90. بَابُ مَنْ بَاعَ نَخْلاً قَدْ أُبِّرَتْ أَوْ أَرْضًا مَزْرُوعَةً أَوْ بِإِجَارَةٍ:
90. باب: جس نے پیوند لگائی ہوئی کھجوریں یا کھیتی کھڑی ہوئی زمین بیچی یا ٹھیکہ پر دی تو میوہ اور اناج بائع کا ہو گا۔
(90) Chapter. Whoever sold or rented date-palms which were pollinated, or land which was sown (with wheat or barley).
Narrated `Abdullah bin `Umar: Allah's Apostle said, "If somebody sells pollinated date palms, the fruits will be for the seller unless the buyer stipulates that they will be for himself (and the seller agrees).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 406
● صحيح البخاري | 2379 | عبد الله بن عمر | من ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع من ابتاع عبدا وله مال فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع |
● صحيح البخاري | 2204 | عبد الله بن عمر | من باع نخلا قد أبرت فثمرها للبائع إلا أن يشترط المبتاع |
● صحيح البخاري | 2206 | عبد الله بن عمر | أيما امرئ أبر نخلا ثم باع أصلها فللذي أبر ثمر النخل إلا أن يشترطه المبتاع |
● صحيح البخاري | 2716 | عبد الله بن عمر | من باع نخلا قد أبرت فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع |
● صحيح مسلم | 3905 | عبد الله بن عمر | من ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للذي باعها إلا أن يشترط المبتاع من ابتاع عبدا فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع |
● صحيح مسلم | 3902 | عبد الله بن عمر | أيما نخل اشتري أصولها وقد أبرت فإن ثمرها للذي أبرها إلا أن يشترط الذي اشتراها |
● صحيح مسلم | 3901 | عبد الله بن عمر | من باع نخلا قد أبرت فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع |
● صحيح مسلم | 3903 | عبد الله بن عمر | أيما امرئ أبر نخلا ثم باع أصلها فللذي أبر ثمر النخل إلا أن يشترط المبتاع |
● جامع الترمذي | 1244 | عبد الله بن عمر | من ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للذي باعها إلا أن يشترط المبتاع من ابتاع عبدا وله مال فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع |
● سنن أبي داود | 3433 | عبد الله بن عمر | من باع عبدا وله مال فماله للبائع إلا أن يشترطه المبتاع من باع نخلا مؤبرا فالثمرة للبائع إلا أن يشترط المبتاع |
● سنن النسائى الصغرى | 4639 | عبد الله بن عمر | أيما امرئ أبر نخلا ثم باع أصلها فللذي أبر ثمر النخل إلا أن يشترط المبتاع |
● سنن النسائى الصغرى | 4640 | عبد الله بن عمر | من ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع من باع عبدا وله مال فماله للبائع إلا أن يشترط المبتاع |
● سنن ابن ماجه | 2211 | عبد الله بن عمر | من باع نخلا قد أبرت فثمرتها للذي باعها إلا أن يشترط المبتاع من ابتاع عبدا وله مال فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع |
● سنن ابن ماجه | 2212 | عبد الله بن عمر | من باع نخلا وباع عبدا جمعهما جميعا |
● سنن ابن ماجه | 2210 | عبد الله بن عمر | من اشترى نخلا قد أبرت فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 483 | عبد الله بن عمر | من باع نخلا قد ابرت فثمرها للبائع إلا ان يشترطه المبتاع |
● بلوغ المرام | 718 | عبد الله بن عمر | من ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للذي باعها إلا أن يشترط المبتاع |
● مسندالحميدي | 625 | عبد الله بن عمر | من باع عبدا وله مال، فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع، ومن باع نخلا بعد أن تؤبر، فثمرها للبائع إلا أن يشترطه المبتاع |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 483
´جانوروں سے حسن سلوک کی فضیلت`
«. . . 234- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”من باع نخلا قد أبرت فثمرها للبائع إلا أن يشترطه المبتاع.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کھجور کے وہ درخت بیچے جن کی پیوندکاری کی گئی ہو تو اس کے پھل کا حقدار بیچنے والا ہے الا یہ کہ خریدنے والا شرط طے کر لے کہ پھل میرا ہو گا . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 483]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2204، ومسلم 77/1543، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ عام دلیل اپنے عموم پر جاری رہتی ہے الا یہ کہ کوئی خاص دلیل اس کی تخصیص کر دے۔
➋ لین دین اور دیگر امور میں مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا اعتبار ہوگا الا یہ کہ یہ شرائط واضح طور پر کتاب و سنت کے خلاف ہوں تو رد کردی جائیں گی۔
➌ درختوں کی پیوند کاری جائز ہے۔
➍ عبادات ہوں یا معاملات اسلام ہر سلسلے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔
➎ معاملات میں جھگڑے سے بچنے کے لئے وضاحت اور صراحت مستحب ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 234
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2210
´قلم کئے ہوئے کھجور کے درخت کو بیچنے یا مالدار غلام کو بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی تابیر (قلم) کئے ہوئے کھجور کا درخت خریدے، تو اس میں لگنے والا پھل بیچنے والے کا ہو گا، الا یہ کہ خریدار خود پھل لینے کی شرط طے کر لے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2210]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
درختوں کا پھل اس وقت بننا شروع ہوتا ہے جب پھول کے نر حصے کا زردانہ مادہ حصے کی ڈنڈی کے سرے تک پہنچ جائے۔
عام درختوں میں ایک ہی پھول میں نر اور مادہ حصے ہوتے ہیں، اس طرح مادہ پھول آسانی سے بارآور ہو جاتا ہے جو بعد میں پھل بن جاتا ہے۔
بعض پودوں میں نر پھول الگ ہوتے ہیں اور مادہ پھول الگ۔
ان میں حشرات اور ہوا کے ذریعے سے نر پھول کا زردانہ مادہ پھول تک پہنچ جاتا ہے اور پھل بننا شروع ہو جاتا ہے۔
کھجور کے درخت میں نر پھول ایک درخت پر لگتے ہیں اور مادہ پھول دوسرے درخت پر۔
ان میں اگر ہوااور حشرات کے ذریعے سے بار آوری پر اعتماد کیا جائے تو پھل بہت کم لگتا ہے، اس لیے نر درخت کے پھول لے کر مادہ درخت پر چڑھ کر اس کے پھولوں پر چھڑکے جاتے ہیں۔
اس طرح پھل زیادہ لگتا ہے۔
عربی میں اسے تأبیر کہتے ہیں۔
(2)
تأبیر ایک مشقت طلب کام ہے اور اس پر پیداور کی مقدار کا انحصار ہے، اس لیے اگر تأبیر کے بعد درخت بیچا جائے تو بیچنے والے کی محنت ضائع جاتی ہے، چنانچہ سودا کرتے وقت یہ وضاحت ہونی چاہیے کہ صرف درخت بیچا جارہا ہے یا اس کا پھل بھی۔
اگر وضاحت نہ کی گئی ہو تو صرف درخت فروخت ہوگا، اس کا پھل بدستور بیچنے والے کی ملکیت رہے گا، البتہ آئندہ سالوں میں جب خریدار تأبیر کرے گا تو پھل کا مستحق بھی وہی ہوگا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2210
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1244
´پیوند کاری کے بعد کھجور کے درخت کو بیچنے کا اور ایسے غلام کو بیچنے کا بیان جس کے پاس مال ہو۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس نے «تأبیر» ۱؎ (پیوند کاری) کے بعد کھجور کا درخت خریدا تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہو گا ۲؎ الا یہ کہ خریدنے والا (خریدتے وقت پھل کی) شرط لگا لے۔ اور جس نے کوئی ایسا غلام خریدا جس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بیچنے والے ہی کا ہو گا الا یہ کہ خریدنے والا (خریدتے وقت مال کی) شرط لگا لے۔“ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1244]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
تأبیر:
پیوند کاری کرنے کو کہتے ہیں،
اس کی صورت یہ ہے کہ نرکھجورکا گابھا لے کرمادہ کھجورکے خوشے میں رکھ دیتے ہیں،
جب وہ گابھا کھلتااورپھٹتا ہے تو باذن الٰہی وہ پھل زیادہ دیتاہے۔
2؎:
اس سے معلوم ہوا کہ اگر پیوند کا ری نہ کی گئی ہو تو پھل کھجور کے درخت کی بیع میں شامل ہوگا اور وہ خریدارکا ہوگا،
جمہورکی یہی رائے ہے،
جب کہ امام ابوحنیفہ کا یہ قول ہے کہ دونوں صورتوں میں بائع کا حق ہے،
اور ابن ابی لیلیٰ کا کہنا ہے کہ دونوں صورتوں میں خریدارکا حق ہے،
مگریہ دونوں اقوال احادیث کے خلاف ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1244
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3433
´بیچے جانے والے غلام کے پاس مال ہو تو وہ کس کا ہو گا؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی غلام کو بیچا اور اس کے پاس مال ہو، تو اس کا مال بائع لے گا، الا یہ کہتے ہیں کہ خریدار پہلے سے اس مال کی شرط لگا لے ۱؎، (ایسے ہی) جس نے تابیر (اصلاح) کئے ہوئے (گابھا دئیے ہوئے کھجور کا درخت بیچا تو پھل بائع کا ہو گا الا یہ کہ خریدار خریدتے وقت شرط لگا لے (کہ پھل میں لوں گا)۔“ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3433]
فوائد ومسائل:
توضیح۔
کھجوروں پر پھل آنے سے پہلے ان کی خاص انداز سے اصلاح کی جاتی ہے۔
اور مادہ کھجوروں میں نر کا بور وغیرہ ڈالا جاتا ہے۔
اسے تابیر (بورڈالنا۔
یا پیوندکاری) کہتے ہیں۔
اس حدیث میں یہ اشارہ ہے۔
کہ اگر غیر تابیرشدہ کھجور بیچی گئی ہو اور اس پر پھل ہو تو وہ خریدار کیا ہوگا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3433
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2204
2204. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ ”اگر کوئی پیوند کیا ہوا درخت فروخت کرے تو اس کا پھل بائع ہی کو ملے گا الا یہ کہ خریدار اس کی شرط کرلے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2204]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں لفظ غلام بھی آیا ہے۔
جس کا مطلب یہ کہ اگر کوئی شخص اپنا غلام بیچے تو اس وقت جتنا مال غلام کے پاس ہے وہ اصل مالک ہی کا سمجھا جائے گا اورخریدنے والے کو صرف خالی غلام ملے گا۔
ہاں اگر خریدار یہ شرط کر لے کہ میں غلام کو اس کے جملہ املاک سمیت خریدتا ہوں تو پھر جملہ املاک خریدار کے ہوں گے۔
یہی حال پیوندی باغ کا ہے۔
یہ آپس کی معاملہ داری پر موقوف ہے۔
ارض مزروعہ کی بیع کے لیے بھی یہی اصول ہے۔
حافظ فرماتے ہیں:
و هذا کله عند إطلاق بیع النخل من غیر تعرض للثمرة فإن شرطھا المشتري بأن قال اشتریت النخل بثمرتها کانت للمشتري و إن شرطها البائع لنفسه قبل التأبیر کانت له۔
یعنی یہ معاملہ خریدار پر موقف ہے اگر اس نے پھلوں سمیت کی شرط پر سودا کیا ہے تو پھل اسے ملیں گے اور اگر بائع نے اپنے لیے ان پھلوں کی شرط لگا دی ہے تو بائع کا حق ہوگا۔
اس حدیث سے پھلوں کا پیوندی بنانا بھی جائز ثابت ہوا جس میں ماہرین فن نر درختوں کی شاخ کاٹ کر مادہ درخت کی شاخ کے ساتھ باندھ دیتے ہیں اور قدرت خداوندی سے وہ ہر دو شاخیں مل جاتی ہیں۔
پھر وہ پیوندی درخت بکثرت پھل دینے لگ جاتا ہے۔
آج کل اس فن نے بہت کافی ترقی کی ہے اور اب تجربات جدیدہ نے نہ صرف درختوں بلکہ غلہ جات تک کے پودوں میں اس عمل سے کامیابی حاصل کی ہے حتی کہ اعضائے حیوانات پر یہ تجربات کئے جارہے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2204
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2204
2204. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ ”اگر کوئی پیوند کیا ہوا درخت فروخت کرے تو اس کا پھل بائع ہی کو ملے گا الا یہ کہ خریدار اس کی شرط کرلے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2204]
حدیث حاشیہ:
(1)
شریعت کا منشا یہ ہے کہ لین دین کے معاملات میں فریقین کا آپس میں تفصیلات طے کرنا اور دونوں طرف سے ان کا برضا ورغبت قبول کرنا ضروری ہے تاکہ آئندہ چل کر کوئی جھگڑا اور فساد نہ ہو۔
اگر خریدار نے شرط لگادی تو جھگڑا ہی ختم ہوگیا،اگر شرط نہیں لگائی تو پھل وغیرہ بائع کا ہوگا۔
الغرض معاملہ معروف دستور کے مطابق ہوگا اور جس جگہ جو طریقہ رائج ہوگا اس کے مطابق عمل کیا جائے گا۔
امام ابو حنیفہ ؒ کہتے ہیں کہ پیوند لگائے یا نہ لگائے دونوں صورتوں میں پھل بیچنے والے کا ہے۔
والله أعلم. (2)
پیوند کاری یہ ہے کہ مادہ کھجور کے خوشے میں نر کھجور کا خوشہ رکھ دیا جاتا ہے۔
اس پیوند کاری سے پھل زیادہ آتا ہے۔
بعض اوقات ہوا کے ذریعے سے بار آوری خود بخود عمل میں آجاتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2204