باب اور حدیث میں مناسبت صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4478 کا باب: «بَابُ وَقَوْلُهُ تَعَالَى: {وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ}:» امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں ان اشیاء کا ذکر فرمایا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لئے نازل فرمایا تھا، مگر تحت الباب میں جن اشیاء کا ذکر ہے اس میں ایک
«من» ہے اور دوسرا
«الكماة» لہٰذا ترجمتہ الباب پر اعتراض کرتے ہوئے علامہ خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لا وجه لادخال هذا الحديث هنا، قال: لأنه ليس المراد فى الحديث أنها نوع من المن لمنزل على بني اسرائيل فان ذاك شيئي كان يسقط عليهم كالتر نجبيل» [فتح الباري لابن حجر: 140/8]
”یعنی یہ روایت ترجمۃ الباب میں مناسبت نہیں رکھتی، کیونکہ ترجمۃ الباب میں اس «من» کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لئے آسمان سے نازل فرمایا تھا، جبکہ «الكماة» سانپ کی چھتری زمین پر آ گئی ہے۔“
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام خطابی رحمہ اللہ کے اعتراض کو نقل کرنے کے بعد واضح طور پر فرمایا کہ ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت موجود ہے، دراصل علامہ خطابی رحمہ االلہ کی نظر صحیح مسلم کی حدیث تک نہیں پہنچتی جس کی طرف امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے، حدیث میں واضح طور پر جو الفاظ ہیں وہ ترجمۃ الباب سے مناسبت رکھتے ہیں، امام مسلم رحمہ اللہ صحیح مسلم کتاب الاشربہ میں حدیث کا ذکر فرماتے ہیں کہ:
«الكماة من المن الذى انزل الله تبارك وتعالٰي علٰي بني اسرائيل وماؤها شفاء للعين.» [صحيح مسلم: 5347] صحیح مسلم کی اس حدیث نے واضح کیا کہ جس طرح
«من» اللہ تعالیٰ نے آسمان سے نازل فرمایا اسی کی مصداق
«الكماة» بھی ہے، لہٰذا اس حدیث پر اگر امام خطابی رحمہ اللہ کی نظر پڑتی تو آپ یہ اعتراض نہ کرتے، لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں
«الكماة» کو بھی
«من» کی طرح نازل شدہ قرار دیا گیا ہے، اور اگر مزید غور کیا جائے تو ترجمہ الباب کی حدیث سے مناسبت لفظ
«من المن» سے بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
«الكماة» کو
«من» سے تعبیر کیا، یعنی جس طرح
«من» باآسانی بنی اسرائیل کے لیے میسر تھا بیعن اسی طرح
«الكماة» بھی اسی کے ساتھ باآسانی میسر تھی، لہٰذا باب اور حدیث میں مناسبت اس نکتہ کے ساتھ بھی ہے، صاحب منار القاری الشیخ حمزۃ محمد قاسم ترجمتہ الباب میں تطبیق دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«دل الحديث على أن الكماة من النعم التى انعم الله بها على هذه الأمة...... والمطابقة فى قوله ”من المن“.» [منار القاري شرح مختصر صحيح البخاري: 33/5] حدیث اس پر دال ہے کہ
«الكماة» بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت میں سے ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس امت پر انعام کیا۔۔۔۔۔۔۔ اور مطابقت ترجمہ الباب سے حدیث کے لفظ
«من المن» میں ہے۔
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
«الكماة» چھتری والے سانپ کو
«من» میں داخل فرمایا ہے، پس یہاں بھی ترجمۃ الباب میں حدیث کی مطابقت بنتی ہے۔