الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6859
حضرت اغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے ہیں،نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوحدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے لوگو! اللہ کی طرف لوٹو،اس کے حضور میں توبہ کرو،کیونکہ میں بھی دن میں سوسومرتبہ اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6859]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
استغفار کا معنی ہے،
معافی مانگنا اور بخشش طلب کرنا اور توبہ کا معنی ہے،
اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا،
اس کی طرف لوٹ آنا اور اس صحیح راہ کو اختیار کر لینا،
جس کی طرف اللہ تعالیٰ کی راہنمائی فرمائی ہے،
اگر آدمی جرم و گناہ سے باز نہ آئے اور صحیح روش اختیار نہ کرے تو زبان سے لاکھ دفعہ توبہ،
میری توبہ کہے،
یہ توبہ نہیں مذاق ہو گا،
اس لیے استغفار اور توبہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں اور توبہ کی شرعی حقیقت یہ ہے کہ جو گناہ اور نافرمانی یا ناپسندیدہ عمل،
انسان سے سرزد ہوا ہے،
اس سے فورا باز آ جائے،
اس کے برے انجام کے خوف کے ساتھ اس پر اپنے دلی رنج اور ندامت و پشیمانی کا اظہار کرے اور آئندہ کے لیے اس سے بچے رہنے اور دور رہنے کا اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اس کی رضا جوئی کا عزم پیدا کرے اور جو گناہ ہو گیا ہے،
اس کا تدارک اور تلافی کرے اور اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو وہ اگر مال سے تعلق رکھتا ہے تو اس کو واپس کرے،
یا اس سے معاف کروائے،
لیکن یہ خیال رہے کہ توبہ و استغفار صرف عاصیوں اور گناہ گاروں کے لیے مغفرت اور رحمت کا ذریعہ ہے تو مقرب انبیاء کے لیے درجات قرب و محبوبیت میں ترقی کا وسیلہ ہے،
اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیرنے کے بعد تین دفعہ استغفراللہ کہتے تھے،
حالانکہ نماز ایک بلند ترین عبادت ہے۔
اس لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّـهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا (سورة التحريم: 8)
"اے ایمان دار لوگو! اللہ کی طرف مخلصانہ رجوع کرو دل کے پورے انقیاد اور سچے عزم کے ساتھ لوٹو،
جس کے بعد گناہ کی طرف لوٹنے کی خواہش باقی نہ رہے۔
"
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6859