حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة رضي الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" بعثت بجوامع الكلم ونصرت بالرعب وبينا انا نائم رايتني اتيت بمفاتيح خزائن الارض، فوضعت في يدي، قال ابو هريرة: فقد ذهب رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتم تلغثونها او ترغثونها او كلمة تشبهها".حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُنِي أُتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ، فَوُضِعَتْ فِي يَدِي، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَقَدْ ذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمْ تَلْغَثُونَهَا أَوْ تَرْغَثُونَهَا أَوْ كَلِمَةً تُشْبِهُهَا".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھے «جوامع الكلم»(مختصر الفاظ میں بہت سے معانی کو سمو دینا) کے ساتھ بھیجا گیا ہے اور میری مدد رعب کے ذریعہ کی گئی اور میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے پاس زمین کے خزانوں کی کنجیاں رکھ دی گئیں۔“ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو چلے گئے اور تم مزے کر رہے ہو یا اسی جیسا کوئی کلمہ کہا۔
Narrated Sa`id bin Al-Musaiyab: Abu Huraira said that Allah's Apostle said, "I have been sent with 'Jawami-al-Kalim ' (the shortest expression with the widest meaning) and have been made victorious with awe (cast in my enemy's hearts), and while I was sleeping, I saw that the keys of the treasures of the world were placed in my hand." Abu Huraira added: Allah's Apostle has gone, and you people are utilizing those treasures, or digging those treasures out." or said a similar sentence.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 378
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7273
حدیث حاشیہ: حدیث میں تلغثونھا ہے یہ کلمہ لغیث سے نکلا ہے۔ لغیث کھانے کو جس میں جو ملے ہوں کہتے ہیں یعنی جس طرح اتفاق پڑے کھاتے ہو یا لفظ ترغونھا ہے جو رغث سے نکلا ہے۔ عرب لوگ کہتے ہیں رغث الجدی أمه یعنی بکری کے بچے نے اپنی ماں کا دوھ پی لیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7273
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7273
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خزانوں کے متعلق مختلف الفاظ استعمال کے ہیں: (تَنْتَثِلُونَهَا.) حدیث: (2977)(تَنْتَقِلُونَهَا)(حدیث: 6998) ان تمام الفاظ کا مقصد ایک ہی ہے کہ تم ان خزانوں کو نکال کراستعمال کر رہے ہو، خزانوں سے مراد وہ فتوحات ہیں جو مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ملیں۔ بے شمارغنیمتیں ان کے ہاتھ آئیں اور سونے چاندی اور جواہرات کے خزانے ان کے ہاتھ لگے۔ (فتح الباري: 304/13) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جوامع الکلم کی تشریح ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ بہت سے امور جو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کتابوں میں لکھے ہوئے تھے،اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک یادوامور میں جمع کردیا ہے۔ (صحیح البخاري التعبیر، حدیث: 7013)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7273
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 42
´رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن پر رعب عطا ہوا تھا` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”بذریعہ رعب میری نصرت کی گئی ہے اور مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں۔“[صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 42]
شرح الحديث: رعب سے میری نصرت کی گئی: اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مخالفین و دشمنوں کے دلوں پر ان کی دہشت و ہیبت طاری کر دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ملتے ہی کہ "مَسِیْرَةٍ شَھْرٍ" مطلب یہ ہے کہ اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور ان کے مخالفین کے مابین ایک مہینہ کی مسافت ہوتی، تو بھی ان کے دلوں پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا رعب و دبدبہ طاری رہتا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة الله علیہ "فتح الباری" میں لکھتے ہیں "مَسِیْرَةِ شَھْرٍ" کا مطلب و مفہوم یہ ہے کہ ایک مہینہ کی مدت میں نہ اس سے کم مقدار، نہ ہی زیادہ مدت میں کسی اور کی نصرت بذریعہ رعب کی گئی ہے۔ رہی یہ بات کہ سیدنا عمرو بن شعیب رضی الله عنہ سے مروی حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ: «وَنُصِرْتُ عَلَى الْعَدُوِّ بِالرُّعْبِ وَلَوْ كَانَ بَيْنِىْ وَبَيْنَهُمْ مَسِيرَةُ شَهْرٍ» "رعب کے ذریعہ سے مجھے اپنے دشمنوں پر نصرت دی گئی ہے، اگرچہ میرے اور ان کے مابین ایک ماہ کا فاصلہ ہو۔ " اس فرمان نبوی صلی الله علیہ وسلم سے آشکارا ہوتا ہے کہ رعب سے متصف نصرت کا اختصاص جو ہے وہ مطلقاً رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ہستی مبارک کے ساتھ مخصوص ہے، اس اختصاص پر خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی شہادت موجود ہے۔ جس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم بیان فرماتے ہیں: «أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلِي» "مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئ، جو مجھ سے قبل کسی نبی کو عطا نہ کی گئیں۔ انہی پانچ میں سے ایک چیز دشمن پر رعب ہے۔ " مزید حافظ ابن حجر رحمة الله علیہ فرماتے ہیں: ایک ماہ کی مسافت کو غایت اس لیے قرار دیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مخالفین کی مسافت ایک ماہ کی مدت پر محمول تھی۔ اور اس خاصیت کا اطلاق مطلق رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارکہ پر ہوتا ہے حتی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم لشکر کے بغیر بھی ہوں، تو اس خاصیت کا اطلاق ان پر ہوگا۔ دیکھئے! [فتح الباري 437/1] آپ صلی الله علیہ وسلم کی ہیبت و عظمت کا اندازہ فرمائیں کہ جب کفار مکہ نے معاہدہ حدیبیہ کی مخالفت کرتے ہوئے بنو خزاعہ کے خلاف بنوبکر کی مدد کی اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے حلیف بنو خزاعہ کی مدد کا اعلان کیا تو ابو سفیان نے اس کے نتائج سے خوفزدہ ہوکر مدینہ کا سفر کیا تاکہ معاہدے کی تجدید ہو سکے۔ اس موقع پر ابو سفیان آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے مگر آپ صلی الله علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا۔ ابو سفیان آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد ابوبکر و عمر اور علی رضی الله عنہم اجمعین کے پاس بھی گئے کہ میری بات سنو، اور میری گفتگو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کرواؤ، مگر سب نے کہا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہم کوئی بات کرنے کی جرأت نہیں رکھتے، بالآخر ابو سفیان کو مایوس اور ناکام واپس آنا پڑا، پھر یہی شروعات فتح مکہ کا باعث بنیں۔ [البداية والنهاية: 330/4 - تاريخ ابن جرير: 48/2 - سيرة ابن هشام: ص 541]
اور مجھے جامعیت بھرے کلمات سے نوازا گیا ہے: اسی طرح ایک روایت میں «بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكَلَمِ» کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ جن کا مطلب یہ ہے کہ مجھے جامع کلمات سے نوازا گیا ہے۔ علامہ الھروی رحمة الله علیه فرماتے ہیں: جامع کلمات سے مراد الله تعالیٰ کی کتاب قرآن مقدس ہے۔ جسے الله تعالیٰ نے قلیل الفاظ اور معانی کثیر کے مرقع سے مرکب کیا ہے۔ بعینہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے کلمات میں بھی الفاظ کی قلت اور معانی کی کثرت پائی جاتی ہے۔ [شرح مسلم، للنووي: 156/2] قاضی عیاض رحمة الله علیه "الشفاء" میں فرماتے ہیں: زبان کی فصاحت اور قول کی بلاغت کے اعتبار سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سب سے فائق ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا کلام انتہائی شستہ ورواں، موقع و محل پر کامل منطبق، نہایت مختصر و بامقصد، بہت نکھرا ہوا اور اجلا، معانی کی صحت پر محیط اور تکلف سے یکسر خالی تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انہیں جامعیت بھرے کلمات سے نوازا گیا تھا، انتہائے لطف یہ کہ ان کلمات کی خصوصیت یہ تھی کہ ان سے حکمتیں پھوٹ پھوٹ کر باہر آتی تھیں۔ ویسے تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے کلام کا ایک ایک لفظ جامعیت اور وضاحت سے پُر ہے مگر ان کی زبان اقدس سے نکلے ہوئے بعض لؤلؤ و مرجان بھی ہیں جنہیں خاص جوامع الکلم سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
جوامع الکلم: "ان میں سے چند ایک ذیل کی سطور میں درج کیے جاتے ہیں۔ ➊ «اَنَا اَفْصَحُ الْعَرَب» "میں فصیحانِ عرب میں سے ہوں۔ " ➋ «وَلَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ مَرَّتَيْنِ» "صاحبِ ایمان ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔ " دیکھئے! [الشفاء بتعريف حقوق المصطفيٰ: 1/ 50، 57] ➌ اور اس طرح یہ فرمان کہ «اَلسَعِيْدُ مَنْ وُعِظَ بِغَيْرِهٰ» "سعادت مند وہ ہے جو دوسروں سے نصیحت حاصل کرے۔ " [نسيم الرياض: 1/ 477-533] ➍ «اَصْدَقُ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ» "الله کے کلام سے سچا کوئی کلام نہیں۔ " [الشريعة للآجري: 46 - الدر المنثور: 147/3] ➎ «أَفْضَلُ الْمَوْتِ الْقَتْلِ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ» "سب سے بہتر موت شہادت کی موت ہے۔ " [جمع الجوامع، رقم: 3831] ➏ «أَفْضَلُ الْعَمَلِ أَدْوَمُهُ» "سب سے اچھے کام اولوالعزمی کے کام ہیں۔ " [الكاف الشاف فى تخريج احاديث الكشاف، رقم: 177] ➐ «اَلْخَمْرُ اُمُّ الْخَبَائِثِ» "شراب گناہوں کی ماں ہے۔ " [سلسلة الصحيحة، رقم: 1854] ➑ «سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ» "مومن کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔ " [صحيح بخاري، كتاب الايمان، رقم: 48] ➒ «اَلْنِّيَاحَةُ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ» "نوحہ کرنا جاہلیت کی یادگار ہے۔ " [سنن ابن ماجه، كتاب الجنائز، رقم: 1581، 1582] ➓ «مَنْ تَتَبَّعَ عَوْرَة، أَخِيْهِ الْمُسْلِمِ تَتَبَّعَ اللهُ عَوْرَتَهُ» "جو لوگوں کے عیوب کی تشہیر کرتا ہے الله اس کے عیوب فاش کر دیتا ہے۔ " [الدر المنثور: 93/6] ان چند فرامین سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی فصاحت، بلاغت اور سلاست کلام کا پہلو نمایاں اور واضح ہے۔ اس قسم کی احادیث پڑھنے اور سننے سے ایمان کی تازگی اور شادابی میں اضافہ ہوتا ہے۔
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 42
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3089
´جہاد کی فرضیت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے جامع کلمات ۱؎ دے کر بھیجا گیا ہے اور میری مدد رعب ۲؎ سے کی گئی ہے۔ اس دوران کہ میں سو رہا تھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں مجھے دی گئیں، اور میرے ہاتھوں میں تھما دی گئیں“، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس دنیا سے) رخصت ہو گئے لیکن تم ان خزانوں کو نکال کر خرچ کر رہے ہو ۳؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3089]
اردو حاشہ: (1)”جامع کلمات“ یعنی الفاظ کم ہوں مگر معانی زیادہ ہوں، جیسے ] أِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَاتِ [ (صحیح البخاري‘ بد، الوحي‘ حدیث:1) (2)”رعب دے کر“ یعینی مخالفین کے دل میں میرا رعب ڈال دیا گیا ہے۔ وہ آپ کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے۔ صرف اپنی عزت رکھنے کے لیے حملے کرتے تھے یا اپنی جان بچانے کے لیے، مگر دلجمعی سے لڑتے تھے۔ نتیجتاً شکست کھاتے تھے۔ (3) چابیوں کو ہاتھ میں رکھنا اشارہ ہے ان فتوحات کی طرف جو مستقبل قریب میں ہوئیں اور ان سے مسلمانوں کو حیران کن خزانے ملے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اشارہ بھی اسی طرف ہے۔ چونکہ یہ فتوحات جہاد کے ذر یعے سے ہوئیں، لہٰذا اس روایت کو جہاد کے باب میں لانا مناسب ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3089
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث567
´تیمم کے مشروع ہونے کا سبب۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمین میرے لیے نماز کی جگہ اور پاک کرنے والی بنائی گئی ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 567]
اردو حاشہ: (1) زمین میں مسجد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نماز کے لیے مسجد ضروری نہیں مسجد سے باہر بھی نماز ادا کی جاسکتی ہے، سوائے ممنوعہ مقامات یا ناپاک جگہ کے مثلاً عین راستے پر، قبرستان میں اور بعض دیگر مقامات جن کی تفصیل حدیث: 746، 745، اور 747 میں مذکور ہے۔ لیکن فرض نمازمیں کسی عذر کے بغیر جاعت سے پیچھے رہنا جائز نہیں۔
(2) زمین پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دی گئی ہے کا مطلب یہ ہے کہ عذر کے موقع پر وضو اور غسل کے بجائے تیمم سے طہارت حاصل ہوجاتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 567
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:975
975- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”مجھے پانچ چیز ایسی عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں میرے لیے تمام زمین کو جائے نماز اور طہارت کے حصول کا ذریعہ بنایا گیا ہے، رغب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے اور میرے لیے مال غنیمت کوحلال قرار دیا گیا ہے اور مجھے ہر سفید فام اور سیاہ فام (یعنی تمام بنی نوع انسان) کی طرف معبوث کیا گیا ہے اور مجھے شفاعت عطا کی گئی ہے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:975]
فائدہ: اس حدیث میں امت محمد یہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پانچ خواص کا ذکر کیا گیا ہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مٹی کے ساتھ طہارت حاصل کرنا ٹھیک ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مال غنیمت پہلی قوموں پر جائز نہیں تھا۔ اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری دنیا کے لیے نبی بن کر آئے اور قیامت کے دن شفاعت بھی انہی کی قبول ہوگی۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 974
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1167
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے دوسرے انبیاء علیہم السلام پر چھہ چیزوں پر فضیلت دی گئی ہے، مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں، میری رعب و دبدبہ کے ذریعے مدد دی گئی ہے اور میرے لیے غنیمتیں حلال کر دی گئی ہیں، اور میرے لیے زمین پاکیزگی کا باعث بنائی گئی ہے اور مسجد قرار دی گئی ہے اور مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہےاور مجھ پر نبیوں کو ختم کر دیا گیا ہے، مجھے آخری نبی بنایا گیا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1167]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) جوامع الكلم: سے مراد ایسے کلمات اور عبارات ہیں جو انتہائی مختصر اور فصیح و بلیغ ہیں لیکن ان میں معانی کی ایک دنیا پنہاں ہے گویا کہ دریا کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے اس سے قرآن مجید مراد ہے۔ (2) نصرت بالرعب: آپ ابھی دشمن سے بہت دور کے فاصلہ پر ہوتے ہیں اور اس کو آپﷺ کے حملہ کرنے کے ارادے اور تیاری کا پتہ چلتا ہے تو اس پر دور ہی سے آپﷺ کا رعب طاری ہو جاتا تھا اور آپﷺ کے خوف و خطرہ سے اس کا دل دہل جاتا تھا۔ (3) احلت ليَ الغَنَائِم: پہلی امتیں اور انبیاء جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلتے اور دشمن پر غلبہ کے بعد اس کے مال و متاع پر قابض ہوتے تو اس کو اپنے استعمال میں نہیں لا سکتے تھے۔ بلکہ آسمان سے آگ اتر کر اس کو کھا جاتی تھی اور اگر اس میں کسی نے خیانت کی ہوتی تو آگ غنیمت کے مال کو نہیں کھاتی تھی۔ (4) آپﷺ کی نبوت ورسالت ہمہ گیر اور قیامت تک کے لیے ہے اس لیے اور کسی رسول کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس لیے آپﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے اور آپﷺ آخری نبی ہیں آپﷺ کے بعد کسی نبی کے آنے کا امکان ہی باقی نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے قرب کی علامت و نشانی کے طور پر آئیں گے لیکن وہ لوگوں کو اپنی نبوت کی دعوت نہیں دیں گے اورنہ ہی اپنا پرچار کریں گے، بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور آپﷺ کی شریعت کا ہی اعلان کریں گے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1167
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1168
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھےجامع کلام دے کر بھیجا گیا ہے اور رعب کے ذریعے میری نصرت (مدد) کی گئی ہے میں سویا ہوا تھا کہ اس اثنا میں زمین کے خزانوں کی کنجیاں میرے حوالہ کی گئیں اور میرے ہاتھوں میں رکھ دی گئیں۔“ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ تو اپنے رب کے پاس جا چکے ہیں اور (ان خزانوں کو) اب تم نکال رہے ہو۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1168]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: تَنْتَثِلُوْنَهَا: وہ خزانے تم نکال رہے ہو۔ فوائد ومسائل: (أُتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ) اس خواب کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بشارت دی گئی تھی کہ آپﷺ کی امت کے ہاتھوں دنیا کی بڑی بڑی سلطنتیں زمین بوس ہوں گی اور ان کے خزانے ان کے ہاتھ لگیں گے اور اس خواب کی تعبیر خلفائے راشدین کے ہاتھوں مکمل ہوئی مسلمانوں نے دیکھا کہ اس دور کی دونوں سپرپاور مسلمانوں کے سامنے سرنگوں ہوئیں اور روم وایران کے خزانے مسلمانوں کے استعمال میں آئے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1168
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2977
2977. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے جامع کلمات دے کر بھیجا گیا ہے اور رعب کے ذریعے سے میری مدد کی گئی ہے۔ ایک دفعہ میں سورہا تھا کہ میرے پاس زمین کے خزانوں کی چابیاں لائی گئیں اور میرے ہاتھ میں دے دی گئیں۔“ حضرت ابوہریرہ ؓنے کہا: رسول اللہ ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے اور اب تم وہ خزانے نکال رہے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2977]
حدیث حاشیہ: حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ تو (اپنے رب کے پاس) جاچکے۔ اور (جن خزانوں کی وہ کنجیاں تھیں) انہیں اب تم نکال رہے ہو۔ اس خواب میں آنحضرتﷺ کو یہ بشارت دی گئی تھی کہ آپ کی امت کے ہاتھوں دنیا کی بڑی بڑی سلطنتیں فتح ہوں گی اور ان کے خزانوں کے وہ مالک ہوں گے۔ چنانچہ بعد میں اس خواب کی تکمیل تعبیر مسلمانوں نے دیکھی کہ دنیا کی دو سب سے بڑی سلطنتیں ایران و روم مسلمانوں نے فتح کیں اور ابوہریرہ ؓ کا بھی اس طرف اشارہ ہے کہ رسول اللہﷺ اپنے کام کو پورا کرکے اللہ پاک سے جا ملے لیکن وہ خزانے اب تمہارے ہاتھوں میں ہیں۔ روایت مذکورہ میں ایک مہینے کی راہ سے یہ مذکور نہیں ہے۔ لیکن جابرؓ کی روایت جو امام بخاری ؒ نے کتاب التیمم میں نکالی ہے اس میں اس کی صراحت موجود ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2977
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6998
6998. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”مجھے جوامع کلمات دیے گئے ہیں اور رعب کے ذریعے سے میری مدد کی گئی ہے۔ میں گزشتہ رات سویا ہوا تھا کہ اچانک مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں پیش کی گئیں حتی کہ انہیں میرے ہاتھ پر رکھ دیا گیا۔“ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ تو دنیا سے تشریف لےگئے اور تم ان خزانوں کو نکال رہے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6998]
حدیث حاشیہ: بعض نسخوں میں تنتقلو نھا بعض میں تنتتلونھا بعض میں تنتفلونھا ہے اس لیے یہ تین ترجمے ترتیب سے لکھ دئیے گئے ہیں فتوحات اسلامی میں جس قدر خزائن مسلمانوں کو حاصل ہوئے۔ یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6998
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2977
2977. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے جامع کلمات دے کر بھیجا گیا ہے اور رعب کے ذریعے سے میری مدد کی گئی ہے۔ ایک دفعہ میں سورہا تھا کہ میرے پاس زمین کے خزانوں کی چابیاں لائی گئیں اور میرے ہاتھ میں دے دی گئیں۔“ حضرت ابوہریرہ ؓنے کہا: رسول اللہ ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے اور اب تم وہ خزانے نکال رہے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2977]
حدیث حاشیہ: 1۔ صرف حصول رعب مراد نہیں بلکہ جو چیز رعب سے پیدا ہوتی ہے یعنی دشمن پر کامیابی وہ مراد ہے اس روایت میں ایک مہینے کی مسافت کا ذکر نہیں تاہم حضرت جابر ؓ کی روایت میں اس کی صراحت ہے۔ 2۔ خزانوں کی چابیوں کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ بشارت دی گئی کہ آپ کی امت کے ہاتھوں دنیا کی بڑی بڑی سلطنتیں فتح ہوں گی اور وہ ان کے خزانوں کے مالک ہوں گے چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد مسلمانوں نے اس خواب کی مکمل تعبیر دیکھی کہ دنیا کی دو سب سے بڑی حکومتیں ایران اور روم مسلمانوں نے فتح کیں اور ان کے خزانے ان کے ہاتھ آئے۔ اور یہ بھی احتمام ہے کہ اس سے سونے اور چاندی کی کانیں مراد ہوں یعنی عنقریب وہ شہر فتح ہوں گے جن میں سونے اور چاندی کی کانیں ہوں گی۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2977
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7013
7013. حضرت ابو ہریرہ ؓ سےروایت ہے انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”مجھے جوا مع الکلم دے کر بھیجا گیا ہے۔ اور رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے۔ ایک وقت میں سو رہا تھا کہ میرے پاس زمین کے خزانوں کی چابیاں لائی گئیں اور میرے ہاتھ اور انہیں رکھ دیا گیا۔“ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) نے فرمایا: جوا مع الکلم سے مراد یہ ہے کہ بہت سے امور جو آپ ﷺ سے پہلے کتابوں میں لکھے ہوئے تھے ان کو اللہ تعالیٰ نے ایک یا دو امور وغیرہ میں جمع کردیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7013]
حدیث حاشیہ: 1۔ اہل تعبیر نے کہا ہے کہ خواب میں چابیاں دیکھنا مال ودولت اور عزت و غلبے کی دلیل ہے۔ جس نے دیکھا کہ وہ چابی سے دروازہ کھولتا ہے وہ کسی حاکم کی مدد سے ضرورت پوری ہونے میں کامیاب ہوگا۔ اگر ہاتھ میں چابیاں دیکھے تو اسے عظیم غلبہ حاصل ہوگا۔ (فتح الباري: 501/12) اگر وہ جنت کی چابی ہے تو دین میں غلبہ یا اچھے عمل کرے گا۔ یا خزانہ پائے گا۔ یا وراثت میں حلال مال ہاتھ آئے گا اگر کعبے کی چابی دیکھے تو بادشاہ یا حاکم یا دربان ہو گا۔ 2۔ علامہ کرمانی نے کہا ہے کہ چابی دیکھنے کی تعبیر یہ بھی ہے کہ اگر اس سے دروازہ کھولے تو جو دعا کرے اسے شرف قبولیت سے نوازا جائے۔ (عمدة القاري: 294/16)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7013