حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا ابو عوانة، حدثنا عبد الملك، عن عمرو بن حريث، عن عدي بن حاتم، قال: اتينا عمر في وفد، فجعل يدعو رجلا رجلا ويسميهم، فقلت: اما تعرفني يا امير المؤمنين؟" قال:" بلى، اسلمت إذ كفروا، واقبلت إذ ادبروا، ووفيت إذ غدروا، وعرفت إذ انكروا"، فقال عدي:" فلا ابالي إذا".حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: أَتَيْنَا عُمَرَ فِي وَفْدٍ، فَجَعَلَ يَدْعُو رَجُلًا رَجُلًا وَيُسَمِّيهِمْ، فَقُلْتُ: أَمَا تَعْرِفُنِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟" قَالَ:" بَلَى، أَسْلَمْتَ إِذْ كَفَرُوا، وَأَقْبَلْتَ إِذْ أَدْبَرُوا، وَوَفَيْتَ إِذْ غَدَرُوا، وَعَرَفْتَ إِذْ أَنْكَرُوا"، فَقَالَ عَدِيٌّ:" فَلَا أُبَالِي إِذًا".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن عمیر نے بیان کیا، ان سے عمرو بن حریث نے اور ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں (ان کی دور خلافت میں) ایک وفد کی شکل میں آئے۔ وہ ایک ایک شخص کو نام لے لے کر بلاتے جاتے تھے) میں نے ان سے کہا کیا آپ مجھے پہچانتے نہیں؟ اے امیرالمؤمنین! فرمایا کیا تمہیں بھی نہیں پہچانوں گا، تم اس وقت اسلام لائے جب یہ سب کفر پر قائم تھے۔ تم نے اس وقت توجہ کی جب یہ سب منہ موڑ رہے تھے۔ تم نے اس وقت وفا کی جب یہ سب بے وفائی کر رہے تھے اور اس وقت پہچانا جب ان سب نے انکار کیا تھا۔ عدی رضی اللہ عنہ نے کہا بس اب مجھے کوئی پرواہ نہیں۔
Narrated `Adi bin Hatim: We came to `Umar in a delegation (during his rule). He started calling the men one by one, calling each by his name. (As he did not call me early) I said to him. "Don't you know me, O chief of the Believers?" He said, "Yes, you embraced Islam when they (i.e. your people) disbelieved; you have come (to the Truth) when they ran away; you fulfilled your promises when they broke theirs; and you recognized it (i.e. the Truth of Islam) when they denied it." On that, `Adi said, "I therefore don't care."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 677
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4394
حدیث حاشیہ: عدی بن حاتم ؓ قبیلہ طے میں سے تھے۔ ان کے باپ وہی حاتم طائی ہیں جن کا نام سخاوت میں مشہور عالم ہے۔ حضرت عمر ؓ سے عد ی ؓ نے اپنا تعارف کرایا جس کا جواب حضرت عمرؓ نے وہ دیا جو روایت میں مذکور ہے۔ اس پر عدی ؓ نے کہا کہ جب آپ میرا حال جانتے ہیں اور میری قدر پہچانتے ہیں تو اب مجھ کو کوئی اس کا رنج نہیں ہے کہ پہلے اور لوگوں کو بلایا مجھ کو نہیں بلایا۔ عدی بن حاتم ؓ پہلے نصرانی تھے، ان کی بہن کو آنحضرت ﷺ کے سوار پکڑ لائے۔ آپ نے ان کو خاندانی اعزاز کی بنا پر مفت آزاد کر دیا۔ اس کے بعد بہن کے کہنے پر عدی بن حا تم ؓ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہوگئے۔ حضرت حافظ ابن حجر ؒ نے عدی بن حاتم کا نسب نامہ سبا تک پہنچایا ہے جو کسی زمانہ میں یمن کی ملکہ تھی۔ آگے حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ وَأَخْرَجَ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ أَتَيْتُ عُمَرَ فَقَالَ إِنَّ أَوَّلَ صَدَقَةٍ بَيَّضَتْ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُجُوهَ أَصْحَابِهِ صَدَقَةُ طَيء جِئْتُ بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَزَادَ أَحْمَدُ فِي أَوَّلِهِ أَتَيْتُ عُمَرَ فِي أُنَاسٍ مِنْ قَوْمِي فَجَعَلَ يُعْرِضُ عَنِّي فَاسْتَقْبَلْتُهُ فَقُلْتُ أَتَعْرِفُنِي فَذَكَرَ نَحْوَ مَا أَوْرَدَهُ الْبُخَارِيُّ وَنَحْوَ مَا أَوْرَدَهُ مُسْلِمٌ جَمِيعًا (فتح) یعنی حضرت عمر ؓ نے فرمایاکہ سب سے پہلا صدقہ جسے دیکھ کر آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگ گیا وہ قبیلہ طے کا پیش کردہ تھا جسے میں خود لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوا تھا۔ امام احمد نے اس کے اول میں یہ زیادہ کیا ہے کہ میں اپنی قوم میں حضرت عمر ؓ کے پاس آیا تو آپ نے مجھ سے منہ پھیر لیا پھر میں آپ کے سامنے ہوگیا۔ اور میں نے وہ کہا جو روایت میں مذکو ر ہے۔ جسے بخاری اور مسلم ہردو نے وارد کیا ہے۔ حضرت عمر ؓ کا منہ پھیر نا صرف اس لیے تھا کہ یہ حضرت تو میرے جانے پہچانے ہیں۔ اس وقت نوواردوں کی طرف توجہ ضروری ہے۔ اس سے حضرت عدی بن حاتم ؓ کی حضرت عمر ؓ کی نگاہوں میں بڑی وقعت ثابت ہوئی۔ رضي اللہ عنهم أجمعین۔ حضرت عدی بن حاتم شعبان 7ھ میں خدمت نبوی میں آئے اور بعد میں کوفہ میں سکونت اختیار کی۔ جنگ جمل میں حضرت علی ؓ کے ساتھ تھے۔ 67ھ میں کو فہ میں بعمر ایک سو بیس سال انتقال فرمایا۔ ان کا باپ حاتم طائی سخاوت کے لیے مشہور زمانہ گذرا ہے۔ لفظ طائی قبیلہ طے کی نسبت ہے۔ خاتمہ: بعونہ تعالی پچھلے سال سری نگر میں 1972۔ 8۔ 25 کو اس پارے کی تسوید کے لیے قلم ہاتھ میں لیا تھا سا ل بھر سفرو حضر میں اس خدمت کو انجام دیا گیا اور آج غریب خانہ پر قیام کی حالت میں اس کی تسوید کا کام مکمل کررہا ہوں۔ بلا مبالغہ ترجمہ ومتن وتشریحا ت کو بڑے غور و فکر کے بعد قید کتابت میں لایا گیا ہے۔ اور بعد میں بکرات ومرات ان پر نظر ڈالی گئی ہے پھر بھی سہو اور لغزش کاامکان ہے جس کے لیے میں علماءفن وماہرین کی طرف سے اصلاح کے لیے بصد شکریہ منتظرر رہوں گا۔ قارئین کرام وہمدردان عظام سے بصد ادب گذارش ہے کہ وہ بوقت مطالعہ مجھ نا چیز کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں تاکہ یہ خدمت مکمل ہوسکے جو میری زندگی کا مقصد وحید ہے۔ جسے میں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ جن حضرات کی ہمدردیاں اور دعائیں میرے شامل حال ہیں، ان سب کا بہت بہت مشکور ہوں اوران سب کے لیے دعا گوہوں کہ اللہ پاک اپنے حبیب ﷺ کے پاکیزہ کلام کی برکت سے ہم سب کو دونوں جہانوں کی بر کتوں سے نوازے۔ خاص طور پر اس دنیا سے جانے کے بعد اس صدقہ جاریہ کو ہم سب کے لیے باعث نجات بنائے اور قیامت کے دن آنحضرت ﷺ کی شفاعت کبری ہم سب کو نصیب کرے۔ یا اللہ! جس طرح یہاں تک تونے مجھکو پہنچایا ہے۔ اسی طرح سے آخر تک تو ہم کو اس خدمت کی تکمیل کی توفیق دی جیو اور قلم کو لغزش سے بچائیو کہ سب کچھ تیرے ہی اختیار میں ہے۔ وما توفیقي إلا باللہ العلي العظیم وصلی اللہ علی خیر خلقه محمد و علی آله وأصحابه أجمعین برحمتك یا أرحم الراحمین خادم حدیث نبوی محمد داؤد راز ولد عبداللہ السلفی موضع رہپوہ ڈاک خانہ پنگواں ضلع گوڑ گاؤں (ہریانہ)(30-12-73)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4394
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4394
حدیث حاشیہ: ایک روایت کے مطابق حضرت عمر ؓ نے حضرت عدی ؓ سے کہا کہ پہلا پہلا صدقہ جس سے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ کے چہرے جگمگا اُٹھے وہ قبیلہ طے کے صدقات تھے جسے آپ لے کر آئے تھے۔ اسے امام مسلم ؒ نے بیان کیا ہے۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6449(2523) امام ترمذی ؒ کی روایت کے مطابق حضرت عدی بن حاتم ؓ کہتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ ﷺ کے پاس مسجد میں حاضر ہوا توآپ نے فرمایا: "یہ عدی بن حاتم ہے۔ "اس سے پہلے آپ نے کہاتھا: "مجھے اللہ سے اُمید ہے کہ وہ اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے گا۔ '' (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 2953۔ و فتح الباري: 129/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4394