الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4236
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مورث نے اگر کوئی نذر مانی ہو، تو اس کے نیک طنیت وارث، اس کو پورا کرنا اپنی ذمہ داری تصور کرتے ہیں، اس مقصد کے تحت، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا تھا، اور انہیں کے تصور کے مطابق آپﷺ نے ان کو نذر پوری کرنے کا حکم دیا تھا، اس لیے سوال کے جواب میں امر کا صیغہ، فقہی اور قانونی فرضیت پر دلالت نہیں کرتا، اس لیے جمہور فقہاء کے نزدیک وارث پر نذر پوری کرنا فرض نہیں ہے، بہتر یہی ہے کہ اس کو پورا کرے، اور اگر نذر کا تعلق مال سے ہو اور ترکہ میں مال موجود ہو، تو پھر اس کا پورا کرنا فرض ہے، اور کیا وارث ہر قسم کی نذر، اس کا تعلق مال سے ہو، یا بدن سے پوری کر سکتا ہے؟ یا اس میں کوئی قید ہے؟ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ (ا) اگر نذر کا تعلق خالص مال سے ہے، مثلاً صدقہ کی نظر ہے، تو امام شافعی کے نزدیک، اس کا پورا کرنا فرض ہے، اگر ترکہ کے تہائی سے پوری ہو سکتی ہے، وگرنہ فرض نہیں ہے، اور احناف کے نزدیک، اگر مرنے والے نے وصیت کی ہو اور تہائی ترکہ سے پورا کرنا ممکن ہو تو پھر فرض ہے، اگر وصیت نہیں کی، تو پھر فرض نہیں ہے، امام مالک کا بھی یہی موقف ہے۔ (ب) اگر نذر کا تعلق محض بدن سے ہو، مثلا نماز، تو بالاتفاق اس کو پورا کرنا درست نہیں، اگر روزہ ہے، تو امام احمد کے نزدیک وارث روزہ رکھ سکتا ہے، لازم نہیں ہے، حالانکہ روایت کا صریح تقاضا روزہ رکھنا ہے، لیکن باقی ائمہ ثلاثہ کے نزدیک عبادات بدنیہ میں نیابت جائز نہیں ہے، اس لیے وارث روزہ نہیں رکھ سکتا، فدیہ ادا کرے گا، علامہ تقی لکھتے ہیں، نماز اور روزہ دونوں کی جگہ فدیہ دے گا۔ (تکملہ، ج 2، ص 151) ۔ معلوم نہیں، ان حضرات کے نزدیک نماز کا فدیہ کیا ہے، اور کس دلیل کی بنا پر میت کی طرف سے بلا نذر ہی قرآن مجید پڑھنے کی اجازت ہی نہیں ترغیب دیتے ہیں، کیا وہ عبادت بدنی نہیں ہے، رہی تاویل کہ یہ اھدائے ثواب ہے، تو اس کے لیے دلیل کی ضرورت ہے، یہ کوئی نیا کام تو ہے نہیں کہ قیاس چل سکے۔ (ج) اگر عبادت بدنی مالی ہو، جیسے حج تو پھر جمہور کے نزدیک یہاں نیابت درست ہے، اگر ترکہ چھوڑا ہے اور اس کے تہائی سے حج ہو سکتا ہے، اور میت نے وصیت کی ہو، تو پھر اس کا پورا کرنا فرض ہے، وگرنہ مستحب ہے فرض نہیں، لیکن امام مالک کے نزدیک بقول علامہ تقی جائز نہیں ہے، جبکہ امام باجی نے لکھا ہے، جائز ہے۔ (المنتقیٰ، ج 3، ص 230) مالی نذر، روزہ کی نذر اور حج کی نذر کا وارث کا پورا کرنا، ان کے دلائل احادیث میں موجود ہیں، لیکن کسی نے نماز پڑھنے کی نذر مانی ہو تو اس کی دلیل موجود نہیں ہے، بلکہ بعض صحابہ سے اس کی ممانعت منقول ہے، اس لیے جس کام کی دلیل مل جائے، وہ قابل عمل ہے، محض قیاس سے کام لینا درست نہیں ہے، کیونکہ وہ کام جو عبادات سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں صریح دلیل کی ضرورت ہے، محض قیاس کافی نہیں ہے، اور اہدائے ثواب وہیں ہو سکتا ہے جہاں نیابت ممکن ہو، روزہ اور حج میں نیابت ثابت ہے، نماز، قراءت قرآن میں ثابت نہیں ہے۔