مالک بن انس، لیث بن سعد اور یزید بن ہارون سب نے یحییٰ بن سعید سے روایت کی، (اسی طرح) محمد بن مثنیٰ نے ہمیں حدیث بیان کی۔۔ الفاظ انہی کے ہیں۔۔ کہا: ہمیں عبدالوہاب ثقفی نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے یحییٰ بن سعید سے سنا، کہا: مجھے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے خبر دی کہ عمرہ نے ان کو حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ کہتی تھیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "مجھے جبریل مسلسل ہمسائے کے ساتھ حسن سلوک کے لیے کہتے رہے، حتی کہ مجھے یقین ہونے لگا کہ وہ ضرور انہی وراثت میں شریک کر دیں گے۔"
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:"جبریل ؑ مجھے پڑوسی کے بارے میں ہمیشہ وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں گمان کرنے لگا کہ وہ اس کو وارث ہی ٹھہرادیں گے۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6685
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اسلام میں پڑوسی کو بہت اہمیت دی گئ ہے اور اس کے مختلف مراتب و درجات مقرر کیے گئے ہیں اور ہر پڑوسی سے اس کی حیثیت اور مرتبہ کے مطابق سلوک ہو گا، ایک صرف گھر کا پڑوسی ہے، لیکن مسلمان نہیں ہے، ایک پڑوسی بھی ہے اور مسلمان بھی ہے، نیک کردار اور آپ کا خیرخواہ اور ہمدرد بھی ہے، آپ کا بدخواہ اور دشمن نہیں ہے، ایک پڑوسی مسلمان بھی ہے اور آپ کا رشتہ دار بھی ہے، ایک عارضی پڑوسی ہے اور ایک دائمی اور ہمہ وقت کا پڑوسی ہے، جیسا کہ خود قرآن مجید سورۃ النساء آیت نمبر 47 میں اس کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔