Narrated Tawus: Ibn `Abbas said, "Allah's Apostle travelled in the month of Ramadan and he fasted till he reached (a place called) 'Usfan, then he asked for a tumbler of water and drank it by the daytime so that the people might see him. He broke his fast till he reached Mecca." Ibn `Abbas used to say, "Allah's Apostle fasted and sometimes did not fast while traveling, so one may fast or may not (on journeys)"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 576
● صحيح البخاري | 4277 | عبد الله بن عباس | المفطرون للصوام أفطروا |
● صحيح البخاري | 4279 | عبد الله بن عباس | صام حتى بلغ عسفان ثم دعا بإناء من ماء فشرب نهارا ليريه الناس فأفطر حتى قدم مكة قال صام رسول الله في السفر وأفطر فمن شاء صام ومن شاء أفطر |
● صحيح البخاري | 2953 | عبد الله بن عباس | صام حتى بلغ الكديد أفطر |
● صحيح البخاري | 4276 | عبد الله بن عباس | خرج في رمضان من المدينة ومعه عشرة آلاف وذلك على رأس ثمان سنين ونصف من مقدمه المدينة فسار هو ومن معه من المسلمين إلى مكة يصوم ويصومون حتى بلغ الكديد وهو ماء بين عسفان وقديد أفطر وأفطروا |
● صحيح البخاري | 1944 | عبد الله بن عباس | خرج إلى مكة في رمضان فصام حتى بلغ الكديد أفطر فأفطر الناس |
● صحيح البخاري | 1948 | عبد الله بن عباس | خرج رسول الله من المدينة إلى مكة فصام حتى بلغ عسفان ثم دعا بماء فرفعه إلى يديه ليريه الناس فأفطر حتى قدم مكة وذلك في رمضان |
● صحيح مسلم | 2608 | عبد الله بن عباس | سافر رسول الله في رمضان فصام حتى بلغ عسفان ثم دعا بإناء فيه شراب فشربه نهارا ليراه الناس ثم أفطر حتى دخل مكة |
● صحيح مسلم | 2609 | عبد الله بن عباس | صام رسول الله في السفر وأفطر |
● صحيح مسلم | 2604 | عبد الله بن عباس | خرج عام الفتح في رمضان فصام حتى بلغ الكديد ثم أفطر |
● سنن أبي داود | 2404 | عبد الله بن عباس | من شاء صام ومن شاء أفطر |
● سنن النسائى الصغرى | 2291 | عبد الله بن عباس | صام في السفر حتى أتى قديدا ثم دعا بقدح من لبن فشرب فأفطر هو وأصحابه |
● سنن النسائى الصغرى | 2316 | عبد الله بن عباس | سافر رسول الله فصام حتى بلغ عسفان ثم دعا بإناء فشرب نهارا ليراه الناس ثم أفطر حتى دخل مكة فافتتح مكة في رمضان |
● سنن النسائى الصغرى | 2315 | عبد الله بن عباس | خرج رسول الله عام الفتح صائما في رمضان حتى إذا كان بالكديد أفطر |
● سنن النسائى الصغرى | 2293 | عبد الله بن عباس | صام حتى بلغ عسفان ثم دعا بإناء فشرب نهارا يراه الناس ثم أفطر |
● سنن النسائى الصغرى | 2292 | عبد الله بن عباس | صام حتى أتى عسفان فدعا بقدح فشرب في رمضان |
● سنن النسائى الصغرى | 2290 | عبد الله بن عباس | صام رسول الله من المدينة حتى أتى قديدا ثم أفطر حتى أتى مكة |
● سنن النسائى الصغرى | 2289 | عبد الله بن عباس | خرج في رمضان فصام حتى أتى قديدا ثم أتي بقدح من لبن فشرب وأفطر هو وأصحابه |
● سنن ابن ماجه | 1661 | عبد الله بن عباس | صام رسول الله في السفر وأفطر |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 248 | عبد الله بن عباس | خرج إلى مكة عام الفتح فى رمضان فصام حتى بلغ الكديد ثم افطر فافطر الناس معه |
● مسندالحميدي | 524 | عبد الله بن عباس | أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج من المدينة عام الفتح في شهر رمضان فصام حتى إذا بلغ الكديد أفطر |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 248
´سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا دونوں طرح جائز ہے`
«. . . عن ابن عباس: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى مكة عام الفتح فى رمضان فصام حتى بلغ الكديد ثم افطر فافطر الناس معه، وكانوا ياخذون بالاحدث فالاحدث من امر رسول الله صلى الله عليه وسلم . . .»
”. . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فتح مکہ والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی طرف رمضان میں روانہ ہوئے تو آپ نے کدید (ایک مقام) تک روزے رکھے پھر آپ نے افطار کیا (روزے نہ رکھے) تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ افطار کیا اور لوگ (صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم اجمعین) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تازہ بہ تازہ حکم پر عمل کرتے تھے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 248]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1944، من حديث مالك به مختصراً ورواه الدارمي 1715، من حديث مالك به، ومسلم 1112، من حديث الزهري به]
تفقه:
➊ سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا دونوں طرح جائز ہے اگر سفر میں سخت مشقت ہے تو افطار افضل ہے اور نہ آسانی کی حالت میں روز ہ بہتر ہے۔ اس مسئلے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے لیکن یہی قول راجح ہے۔ والله اعلم
➋ ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ قصر کرتے رہے اور میں (نماز) پوری پڑھتی رہی، آپ افطار کر تے رہے اور میں روزے رکھتی رہی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! ”تم نے اچھا کیا ہے۔“ [سنن النسائي: 121/3 ح 1457، وسنده صحيح]
● اس روایت پر حافظ ابن تیمیہ کی جرح مردود ہے۔
➌ سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما سفر میں روزہ نہیں رکھتے تھے۔ [الموطأ رواية يحييٰ 295/1 ح 663 و سنده صحيح]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سفر میں روزے رکھتی تھیں۔ [ابن ابي شيبه 16/3 ح 8980 سنده صحيح]
➍ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إن شئت فصم وإن شئت فأفطر» ”اگر تم چاہو تو روزہ رکھو اور اگر چاہو تو افطار کرو۔“ [صحيح بخاري:1943، صحيح مسلم:1121، الاتحاف الباسم:465]
تنبیہ: التحاف الباسم سے یہی کتاب مراد ہے الموطأ امام مالک روایۃ ابن القاسم جس کے متن میں امام عبدالرحمٰن بن القاسم رحمہ اللہ کے بیان کردہ الموطأ کا نسخہ درج ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 50
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1661
´سفر میں روزہ رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزہ رکھا بھی ہے، اور نہیں بھی رکھا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1661]
اردو حاشہ:
فائده:
جس سفر میں نماز قصر کرنا جائز ہے۔
اس میں مسافر کےلئے روزہ چھوڑنا بھی جائز ہے۔
خواہ سفر پیدل ہو یا سواری پر اور سواری خواہ گاڑی ہو یا ہوائی جہاز وغیرہ اور خواہ تھکاوٹ لاحق ہوتی ہو جس میں روزہ مشکل ہو یا تھکاوٹ لاحق نہ ہوتی۔
خواہ سفر میں بھوک پیاس لگتی ہے۔
یا نہ لگتی ہو۔
کیونکہ شریعت نے سفر میں نمازقصر کرنے اور روزہ چھوڑنے کی مطلق اجازت دی ہے۔
اور اس میں سواری کی نوعیت یا تھکاوٹ اور بھوک پیاس وغیرہ کی کوئی قید نہیں لگائی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ﴾ (البقرة: 184/2)
”تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہوتو وہ (رمضان کے علاوہ)
دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرلے۔“
علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی عطا کردہ رخصتوں کو قبول کیا جائے جس طرح و ہ اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اس کی معصیت ونافرمانی کا ارتکاب کیاجائے۔ (مسند أحمد: 108/2)
البتہ اگر روزہ رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو اور کوئی روزہ رکھ لے تو ا س میں کوئی حرج نہیں اور اگر تکلیف ہوتو پھر روزہ رکھنے سے احتراز کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1661
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2404
´تاجر روزہ چھوڑ سکتا ہے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے یہاں تک کہ مقام عسفان پر پہنچے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پانی وغیرہ کا) برتن منگایا اور اسے اپنے منہ سے لگایا تاکہ آپ اسے لوگوں کو دکھا دیں (کہ میں روزے سے نہیں ہوں) اور یہ رمضان میں ہوا، اسی لیے ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ بھی رکھا ہے اور افطار بھی کیا ہے، تو جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2404]
فوائد ومسائل:
(1) یہ واقعہ فتح مکہ کے سفر کا ہے۔
(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص نے سفر میں صبح کو روزے کی نیت کی ہو تو شرعی عذر سے کسی وقت اگر وہ افطار کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2404
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4279
4279. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک میں سفر کیا۔ آپ اس وقت بحالت روزہ تھے لیکن جب مقام عسفان پر پہنچے تو آپ نے پانی کا برتن طلب فرمایا۔ آپ نے دن کے وقت پانی نوش فرمایا تاکہ لوگ آپ کو دیکھ لیں (اور وہ بھی روزہ توڑ دیں)، پھر آپ نے روزہ نہیں رکھا حتی کہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ حضرت ابن عباس ؓ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے دوران سفر میں روزہ رکھا اور ترک بھی کیا، اس لیے دوران سفر میں جس کا جی چاہے روزہ رکھ لے اور جو کوئی چاہے افطار کرے، یعنی مسافر کے لیے اجازت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4279]
حدیث حاشیہ:
قریش کی بد عہدی پر مجبوراً مسلمانوں کو سنہ 8ھ میں بماہ رمضان مکہ شریف پر لشکر کشی کرنی پڑی۔
قریش نے سنہ6ھ کے معاہدہ کو توڑ کر بنو خزاعہ پر حملہ کردیا جو آنحضرت ﷺ کے حلیف تھے اور جن پر حملہ نہ کرنے کا عہد وپیمان تھا مگر قریش نے اس عہد کو اس بری طرح توڑا کہ سارے بنی خزاعہ کا صفایا کر دیا۔
ان بچاروں نے بھاگ کر کعبہ شریف میں پناہ مانگی اور الہک الہک کہہ کر پناہ مانگتے تھے کہ اپنے اللہ کے واسطے ہم کو قتل نہ کرو۔
مشرکین ان کو جواب دیتے ”لا اله الیوم“ آج اللہ کوئی چیز نہیں۔
ان مظلو موں کے بچے ہوئے چالیس آدمیوں نے دربار رسالت میں جاکر اپنی بربادی کی ساری داستان سنائی۔
آنحضرت ﷺ معاہدے کی پابندی فریق مظلوم کی داد رسی دوستدار قبائل کی آئندہ حفاظت کی غرض سے دس ہزار کی جمعیت کے ساتھ بجانب مکہ عازم سفر ہوئے۔
دو منزلہ سفر ہوا تھا کہ راستے میں ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب اور عبد اللہ بن امیہ سے ملاقات ہوئی اور اسلام قبول کیا۔
اس موقع پر ابو سفیان ؓ نے عجب جوش ونشاط کے ساتھ مندرجہ ذیل اشعار پڑے۔
لعمرك أني حین أحمل رأیه لتغلب خیل الات خیل محمد لکا المدلج الحیران أظلم لیلة فھذا أواني حین ھدي فاھتدی ھداني ھاد غیر نفسي و دلني إلی اللہ من طرد ته کل مطرد ترجمہ ”قسم ہے کہ میں جن دنوں لڑائی کا جھنڈا اس ناپاک خیال سے اٹھایا کرتا تھا کہ لات بت کے پوجنے والوں کی فوج حضرت محمد ﷺ کی فوج پر غالب آجائے۔
ان دنوں میں اس خار پشت جیسا تھا جو اندھیری رات میں ٹکریں کھاتا ہو۔
اب وقت آگیا ہے کہ میں ہدایت پاؤں اور سیدھے راستے (اسلام پر)
گامزن ہو جاؤں۔
مجھے سچے ہادی بر حق نے ہدا یت فرمادی ہے (نہ کہ میرے نفس نے)
اور اللہ کا راستہ مجھے اس ہادی بر حق نے دکھلا دیا ہے جسے میں نے (اپنی غلطی سے)
ہمیشہ دھتکار رکھا تھا۔
“ آخر20 رمضان سنہ8ھ کو آپ مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے اور جملہ دشمنان اسلام کو عام معافی کا اعلان کرادیا گیا۔
اس موقع پر آپ نے یہ خطبہ پیش فرمایا۔
يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ نَخْوَةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَتَعَظُّمَهَا بِالآبَاءِ النَّاسُ مِنْ آدَمَ، وَآدَمُ خُلِقَ مِنْ تراب ثم تلا رسول الله:
«يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثى وَجَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَقَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ» الآيَةَ.يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، وَيَا أَهْلَ مَكَّةَ، مَا تَرَوْنَ أَنِّي فَاعِلٌ بِكُمْ؟ قَالُوا:
خَيْرًا، أَخٌ كَرِيمٌ وَابْنُ أَخٍ كَرِيمٍ ثُمَّ قَالَ:
اذهبوا فأنتم الطلقاء. (طبری)
اے خاندا ن قریش والو! خدا نے تمہاری جاہلانہ نخوت اور باپ دادوں پر اترانے کا غرور آج ختم کر دیا سن لو! سب لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے پھر آپ نے اس آیت کو پڑھا اے لوگو! ہم نے تم کو ایک ہی مرد عورت سے پیدا کیا ہے اور گوت اور قبیلے سب تمہاری آپس کی پہچان کے لیے بنا دیئے ہیں اور خدا کے ہاں تو صرف تقوی والے کی عزت ہے۔
پھر فرمایا (اے قریشیو!)
جاؤ آج تم سب آزاد ہو تم پر آج کوئی مواخذہ نہیں ہے۔
اس جنگ کے جستہ جستہ حالات حضرت امام بخاری ؒ نے مندرجہ ذیل ابواب میں بیان فرمائے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4279
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4279
4279. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک میں سفر کیا۔ آپ اس وقت بحالت روزہ تھے لیکن جب مقام عسفان پر پہنچے تو آپ نے پانی کا برتن طلب فرمایا۔ آپ نے دن کے وقت پانی نوش فرمایا تاکہ لوگ آپ کو دیکھ لیں (اور وہ بھی روزہ توڑ دیں)، پھر آپ نے روزہ نہیں رکھا حتی کہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ حضرت ابن عباس ؓ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے دوران سفر میں روزہ رکھا اور ترک بھی کیا، اس لیے دوران سفر میں جس کا جی چاہے روزہ رکھ لے اور جو کوئی چاہے افطار کرے، یعنی مسافر کے لیے اجازت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4279]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ کا مذکورہ سفر فتح مکہ کے موقع پر ہواتھا جیسا کہ سابقہ روایات میں وضاحت ہے۔
امام بخاری ؒ نے اسی لیے اس روایت کو غزوہ فتح مکہ میں بیان کیاہے۔
رسول اللہ ﷺ کوقریش کی بدعہدی کی وجہ سے مجبوراً مکہ مکرمہ پر لشکر کشی کرنا پڑی، آخر 20 رمضان المبارک کو آپ مکہ مکرمہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے اور تمام دشمنان ِاسلام کے لیے عام معافی کا اعلان کردیاگیا۔
اس کے بعد حنین کی لڑائی ہوئی، پھراوطاس پر حملہ کیا گیا، اس کے بعدچوبیس دن تک طائف کامحاصرہ کیا یہاں تک کہ ذوالقعدہ کا چاند نظر آیا، پھر آپ مقام جعرانہ پہنچے، رات کے وقت عمرے کا احرام باندھا،عمرہ کرکے واپس مدینہ طیبہ تشریف لائے۔
2۔
امام بخاری ؒ نے فتح مکہ کے چیدہ چیدہ حالات بیان کیے ہیں جن کے لیے آپ نے مختلف انداز میں عنوان بندی کرکے احادیث جمع کی ہیں۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4279