حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا جبلة بن سحيم، قال:" اصابنا عام سنة مع ابن الزبير فرزقنا تمرا، فكان عبد الله بن عمر يمر بنا ونحن ناكل، ويقول: لا تقارنوا فإن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن القران، ثم يقول: إلا ان يستاذن الرجل اخاه"، قال شعبة: الإذن من قول ابن عمر.حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا جَبَلَةُ بْنُ سُحَيْمٍ، قَالَ:" أَصَابَنَا عَامُ سَنَةٍ مَعَ ابْنِ الزُّبَيْرِ فَرَزَقَنَا تَمْرًا، فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَمُرُّ بِنَا وَنَحْنُ نَأْكُلُ، وَيَقُولُ: لَا تُقَارِنُوا فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْقِرَانِ، ثُمَّ يَقُولُ: إِلَّا أَنْ يَسْتَأْذِنَ الرَّجُلُ أَخَاهُ"، قَالَ شُعْبَةُ: الْإِذْنُ مِنْ قَوْلِ ابْنِ عُمَرَ.
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جبلہ بن سحیم نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ (جب وہ حجاز کے خلیفہ تھے) ایک سال قحط کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے راشن میں ہمیں کھانے کے لیے کھجوریں دیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہمارے پاس سے گزرتے اور ہم کھجور کھاتے ہوتے تو وہ فرماتے کہ دو کھجوروں کو ایک ساتھ ملا کر نہ کھاؤ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو کھجوروں کو ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع کیا ہے۔ پھر فرمایا سوا اس صورت کے جب اس کو کھانے والا شخص اپنے ساتھی سے (جو کھانے میں شریک ہے) اس کی اجازت لے لے۔ شعبہ نے بیان کیا کہ اجازت والا ٹکڑا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے۔
Narrated Jabala bin Suhaim.: At the time of Ibn Az-Zubair, we were struck with famine, and he provided us with dates for our food. `Abdullah bin `Umar used to pass by us while we were eating, and say, "Do not eat two dates together at a time, for the Prophet forbade the taking of two dates together at a time (in a gathering)." Ibn `Umar used to add, "Unless one takes the permission of one's companions."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 65, Number 357
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3834
´دو دو تین تین کھجوریں ایک ساتھ کھانے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی کھجوریں ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع فرمایا الا یہ کہ تم اپنے ساتھیوں سے اجازت لے لو۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3834]
فوائد ومسائل: یہ ارشاد آداب مجلس اورآداب طعام سے متعلق ہے۔ کہ جب اجتماعی طور پر بیٹھے ہوئے کھانا یا کھجوریں وغیرہ کھا رہے ہوں۔ تو انسان کو اپنے شرف اور دوسروں کے حقوق کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3834
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5446
5446. سیدنا جبلہ بن سحیم سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہمیں ایک سال سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ قحط کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے راشن کے طور پر ہمیں کھجوریں دیں۔ جب کھجوریں کھا رہے ہوتے اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہمارے پاس گزرتے تو کہتے: دو کھجوریں ایک ساتھ ملا کر نہ کھاؤ کیونکہ نبی ﷺ نے دو کھجوریں ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع کیا ہے پھر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے مگر اس صورت میں کہ کھانے والا اپنے ساتھی سے اجازت لے لے۔ شعبہ نے کہا کہ حدیث میں اجازت والا ٹکڑا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے [صحيح بخاري، حديث نمبر:5446]
حدیث حاشیہ: یہ حدیث کے الفاظ نہیں ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5446
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5446
5446. سیدنا جبلہ بن سحیم سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہمیں ایک سال سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ قحط کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے راشن کے طور پر ہمیں کھجوریں دیں۔ جب کھجوریں کھا رہے ہوتے اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہمارے پاس گزرتے تو کہتے: دو کھجوریں ایک ساتھ ملا کر نہ کھاؤ کیونکہ نبی ﷺ نے دو کھجوریں ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع کیا ہے پھر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے مگر اس صورت میں کہ کھانے والا اپنے ساتھی سے اجازت لے لے۔ شعبہ نے کہا کہ حدیث میں اجازت والا ٹکڑا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے [صحيح بخاري، حديث نمبر:5446]
حدیث حاشیہ: حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک دسترخوان پر چند ساتھی کھجوریں کھائیں تو ایک ایک کھجور کھائیں، دو، دو یا تین تین ایک ساتھ ملا کر نہ کھائیں۔ اگر ساتھیوں سے اجازت حاصل کر لی جائے تو پھر کوئی حرج نہیں۔ ان کی اجازت کے بغیر دو، دو کھجوریں ملا کر ایک ساتھ کھانا جائز نہیں۔ اگر قرائن سے معلوم ہو جائے کہ وہ اس طرح کھانے کو برا محسوس نہیں کریں گے تو جائز ہے۔ اگر کوئی اکیلا کھا رہا ہے تو اسے اجازت ہے جس طرح چاہے کھا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5446