الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4821
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: علماء نے لکھا ہے چونکہ اس درخت کے نیچے بیعت رضوان ہوئی تھی اور خیر و برکت اور سکینہ کا نزول ہوا تھا، اگر یہ درخت متعین اور معلوم رہتا تو یہ خدشہ تھا کہ لوگ آہستہ آہستہ اس کی تعظیم و تکریم میں غلو کرتے کرتے اس کی عبادت کرنے لگ جاتے پھر اس کو نافع اور ضار خیال کرتے ہوئے میلہ گاہ بنا لیتے جیسا کہ بخاری شریف کی اس روایت سے اس کی تصدیق ہوتی ہے، طارق بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، میں حج کے لیے گیا اور کچھ لوگوں کو ایک جگہ نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، میں نے پوچھا، یہ کون سی مسجد ہے؟ انہوں نے کہا، یہ وہ درخت ہے، جس کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت رضوان کی تھی، اس پر حضرت سعید بن المسیب نے بتایا، میرا باپ اس بیعت میں شریک تھا، اس کو تو اگلے سال ہی اس درخت کا پتہ نہ چل سکا، تو ان لوگوں کو کیسے پتہ چل گیا، گویا لوگوں نے ایک درخت کو وہ درخت سمجھ کر مسجد بنا لیا، اس طرح خطرہ پیدا ہو گیا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس درخت کو کٹوا دیا، تاکہ اس سے شرک و بدعت کا دروازہ نہ کھل جائے۔