فوائد و مسائل
ایک مشہور واقعہ ہے کہ جو حدیث میں آیا ہے اور اس پر ہمارے لبرلز اور ملحدین نکتہ چیں ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔
حدیث میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دوسرا نکاح کرنے سے منع کیا ہو بلکہ حدیث کے شروع میں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں:
«اِنِّيْ لَسْتُ اُحَرِّمُ حَلاَلاً، وَلاَ اُحِلُّ حَرَامًا،»
””بلاشبہ میں حلال کو حرام نہیں کرتا اور نہ ہی حرام کو حلال کرتا ہوں۔۔۔
“
یہ الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت بھی یہ خیال تھا کہ لوگ کہیں اس سے یہ مطلب نہ نکال بیٹھیں کہ یہ نکاح ثانی کی ممانعت ہے، سو بہت صراحت و وضاحت سے فرمایا کہ
”میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کر رہا۔۔۔
“
پھر حدیث کے اگلے حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کی اس تجویز کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر بیان فرمایا:
«وَاﷲِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُوْلِ اﷲِ وَبِنْتُ عَدُوِّ اﷲِ اَبَدًا»
” بخدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اور عدواﷲ کی بیٹی دونوں کبھی جمع نہیں ہوتیں۔
“
بعض اہلِ علم اس کو بطورِ حکم لیتے ہیں اور بعض بطور خبر۔۔۔۔
لیکن جو بھی سمجھا جائے اس جملے میں چھپا درد سمجھنے کے لئے آپ کو مدینہ سے مکہ واپس جانا پڑے گا، کچھ دیر کے لیے صحن کعبہ کا یہ منظر اپنے تصور میں لانا پڑے گا۔
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوجہل اور قریش کے کچھ لوگ وہاں موجود تھے۔ اس دن مکہ معظمہ میں ایک اونٹ نحر کیا گیا تھا۔ ابوجہل نے کہا کون آل فلاں کے اونٹ کی طرف جائے گا وہاں اس کا گو بر، خون اور اوجھڑی لائے پھر آپ کے سجدہ کے وقت آپ کے کندھوں پر ان چیزوں کو ڈال دے۔ کچھ لوگ گئے اور اوجھڑی اٹھا لائے۔ ایک بدبخت عقبہ بن ابی معیط نے سجدہ کی حالت میں اس غلاظت کو آپ کے کندھوں پر رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی دیر تک اس وزن کے سبب سجدے کی حالت میں پڑے رہے۔ کفار مکہ ہنستے رہے حتی کہ ہنسنے کے سبب وہ ایک دوسرے پر جھکے جاتے تھے ہاتھوں پر ہاتھ مارتے اور ٹھٹھہ اڑا رہے تھے۔
ایک شخص نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خبر دی وہ ابھی کم عمری میں ہی تھیں، دوڑتی ہوئی آئیں آپ ابھی تک سجدہ ہی میں تھے۔ انہوں نے آپ پر سے اوجھڑی ہٹائی اور کافروں کو برا بھلا کہنا شروع کیا۔
جب آپ نے نماز ختم کی تو آپ نے دعاکی کہ
”اے اللہ قریش کو پکڑلے۔ اے اللہ قریش کو پکڑ لے۔
“
یہ بددعا قریش کو بہت شاق گزری کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر میں دعا قبول ہوتی ہے جب انہوں نے بددعا سنی تو ہنسنا بند کر دیا اور خوفزدہ ہو گئے۔ پھر آپ نے ایک ایک کانام لیا:
”اے اللہ عمرو بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، عقبہ بن ابی معیط، امیہ بن خلف اور عمارہ بن ولید کو پکڑ لے۔
“
جن لوگوں کے آپ نے نام لیے یہ سب جنگ بدر میں قتل ہوئے اور عذاب الٰہی میں گرفتار ہوئے۔
[صحيح بخاري كتاب الجهاد والسير باب الدعاء على المشركين، مسلم كتاب الجهاد باب مالقي النبى صلى الله عليه وسلم من ا المشركين المنافقين]
یارو! جس نبی کو طائف والوں نے پتھر مارے اور لہو یوں بہا کہ ایڑیوں پر جم گیا اور جوتے نہیں اترتے تھے۔ پہاڑوں کا فرشتہ شدت غم و غضب سے آیا کہ اس بستی پر پہاڑ الٹ دے، لیکن ادھر رحمت ہی رحمت مسکرا رہی تھی کہ نہیں ان کو خبر نہیں کہ میں کون ہوں اللہ میری قوم کو ہدایت دے۔۔۔۔۔
لیکن آج کیوں دعا، بددعاء ہو گئی۔۔۔ ہاں ننھی فاطمہ کے آنسو، بیٹی کا دکھ اور ظالموں کا ٹھٹھہ دکھ دے گیا۔۔۔۔۔
اور برسوں پر ان ا یہ دکھ اس خبر سے تازہ ہو گیا۔۔۔۔ لیکن دیکھیں رسول کیسے انصاف پرور اور دور رس نگاہ رکھنے والے، مزید فرمایا:
«إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّي، وَأَنَا أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا»
فاطمہ مجھے سے ہے، اسی ایک جملے پر ہزار جہان قربان۔۔ سیدہ کی عظمتیں رشک کے ہزار در کھولتی ہیں۔۔۔
فرمایا:
”مجھے خوف ہے کہ فاطمہ اپنے دین کے معاملے میں کسی آزمائش میں نہ گرفتار ہو جائے۔
“
اب اس امکان کو سمجھیں۔۔ وہ خاتون جو سیدنا عکرمہ کی بہن اور ابی جہل کی بیٹی تھیں، اب مسلمان ہیں اور صحابیہ ہیں۔۔ سو سوکناپے کے رشتے سے عام روٹین میں انسان کا دل تنگ ہوتا ہے تو یہاں تو ایک تلخ ماضی بھی ساتھ ساتھ چلتا آ رہا ہے۔۔ سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فکر تھا کہ سوکناپے کے اس رشتے کے بعد، ماضی کی تلخ یادوں کے سبب، سیدہ اس خاتون کے معاملے میں کہیں اعتدال کو کھو نہ بیٹھیں اور اس خاتون کے ساتھ ایسی زیادتی ہو جائے کہ جو گناہ کے زمرے میں آ جائے۔۔۔۔۔ سو اس فکر کا اظہار کیا۔۔۔
اس تمام پس منظر میں اگر کوئی درد دل رکھنے والا ہو، اور اگر کوئی ماضی میں سفر کرے اور کعبے کے اس صحن میں جانکلے کہ جہاں ایک معصوم بچی اپنے بابا پر سے یہ غلاظت ہٹا رہی تھی اور آنسوں کے پیچھے شقی القلب، وحشی صفت لوگوں کے قہقہے گونج رہے تھے۔۔۔ جو ایسا تصور قلب و ذہن میں لا سکے وہ اس رشتے پر موجود تحفظات کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔۔۔ بس پہلو میں دل اور درد دل ہونا چاہیے۔۔۔۔لیکن
سنے کون قصہ درد دل۔۔۔۔۔۔
اور اگر آپ کی فہم و شعور سے جنگ نہیں تو ٹھنڈے دل سے غور کریں گے اس نتیجے پر پہنچنا بہت آسان ہو گا کہ یہ فیصلہ حلال و حرام کا نہیں محض انتظامی تھا اور اس کا اتنا ہی فائدہ اس۔ خاتون کو بھی ہوا کہ جو نکاح سے رہ گئی۔۔۔ کیونکہ ایسا تلخ ماضی ہو تو زندگی کبھی خو شگوار نہیں ہوتی۔۔۔