حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني سعيد بن المسيب، ان ابا هريرة رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" يتركون المدينة على خير، ما كانت لا يغشاها إلا العواف، يريد عوافي السباع والطير، وآخر من يحشر راعيان من مزينة يريدان المدينة ينعقان بغنمهما، فيجدانها وحشا، حتى إذا بلغا ثنية الوداع خرا على وجوههما".حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَال: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" يَتْرُكُونَ الْمَدِينَةَ عَلَى خَيْرِ، مَا كَانَتْ لَا يَغْشَاهَا إِلَّا الْعَوَافِ، يُرِيدُ عَوَافِيَ السِّبَاعِ وَالطَّيْرِ، وَآخِرُ مَنْ يُحْشَرُ رَاعِيَانِ مِنْ مُزَيْنَةَ يُرِيدَانِ الْمَدِينَةَ يَنْعِقَانِ بِغَنَمِهِمَا، فَيَجِدَانِهَا وَحْشًا، حَتَّى إِذَا بَلَغَا ثَنِيَّةَ الْوَدَاعِ خَرَّا عَلَى وُجُوهِهِمَا".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہمیں شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ مدینہ کو بہتر حالت میں چھوڑ جاؤ گے پھر وہ ایسا اجاڑ ہو جائے گا کہ پھر وہاں وحشی جانور، درند اور پرند بسنے لگیں گے اور آخر میں مزینہ کے دو چرواہے مدینہ آئیں گے تاکہ اپنی بکریوں کو ہانک لے جائیں لیکن وہاں انہیں صرف وحشی جانور نظر آئیں گے آخر ثنیۃ الوداع تک جب پہنچیں گے تو اپنے منہ کے بل گر پڑیں گے۔
Narrated Abu Huraira: I heard Allah's Apostle saying, "The people will leave Medina in spite of the best state it will have, and none except the wild birds and the beasts of prey will live in it, and the last persons who will die will be two shepherds from the tribe of Muzaina, who will be driving their sheep towards Medina, but will find nobody in it, and when they reach the valley of Thaniyat-al-Wada`, they will fall down on their faces dead."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 30, Number 98
يتركون المدينة على خير ما كانت لا يغشاها إلا العواف وآخر من يحشر راعيان من مزينة يريدان المدينة ينعقان بغنمهما فيجدانها وحشا حتى إذا بلغا ثنية الوداع خرا على وجوههما
يتركون المدينة على خير ما كانت لا يغشاها إلا العوافي ثم يخرج راعيان من مزينة يريدان المدينة ينعقان بغنمهما فيجدانها وحشا حتى إذا بلغا ثنية الوداع خرا على وجوههما
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1874
حدیث حاشیہ: یہ پیش گوئی قرب قیامت سے متعلق ہے۔ ”ہر کمالے را زوالے“ اصول قدرت ہے تو قرب قیامت ایسا ہونا بھی بعید نہیں ہے اورفرمان نبوی اپنی جگہ بالکل حق ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1874
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1874
فوائد و مسائل: باب اور حدیث میں مناسبت: باب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہے کہ ترجمۃ الباب میں مذکور ہے کہ جو شخص مدینے سے نفرت کرے، اور جو باب کے تحت حدیث پیش کی ہے کہ لوگ مدینہ کو بہتر حال میں چھوڑ جائیں گے اور وہ وقت ایسا ہو گا کہ مدینے میں صرف وحشی جانور اور درندے بسیں گے، لہٰذا مناسبت کچھ اس طرح ہے کہ قبل از قیامت لوگ مدینے کو چھوڑ جائیں گے اور اسے ویران کر دیں گے اور جو اس کو چھوڑ کر جائے گا وہ ”من رغب“ میں شامل ہو گا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔ ایک حدیث کے مطابق جس کا امام مالک رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: البتہ تم چھوڑو گے مدینہ کو اچھے حال میں یہاں تک کہ آئے گا اس میں کتا یا بھیڑیا تو پیشاب کیا کرے گا مسجد کے کھنبو یا منبر پر، صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ! اس زمانے میں مدینہ کے پھلوں کو کوں کھائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو جانور بھوکے ہوں گے پرندے یا درندے۔ [رواه ملك فى ”الموطأ“ عن أبى هريرة رضى الله عنه فى كتاب الجامع، ص619] امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «المختار أن هذا الترك يكون فى آخر الزمان عند قيام الساعة .»[فتح الباري، ج5، ص79] ”(مدینہ کا ویران ہونا) یہ قیامت سے قبل کا زمانہ ہو گا“ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «الظاهر أن هذا الترك يكون فى آخر الزمان»”یعنی مدینہ کا ویران ہونا یہ آخری زمانے میں ہو گا۔“[المفهم، ج3، ص501] لٰہذا ترجمعہ الباب اور حدیث میں مناسبت یہ ہوئی کہ لوگ مدینے کو ویران کر دیں گے حتیٰ کہ اس میں وحشی جانور اور درندے بسنے لگیں گے اور وہ وقت قیامت کے قریب ہو گا۔ لٰہذا جو لوگ اسے ویران کر دیں گے ان کا ذکر ترجمعہ الباب میں کیا گیا ہے اور ویران ہونے کا ذکر حدیث میں ہے، یہیں سے ترجمعہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
فائدہ: مذکورہ بالا حدیث صحیح بخاری میں موجود ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جو اس حدیث کے راوی ہیں آپ رضی اللہ عنہ حدیث کے الفاظ نقل فرماتے ہیں کہ: «يتركون المدينه على خير ماكانت»”مدینہ کو لوگ چھوڑ دیں گے اس وقت مدینہ کی بہتر حالت ہو گی۔“ جب یہ الفاظ ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے سنے تو آپ نے ان الفاظ کا انکار فرمایا اور آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یہ ہیں: «اعمر ما كانت» یعنی مدینہ کو جب چھوڑیں گے تو اس وقت بہت زیادہ آباد ہو گا۔ کیوں کہ اگر آپ یہ فرماتے کہ جب مدینہ چھوڑ دیں گے تو اس وقت مدینہ بہترین حالت پر ہو گا تو لازم آتا ہے کہ یہ زمانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ہو کیوں کہ بہترین زمانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی تھا۔ یہ بات ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یاد آ گئی تو آپ نے فرمایا: «صدقت والذي نفسي بيده»”کہ آپ نے سچ فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔“[تاريخ المدينة المنورة لابن شيبه، ج1، ص277 وسنده حسن]
محترم قارئین! یہ روایت واضح ان لوگوں کا رد کرتی ہے جو ذخیرہ احادیث پر یہ طعن و شکنی کرتے نظر آتے ہیں کہ روایت بالمعنی میں کئی اغلاط راویان حدیث سے سرزد ہوئیں۔ یہ واضح دلیل ہے روایت بالمعنی کی طرف اصلاح کی، اگر غور کیا جائے تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے لفظ کا مطلب درست ہو سکتا تھا کہ بہترین حالت سے دینوی حالت مراد لی جائے، مگر لفظ حدیث چونکہ عام ہیں اسی لیے دینی اور دنیاوی دونوں کا احتمال موجود تھا لہٰذا صحابی نے دوسرے صحابی کے الفاظ کی اصلاح فرما دی۔ اس مبیّن دلیل سے واضح ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کا مکمل طور پر خیال رکھا کرتے تھے۔ کیوں کہ شریعت میں روایت بالمعنی بیان کرنا درست ہے اس کی کئی مثالیں قرآن مجید میں بھی موجود ہیں۔ محدثین کرام نے روایت بالمعنی کو درست قرار دیا ہے مگر ساتھ ساتھ اس اجازت کے ساتھ کئی مضبوط شرائط بھی عائد فرمائی ہیں، جن سے غلطی کا احتمال صفر کے درجے تک پہنچ جاتا ہے، مزید روایت بالمعنی اس راوی سے قبول کرتے جو الفاظ و معانی ومطالب کو مکمل طور پر جاننے والا ہوتا۔ اہل علم نے روایت بالمعنی پر کئی ایک شروط لگائی ہیں۔
روایت بالمعنی کی شرائط: روایت بالمعنی کی اجازت محدثین نے مطلق طور پر نہیں دی جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے تلمیذ خاص امام سخاوی رحمہ اللہ المتوفی (902ھ) فرماتے ہیں: «لا تجوز له الرواية بالمعني مطلقًا، قاله طائفة من المحدثين والفقهاء والأصولين من الشافعية وغيرهم .»[فتح المغيث، ج2، ص122] ”یعنی راوی کو روایت بالمعنی کی اجازت مطلق نہیں ہے۔ محدثین فقہاء اور اہل اصولین شافعیہ اور ان کے علاوہ کی جماعت کا یہی کہنا ہے۔“ راوی اپنی روایت میں بہت محتاط ہو کہ وہ جملہ کو آگے پیچھے نہ کرنے والا ہو اور نہ ہی خفیف کو ثقیل اور ثقیل کو خفیف بنانے والا ہو۔ علم الحدیث کی کتب میں محدثین نے روایت بالمعنی کی مندرجہ ذیل شرائط عائد فرمائی ہیں۔ ➊ اس حدیث کے الفاظ تعبدی نہ ہوں۔ جیسے اذکار، دعائیں، اذان وغیرہ ➋ راوی حدیث عربی لغت سے بہترین آگاہی رکھتا ہو۔ ➌ حدیث کے معنی و مطالب سے اچھی طرح معلومات و آگاہی رکھتا ہو اگرچہ اسے بعینہ الفاظ یاد نہ ہوں لیکن متبادل الفاظ میں اس حدیث کے معنی مکمل داخل ہوں۔ ➍ جو حدیث از قسم جو امع الکم ہو اس میں روایت بالمعنی نہ کرے۔ ➎ راوی شرعی احکامات کے مقاصد و غایات سے اچھی طرح واقفیت رکھتا ہو۔ روایت بالمعنی کی تفصیل کے لیے ان کتب کی طرف مراجعت کیجیے۔ ● [فتح المغيث، ج3، ص133تا140] ● [الاحكام فى اصول الاحكام، ج2، ص76] ● [الكفاية فى علم الراوية، ص198] ● [مقدمة ابن الصلاح]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1874
حدیث حاشیہ: (1) بعض شارحین نے لکھا ہے کہ جب مرکز خلافت مدینہ طیبہ تھا تو دنیا کی تمام نعمتیں وہاں موجود تھیں لیکن جب خلافت وہاں سے منتقل ہو کر شام، پھر عراق چلی گئی تو اس پر اعراب نے قبضہ کر لیا اور فتنوں کی بارش ہونے لگی، چنانچہ وہ لوگوں سے خالی ہو گیا اور ان کی جگہ درندوں اور چرندوں نے لے لی لیکن تاریخی اعتبار سے اس بیان کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ مدینہ طیبہ پر کبھی ایسا وقت آیا ہو، البتہ دیگر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ قرب قیامت کے وقت مدینہ طیبہ ویران ہو جائے گا۔ یہاں پرندوں اور درندوں کا قبضہ ہو گا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ قیامت کے نزدیک مدینہ طیبہ آخری شہر ہو گا جو تباہی و بربادی سے دوچار ہو گا: آخر کار ”ہر کمالے را زوالے“ کا اصول کارفرما ہو گا۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ قیامت تک آباد رہے گا۔ (فتح الباري: 117/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1874
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3366
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے بارے میں فرمایا: ”اس کے باشندے یقینا اسے اس کی بہترین حالت میں رزق کے متلاشیوں کی ماتحتی میں چھوڑ جائیں گے،“ رزق کے متلاشیوں سے مراد درندے اور پرندے ہیں، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، ابو صفوان عبداللہ بن عبدالملک یتیم تھا، اور اس نے دس سال ابن جریج کی گود میں پرورش پائی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3366]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: عَوَافِيْ: عَافِيَةٌ کی جمع ہے، خالی جگہ میں رزق کی تلاش میں آنے والے درندوں اور پرندوں کو کہتے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3366
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3367
حضرت ابو ہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”لوگ مدینہ کو اس کی بہترین حالت میں چھوڑ جائیں گے، اس میں صرف عوافی ٹھہریں گے، عوافی سے مراد درندے اور پرندے ہیں، پھر مزینہ قبیلے کے دو چرواہے مدینہ جانے کے ارادے سے نکلیں گے، اپنی بکریوں کو آواز دیں گے، اور اسے وحشیوں کی زمین پائیں گے، جب ثنیۃ الوداع تک پہنچیں گے، تو اپنے منہ کے بل گر پڑیں گے۔“ اور یہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ وہ بکریوں کو وحشی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3367]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشن گوئی یقیناً سچی ہے، جس کا ظہور قیامت کے قریب ہوگا، کہ مدینہ آبادی سے بالکل خالی ہو جائے گا اور اس میں جنگلوں کے درندے اور پرندے ڈیرہ ڈال لیں گے مزینہ کے دو چرواہے اس کا رخ کریں گے تو وقوع قیامت کی بنا پر اس میں داخل نہیں ہو سکیں گے ان کے داخلہ سے پہلے قیامت برپا ہو جائے گی۔