حدثنا قتيبة، عن مالك، عن سمي مولى ابي بكر، عن ابي صالح السمان، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" بينما رجل يمشي بطريق وجد غصن شوك على الطريق، فاخره فشكر الله له فغفر له.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَى أَبِي بَكْرِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ وَجَدَ غُصْنَ شَوْكٍ عَلَى الطَّرِيقِ، فَأَخَّرَهُ فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے امام مالک سے بیان کیا، انہوں نے ابوبکر بن عبدالرحمٰن کے غلام سمی نامی سے، انہوں نے ابوصالح سمان سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص کہیں جا رہا تھا۔ راستے میں اس نے کانٹوں کی بھری ہوئی ایک ٹہنی دیکھی، پس اسے راستے سے دور کر دیا۔ اللہ تعالیٰ (صرف اسی بات پر) راضی ہو گیا اور اس کی بخشش کر دی۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "While a man was going on a way, he saw a thorny branch and removed it from the way and Allah became pleased by his action and forgave him for that."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 624
بينما رجل يمشي بطريق وجد غصن شوك على الطريق فأخره فشكر الله له فغفر له الشهداء خمسة المطعون والمبطون والغريق وصاحب الهدم والشهيد في سبيل الله لو يعلم الناس ما في النداء والصف الأول ثم لم يجدوا إلا أن يستهموا لاستهموا عليه لو يعلمون ما في التهجير لاستبقوا
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5245
´راستے سے تکلیف دہ چیزوں کے ہٹا دینے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص نے جس نے کبھی کوئی بھلا کام نہیں کیا تھا کانٹے کی ایک ڈالی راستے پر سے ہٹا دی، یا تو وہ ڈالی درخت پر (جھکی ہوئی) تھی (آنے جانے والوں کے سروں سے ٹکراتی تھی) اس نے اسے کاٹ کر الگ ڈال دیا، یا اسے کسی نے راستے پر ڈال دیا تھا اور اس نے اسے ہٹا دیا تو اللہ اس کے اس کام سے خوش ہوا اور اسے جنت میں داخل کر دیا۔“[سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5245]
فوائد ومسائل: انسان کو کسی موقع پر کسی نیکی کو حقیر اور معمولی نہیں جاننا چاہیے، نہ معلوم کون ساعمل کس وقت رب العالمین کو پسند آجائے اور اس کی بخشش کا سبب بن جائے۔ الغرض راستے کی رکاوٹ، خواہ کسی طرح کی ہو دور کرنا ایمان کا حصہ اور بخشش کا سامان ہے اور اس کے برخلاف راستے میں رکاوٹ ڈالنا حرام اور ناجائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5245
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1174
1174- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا پتہ چلا ہے: ایک مرتبہ ایک شخص کانٹوں کی شاخ کے پاس سے گزرا اس نے اسے راستے سے ہٹادیا، تو اس شخص کی مغفرت ہوگئی۔ سفیان نامی راوی نے بعض اوقات یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔ ”اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کو قبول کیا اور اس کی مغفرت کردی۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1174]
فائدہ: اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی صفت غفور الرحیم کی اصل شکل بیان کی گئی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو معاف کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے، اللہ چاہے تو کسی انسان کو چھوٹے سے چھوٹے عمل کی وجہ سے معاف فرما دے، اور جس کو چاہے چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے پوری زندگی کے اعمال کو تباہ و برباد کر کے اس کو جہنم رسید کر دے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کسی کے اعمال کو ضائع نہیں کرتے، الا یہ کہ انسان خود اپنے اعمال کو ریا کاری، سنت کی مخالفت، نیت کی خرابی، عقائد کی خرابی اور حرام کمائی کی وجہ سے ضائع کر لے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1172
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4940
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی راستہ پر چل رہا تھا کہ اس دوران اس نے راستہ پر ایک خاردار ٹہنی دیکھی، تو اس نے اسے وہاں سے ہٹا دیا، اللہ تعالیٰ نے اس سے اس عمل کی قدر دانی کرتے ہوئے بخش دیا۔“ اور آپﷺ نے فرمایا: ”شہید، پانچ ہیں، طاعون سے مرنے والا، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا، ڈوبنے والا، کسی چیز کے نیچے دب کر مرنے والا اور اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4940]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی پہلی حدیث سے ثابت ہوتا ہے، آمد و رفت کے راستہ سے کسی تکلیف دہ چیز کو دور کر دینا اللہ کے ہاں بہت پسندیدہ عمل ہے جو انسان کی کایا پلٹنے کا باعث بن سکتا ہے اور دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے بعض اموات ایسی ہیں جو انسان کے اجروثواب میں اضافہ کا باعث بنتی ہیں اور ان کو شہادت سے تعبیر کیا گیا ہے، اس حدیث میں ان کی تعداد پانچ شمار کی گئی ہے، لیکن ان میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا ہے، بعض نے اس کی تعداد پچاس تک شمار کی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4940
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6669
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جبکہ ایک آدمی راستہ پر جارہا تھا، اس نے راستہ پر خاردار (کانٹوں والی)ٹہنی دیکھی تو اسے ہٹا دیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے عمل کی قدر کی اور اسے معاف کر دیا۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6669]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، بعض دفعہ ایک معمولی عمل اللہ کے ہاں اس درجہ قبولیت حاصل کر لیتا ہے کہ اس کی زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے اور وہ نیک کرداری کا راستہ اپنا کر جنت میں چلا جاتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6669
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2472
2472. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک آدمی راستے میں جا رہا تھا اس نے ایک کانٹے دار ٹہنی کو راستے میں پایا تو اسے پیچھے ہٹا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی قدر کرتے ہوئے اسے بخش دیا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2472]
حدیث حاشیہ: کیوں کہ اس نے خلق خدا کی تکلیف گوارا نہ کی اور ان کے آرام و راحت کے لیے اس ڈالی کو اٹھا کر پھینک دیا، ایسا نہ ہو کسی کے پاؤں میں چبھ جائے۔ انسانی ہمدردی اسی کا نام ہے جو اسلام کی جملہ تعلیمات کا خلاصہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2472
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2472
2472. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک آدمی راستے میں جا رہا تھا اس نے ایک کانٹے دار ٹہنی کو راستے میں پایا تو اسے پیچھے ہٹا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی قدر کرتے ہوئے اسے بخش دیا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2472]
حدیث حاشیہ: (1) شاید کوئی یہ خیال کرے کہ راستے میں پڑی چیز کو ایک طرف کرنا درست نہیں کیونکہ اس میں اجازت کے بغیر تصرف کرنا ہے۔ امام بخاری ؒ نے عنوان قائم کر کے بتایا کہ اگر ایسی چیز لوگوں کی تکلیف کا باعث ہو تو اسے اٹھا کر دور کر دینا موجب اجروثواب ہے، اس طرح اللہ کی مخلوق کو آرام پہنچانا ہے، ایسا نہ ہو کہ وہ کسی کے پاؤں میں چبھ جائے۔ انسانی ہمدردی اسی کا نام ہے جو اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ چھوٹے سے عمل کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے، ممکن ہے یہی عمل اللہ کے ہاں نجات کا ذریعہ بن جائے۔ (فتح الباري: 146/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2472