بن عمريسبح على الراحلة قبل أي وجه تتوجه يوتر عليها لا يصلي عليها المكتوبة
   سنن النسائى الصغرى492عبد الله بن عمريصلي على دابته وهو مقبل من مكة إلى المدينة فيه أنزلت فأينما تولوا فثم وجه الله
   سنن النسائى الصغرى1687عبد الله بن عمريوتر على الراحلة
   سنن ابن ماجه1200عبد الله بن عمريوتر على بعيره
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم112عبد الله بن عمريصلي على راحلته فى السفر حيثما توجهت به
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم176عبد الله بن عمريصلي وهو على حمار وهو موجه إلى خيبر
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم170عبد الله بن عمر يوتر على البعير
   المعجم الصغير للطبراني276عبد الله بن عمر يصلي فى السفر على راحلته ، ويومئ إيماء ، ويجعل سجوده أخفض من ركوعه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 112  
´قبلے کا بیان`
«. . . 278- وبه: أنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي على راحلته فى السفر حيثما توجهت به، قال عبد الله بن دينار: وكان عبد الله بن عمر يفعل ذلك. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں اپنی سواری پر، جس طرف بھی اس کا رخ ہوتا تھا (نفل) نماز پڑھتے تھے۔ عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کرتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 112]

تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 37/700، من حديث مالك، والبخاري 1096، من حديث عبدالله بن دينار به]
تفقه:
➊ سواری پر نفل نماز پڑھنا جائز ہے جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہے لیکن فرض نماز جائز نہیں ہے جیسا کہ صحیح بخاری [1097۔ 1099] اور صحیح مسلم [700] وغیرہما کی احادیث سے ثابت ہے۔
➋ نوافل میں سواری پر قبلہ رُخ ہونا ضروری نہیں ہے تاہم بہتر یہی ہے کہ قبلہ رخ ہو کر نفل شروع کئے جائیں۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سفر میں اپنے گدھے پر بغیر قبلہ رخ ہوئے نماز پڑھتے تھے، آپ اشارے سے رکوع اور سجدہ کرتے اور اپنے چہرے کو کسی چیز پر نہیں رکھتے تھے۔ [الموطأ 1/151، وسنده صحيح]
➌ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اتباعِ سنت میں ہر وقت مستعد اور پیش قدم رہتے تھے۔
➍ جب کشتی چل رہی ہوتی تو سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے اور جب کشتی رُکی ہوتی تو کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 3/155، وسنده صحيح]
➎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کَشتی میں نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: کھڑے ہو کر نماز پڑھو اِلا یہ کہ غرق ہونے کا ڈر ہو۔ [المستدرك للحاكم 275/1 ح1019، وصححه على شرط مسلم و قال: وهوشاذ بمرة، ووافقه الذهبي وسنده حسن، محمد بن الحسين بن ابي الحنين ثقه]
کشتی پر قیاس کرتے ہوئے ہوائی جہاز اور ریل گاڑی میں اضطراری حالت میں فرض نماز پڑھنا جائز ہے۔
➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے سواری پر وتر پڑھا ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ وتر واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 278   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 176  
´سواری پر نماز پڑھنا`
«. . . 400- مالك عن عمرو بن يحيى المازني عن أبى الحباب سعيد بن يسار عن ابن عمر أنه قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي وهو على حمار وهو موجه إلى خيبر. . . .»
. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر بیٹھے خیبر کی طرف رخ کئے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 176]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 700/35، دار السلام:1614، من حديث ما لك به .]

تفقه:
➊ سواری (چاہے وہ کوئی جانور ہی ہو) نفل نماز پڑھنا جائز ہے۔
➋ سواری پر نفل نماز پڑھنے کی صورت میں قبلہ رخ ہونا فرض نہیں ہے۔
➌ یحیی بن سعید الانصاری فرماتے ہیں: میں نے انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) کو سفر میں دیکھا، آپ ایک گدھے پر (بیٹھے) نماز پڑھ رہے تھے، آپ کا رخ قبلے کی طرف نہیں تھا، آپ اشارے سے رکوع اور سجدہ کررہے تھے لیکن اپنا چہرہ کسی چیز نہیں رکھتے تھے۔ [الموطأ 151/1ح 352 و سنده صحيح، م]
➍ گدھے پر سواری کرنا قطعاً معیوب نہیں ہے۔
➎ یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع پر دلیل ہے۔
➏ مزید فقہی فوائد کے لئے دیکھئے [الموطأ حديث:28، صحيح بخاري: 3468]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 400   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 491  
´قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرنے کی صورت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر نفل پڑھتے تھے، وہ چاہے جس طرف متوجہ ہو جاتی، نیز آپ اس پر وتر (بھی) پڑھتے تھے، البتہ فرض نماز اس پر نہیں پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 491]
491 ۔ اردو حاشیہ:
➊نفل نماز چونکہ ہر وقت پڑھی جا سکتی ہے، سفر میں بھی حضر میں بھی۔ اگر سفر میں قبلے کا یا نیچے اتر کر پڑھنے کا پابند کیا جاتا تو یہ ہوتاکہ مسافر نفلوں سے محروم رہتا یا سفر نہ کر سکتا، اس لیے نفل نماز میں رعایت رکھی گئی کہ مسافر سفر کے دوران میں سواری پر نماز پڑھ سکتا ہے، خواہ قبلے کی طرف منہ نہ ہو اور خواہ رکوع اور سجدہ نہ کر سکے، تاہم یہ ضروری ہے کہ آغاز کرتے وقت سواری کا رُخ قبلے کی طرف ہو، بعد میں چاہے جس طرف ہو جائے۔
➋وتر کی نماز سواری پر پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وتر فرض یا واجب نہیں بلکہ نفل ہیں۔ احناف وتر کو واجب کہتے ہیں۔ مزید دیکھیے: [حديث: 462]
➌قبلے کی شرط اس وقت تک ہے جب تک ممکن ہو جب قبلہ رخ ہونا انسان کے بس ہی میں نہ ہو یا بعد میں بدستور قبلہ رخ رہنا محال ہو اور نماز کا وقت بھی جا رہا ہو اور نیچے اترنا ناممکن اور بس میں نہ ہو اور بعد میں اس کی قضا ادا کرنا بھی پریشانی کا باعث ہو تو سواری پر فرض نماز پڑھی جا سکتی ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کشتی میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا حکم دیا اور اگر ایسے نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر نماز پڑھنے کی بھی اجازت دی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 491   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 492  
´قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرنے کی صورت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر (نفل) نماز پڑھ رہے تھے، اور آپ مکہ سے مدینہ آ رہے تھے، اسی سلسلہ میں یہ آیت کریمہ: «فأينما تولوا فثم وجه اللہ» تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے (البقرہ: ۱۱۵) نازل ہوئی۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 492]
492 ۔ اردو حاشیہ:
➊یہ بھی نفل نماز کی بات ہے۔
➋مکہ سے مدینہ آتے ہوئے ظاہر ہے قبلہ پیٹھ کی طرف ہو گا۔
➌اس آیت کی شانِ نزول خاص ہے لیکن حکم عام ہے، یعنی اس جیسے ہر مسئلے میں یہ حکم لاگو ہو گا، مثلاً: قبلے کا پتہ نہ چلے یا غلطی سے قبلے کی بجائے کسی اور طرف (منہ کر کے) نماز پڑھ لی گئی ہو، وغیرہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 492   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 744  
´ایسی حالت کا بیان جس میں قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرنا جائز ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں اپنی سواری پر نماز پڑھتے تھے خواہ وہ کسی بھی طرف متوجہ ہو جاتی۔ مالک کہتے ہیں کہ عبداللہ بن دینار کا کہنا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 744]
744 ۔ اردو حاشیہ: لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ نماز کا آغاز کرتے وقت سواری کا رخ قبلے کی طرف ہو۔ بعد میں چاہے اس کا رخ کسی طرف بھی ہو جائے۔ دوسری روایت میں اس امر کی صراحت موجود ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 744   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 745  
´ایسی حالت کا بیان جس میں قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرنا جائز ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر نماز پڑھتے خواہ وہ کسی بھی طرف آپ کو لے کر متوجہ ہوتی، وتر بھی اسی پر پڑھتے تھے، البتہ فرض نماز اس پر نہیں پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 745]
745 ۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 491۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 745   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1200  
´سواری پر وتر پڑھنے کا بیان۔`
سعید بن یسار کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا، میں پیچھے ہو گیا، اور نماز وتر ادا کی، انہوں نے پوچھا: تم پیچھے کیوں رہ گئے؟ میں نے کہا: میں وتر پڑھ رہا تھا، انہوں نے کہا: کیا تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میں اسوہ حسنہ نہیں ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ ہی پر وتر پڑھ لیتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1200]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز وتر کی ادایئگی کے لئے سواری سے اترنا ضروری نہیں لیکن فرض نماز زمین پر ہی ادا کی جائے۔

(2)
سفر میں وتر پڑھے جاتے ہیں۔

(3)
سفر میں ساتھیوں کا خیال رکھنا چاہیے۔

(4)
اگر کسی ساتھی کی غلطی معلوم ہو تو اسے اچھے طریقے سے صحیح مسئلہ بتا دینا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1200   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2958  
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ آتے ہوئے نفل نماز اپنی اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ اونٹنی جدھر بھی چاہتی منہ پھیرتی ۱؎، ابن عمر نے پھر یہ آیت «ولله المشرق والمغرب» اللہ ہی کے لیے مغرب و مشرق ہیں (البقرہ: ۱۱۵) پڑھی۔ ابن عمر کہتے ہیں: یہ آیت اسی تعلق سے نازل ہوئی ہے ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2958]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ مسافر اپنی سواری پر نفلی نماز پڑھ سکتا ہے،
اس سواری کا رخ کسی بھی سمت ہو،
شرط یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت قبلہ رخ ہونا ضروری ہے اس کے بعد جہت قبلہ سے ہٹ جانے میں کوئی حرج نہیں۔

2؎:
اللہ ہی کے لیے مغرب ومشرق ہیں (البقرۃ: 115)
3؎:
عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک آیت کے سبب نزول کے سلسلے میں کئی واقعات منقول ہوتے ہیں،
دراصل ان سب پروہ آیت صادق آتی ہے،
یا متعدد واقعات پر وہ آیت دوبارہ نازل ہوتی ہے،
وغیرہ وغیرہ۔

4؎:
آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں (البقرۃ: 144)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2958   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 472  
´سواری پر وتر پڑھنے کا بیان۔`
سعید بن یسار کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں ابن عمر رضی الله عنہما کے ساتھ چل رہا تھا، میں ان سے پیچھے رہ گیا، تو انہوں نے پوچھا: تم کہاں رہ گئے تھے؟ میں نے کہا: میں وتر پڑھ رہا تھا، انہوں نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لیے اسوہ نہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اپنی سواری ہی پر وتر پڑھتے دیکھا ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر​/حدیث: 472]
اردو حاشہ:
1؎:
متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سواری پر بھی وتر پڑھا کرتے تھے،
اس لیے کسی کو یہ حق نہیں کہ اس کو نا پسند کرے اور یہ صرف جائز ہے نہ کہ فرض و واجب ہے،
کبھی کبھی آپ ﷺ سواری سے اتر کر بھی پڑھا کرتے تھے،
ہر دونوں صورتیں جائز ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 472   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1226  
´سواری پر نفل اور وتر پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا آپ کا رخ خیبر کی جانب تھا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1226]
1226۔ اردو حاشیہ:
گدھا، اس کا گوشت کھانا حرام ہے مگر اس کا جسم، اگر اس پر نجاست نہ لگی ہو تو پاک ہے اور اس پر نماز بھی صحیح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1226   
حدیث نمبر: 2958M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) ويروى عن قتادة، انه قال: في هذه الآية ولله المشرق والمغرب فاينما تولوا فثم وجه الله سورة البقرة آية 115 قال قتادة: هي منسوخة نسخها قوله: فول وجهك شطر المسجد الحرام سورة البقرة آية 144 " اي تلقاءه، حدثنا بذلك محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا يزيد بن زريع، عن سعيد، عن قتادة.(مرفوع) وَيُرْوَى عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّهُ قَالَ: فِي هَذِهِ الْآيَةِ وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ سورة البقرة آية 115 قَالَ قَتَادَةُ: هِيَ مَنْسُوخَةٌ نَسَخَهَا قَوْلُهُ: فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سورة البقرة آية 144 " أَيْ تِلْقَاءَهُ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ.
بیان کیا اسے مجھ سے محمد بن عبدالملک بن ابی الشوارب نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا یزید بن زریع نے اور یزید بن زریع نے سعید کے واسطہ سے قتادہ سے روایت کی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 19276) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صفة الصلاة

حدیث نمبر: 2958M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) ويروى عن قتادة، انه قال: في هذه الآية ولله المشرق والمغرب فاينما تولوا فثم وجه الله سورة البقرة آية 115 قال قتادة: هي منسوخة نسخها قوله: فول وجهك شطر المسجد الحرام سورة البقرة آية 144 " اي تلقاءه، حدثنا بذلك محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا يزيد بن زريع، عن سعيد، عن قتادة.(مرفوع) وَيُرْوَى عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّهُ قَالَ: فِي هَذِهِ الْآيَةِ وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ سورة البقرة آية 115 قَالَ قَتَادَةُ: هِيَ مَنْسُوخَةٌ نَسَخَهَا قَوْلُهُ: فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سورة البقرة آية 144 " أَيْ تِلْقَاءَهُ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ.
بیان کیا اسے مجھ سے محمد بن عبدالملک بن ابی الشوارب نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا یزید بن زریع نے اور یزید بن زریع نے سعید کے واسطہ سے قتادہ سے روایت کی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 19276) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صفة الصلاة


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.