وحدثنا حرملة بن يحيى ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، ان عائشة ، اخبرته: " ان الانصار كانوا قبل ان يسلموا هم وغسان يهلون لمناة، فتحرجوا ان يطوفوا بين الصفا، والمروة، وكان ذلك سنة في آبائهم، من احرم لمناة لم يطف بين الصفا، والمروة، وإنهم سالوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك حين اسلموا، فانزل الله عز وجل في ذلك: إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما ومن تطوع خيرا فإن الله شاكر عليم سورة البقرة آية 158 ".وحَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ ، أَخْبَرَتْهُ: " أَنَّ الْأَنْصَارَ كَانُوا قَبْلَ أَنْ يُسْلِمُوا هُمْ وَغَسَّانُ يُهِلُّونَ لِمَنَاةَ، فَتَحَرَّجُوا أَنْ يَطُوفُوا بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، وَكَانَ ذَلِكَ سُنَّةً فِي آبَائِهِمْ، مَنْ أَحْرَمَ لِمَنَاةَ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، وَإِنَّهُمْ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ حِينَ أَسْلَمُوا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ سورة البقرة آية 158 ".
یو نس نے ابن شہاب سے انھوں نے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں بتا یا کہ انصار اور بنو غسان اسلام لا نے سے قبل مناۃ کا تلبیہ پکا را کرتے تھے اور اس بات میں سخت حرج محسوس کرتے تھے کہ وہ صفا مروہ کے مابین طواف کریں۔ (درحقیقت) یہ طریقہ ان کے آباء واجداد میں رائج تھا کہ جو بھی مناۃ کے لیے احرا م باندھے وہ صفا مروہ کا طواف نہیں کرے گا۔ان لوگوں نے جب یہ اسلام لا ئے تو اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا۔اس پر اللہ تعا لیٰ نے اس کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی: " بلاشبہ صفا مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو شکس بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس پر کوئی حرج نہیں کہ وہ ان دونوں کا طواف کرے اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اللہ قدر دان ہے سب جا ننے والاہے۔"
عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے بتایا کہ انصار اور غسان اسلام لانے سے پہلے، مناۃ کے لیے احرام باندھتے تھے، اس لیے انہوں نے (حسب عادت) صفا اور مروہ کے درمیان طواف کرنے میں حرج محسوس کیا، ان کے آباؤ اجداد کا یہی طریقہ تھا، کہ جو مناۃ کا احرام باندھتا، صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرتا، اسلام لانے کے بعد انہوں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، (بےشک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں تو جو بیت اللہ کا حج کرے، یا عمرہ کرے، تو اس پر کوئی حرج نہیں کہ ان کا طواف کرے، اور جس نے کوئی نیکی خوش دلی کے ساتھ کی، تو اللہ قبول کرنے والا اور خوب جاننے والا ہے)۔
لو كانت كما تقول كانت فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما إنما أنزلت هذه الآية في الأنصار كانوا يهلون لمناة وكانت مناة حذو قديد وكانوا يتحرجون أن يطوفوا بين الصفا والمروة فلما جاء الإسلام سألوا رسول الله عن ذلك فأنزل الله إن الصفا والمروة من
لو كان كما تقول لكان فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما إنما أنزل هذا في أناس من الأنصار كانوا إذا أهلوا أهلوا لمناة في الجاهلية فلا يحل لهم أن يطوفوا بين الصفا والمروة فلما قدموا مع النبي للحج ذكروا ذلك له فأنزل الله هذه الآية فلعمري
الأنصار كانوا قبل أن يسلموا هم وغسان يهلون لمناة فتحرجوا أن يطوفوا بين الصفا والمروة وكان ذلك سنة في آبائهم من أحرم لمناة لم يطف بين الصفا والمروة وإنهم سألوا رسول الله عن ذلك حين أسلموا فأنزل الله في ذلك إن الصفا والمروة من شعائ
ما أتم الله حج امرئ ولا عمرته لم يطف بين الصفا والمروة ولو كان كما تقول لكان فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما وهل تدري فيما كان ذاك إنما كان ذاك أن الأنصار كانوا يهلون في الجاهلية لصنمين على شط البحر يقال لهما إساف ونائلة ثم يجيئون فيطوفون بين الصفا والمروة