حدثنا ابو الربيع العتكي ، وقتيبة بن سعيد كلاهما، عن حماد بن زيد واللفظ لقتيبة، حدثنا حماد، عن ايوب ، عن ابي قلابة ، عن ابي اسماء ، عن ثوبان ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله زوى لي الارض، فرايت مشارقها ومغاربها، وإن امتي سيبلغ ملكها ما زوي لي منها، واعطيت الكنزين الاحمر والابيض، وإني سالت ربي لامتي ان لا يهلكها بسنة عامة، وان لا يسلط عليهم عدوا من سوى انفسهم فيستبيح بيضتهم، وإن ربي قال يا محمد: إني إذا قضيت قضاء، فإنه لا يرد وإني اعطيتك لامتك ان لا اهلكهم بسنة عامة، وان لا اسلط عليهم عدوا من سوى انفسهم يستبيح بيضتهم، ولو اجتمع عليهم من باقطارها، او قال: من بين اقطارها حتى يكون بعضهم يهلك بعضا ويسبي بعضهم بعضا "،حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ كلاهما، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ وَاللَّفْظُ لِقُتَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيَّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ ، عَنْ ثَوْبَانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ، فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا، وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ، وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَنْ لَا يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ عَامَّةٍ، وَأَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ، وَإِنَّ رَبِّي قَالَ يَا مُحَمَّدُ: إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً، فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ وَإِنِّي أَعْطَيْتُكَ لِأُمَّتِكَ أَنْ لَا أُهْلِكَهُمْ بِسَنَةٍ عَامَّةٍ، وَأَنْ لَا أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ يَسْتَبِيحُ بَيْضَتَهُمْ، وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مَنْ بِأَقْطَارِهَا، أَوَ قَالَ: مَنْ بَيْنَ أَقْطَارِهَا حَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا وَيَسْبِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا "،
ایوب نے ابو قلابہ سے انھوں نے ابو اسماء سے اور انھوں نے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین کو لپیٹ دیا اور میں نے اس کے مشارق و مغارب کو دیکھ لیا اور جہاں تک یہ زمین میرے لیے لپیٹی گئی عنقریب میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی اور مجھے سرخ اور سفید دونوں خزانے (سونے اور چاندی کے ذخائر) دیے گئے اور میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے لیے یہ سوال کیا کہ وہ اس کو عام قحط سالی سے ہلاک نہ کرے اور ان کے علاوہ سے ان پر کوئی دشمن مسلط نہ کرے جو مجموعی طور پر ان سب (کی جانوں) کورواکر لے۔بے شک میرے رب نے فرمایا: "اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !جب میں کوئی فیصلہ کردوں تو وہ رد نہیں ہوتا۔بلاشبہ میں نے آپ کی امت کے لیے آپ کو یہ بات عطا کردی ہے کہ ان کو عام قحط سالی سے ہلاک نہیں کروں گا اور ان پر ان کے علاوہ سے کسی اور دشمن کو مسلط نہ کروں گاجو ان سب (کی جانوں) کورواقراردے لے۔چاہے ان کے خلاف ان کے اطراف والے۔یا کہا: ان کے اطراف والوں کے اندر سے ہوں اکٹھے کیوں نہ ہوں جائیں۔یہاں تک کہ یہ (خود) ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے۔ اور ایک دوسرے کو قیدی بنائیں گے۔"
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین کو سمیٹ دیا۔ چنانچہ میں نے اس کے مشرقی اور مغربی کناروں کو دیکھ لیا اور یقیناًمیری امت کا اقتدار و حکومت وہاں تک پہنچےگی، جہاں تک اس کو میرے لیےسمیٹ دیا گیا اور مجھے دو خزانے سرخ و سفید عنایت کیے گیے (یعنی قیصر و کسریٰ کے خزانے)اور میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے لیے دعا کی کہ وہ اس قحط عام کے ذریعہ ہلاک نہ کرے اور ان پر ان کے اپنے سوادشمن کو غلبہ اور تسلط نہ دے (تمام مسلمانوں پر کافر غالب نہ آجائیں)کہ وہ ان کہ اقتدار ووجمعیت کو پامال کردے اور مجھے میرے رب نے فرمایا، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میں جب کوئی فیصلہ کر لیتا ہوں تو اس کو ٹالا نہیں جا سکتا اور میں نے تجھے تیری امت کے بارے میں یہ وعدہ دے دیا ہے کہ میں انہیں قحط عام سے ہلاک نہیں کروں گا۔ اور میں ان کے سواکوئی ایسا دشمن مسلط نہیں کروں گا، جو ان کی عزت واقتدارکو ختم کردے اگرچہ تمام روئے زمین کے لوگ ان کے خلاف اکھٹے ہو جائیں ہاں وہ خود ہی ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے اور ایک دوسرے کو قیدی بنائیں گے۔"
الله زوى لي الأرض فرأيت مشارقها ومغاربها وإن أمتي سيبلغ ملكها ما زوي لي منها وأعطيت الكنزين الأحمر والأبيض وإني سألت ربي لأمتي أن لا يهلكها بسنة عامة وأن لا يسلط عليهم عدوا من سوى أنفسهم فيستبيح بيضتهم وإن ربي قال يا محمد إني إذا قضيت قضاء فإنه لا ي
الله زوى لي الأرض فرأيت مشارقها ومغاربها وإن أمتي سيبلغ ملكها ما زوي لي منها وأعطيت الكنزين الأحمر والأصفر وإني سألت ربي لأمتي أن لا يهلكها بسنة عامة وأن لا يسلط عليهم عدوا من سوى أنفسهم فيستبيح بيضتهم وإن ربي قال يا محمد إني إذا قضيت قضاء فإنه لا ي
الله زوى لي الأرض فرأيت مشارقها ومغاربها وإن ملك أمتي سيبلغ ما زوي لي منها وأعطيت الكنزين الأحمر والأبيض وإني سألت ربي لأمتي أن لا يهلكها بسنة بعامة ولا يسلط عليهم عدوا من سوى أنفسهم فيستبيح بيضتهم وإن ربي قال لي يا محمد إني إذا قضيت قضاء فإنه لا ير
زويت لي الأرض حتى رأيت مشارقها ومغاربها وأعطيت الكنزين الأصفر أو الأحمر والأبيض وقيل لي إن ملكك إلى حيث زوي لك وإني سألت الله ثلاثا أن لا يسلط على أمتي جوعا فيهلكهم به عامة وأن لا يلبسهم شيعا ويذيق بعضهم بأس بعض وإنه قيل لي إذا قضيت قضاء فلا
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7258
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) احمر اور ابيض، یعنی دینارودرہم (سونا، چاندی) کیونکہ کسریٰ کا عام سکہ دینار تھا اور قیصر کا درہم اور ان دونوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا، (2) سنة عامة: ایسی خشک سالی، جو تمام امت مسلمہ کو گھیر لے اور سب اس کا شکار ہوں، آج تک مسلمان ممالک میں ایسا قحط نہیں پڑا۔ (3) يستبيح بيضتهم، ان کی تمام جمعیت کو اپنے لیے مباح سمجھے، تمام مسلمانوں پر غالب آجائے، آج تک ایسا نہیں ہوا کہ تمام مسلمان اقتدار سے محروم ہوگئے ہوں، ہاں مسلمان باہمی طور پر ایک دوسرے کو قتل کرتے رہتے ہیں اور ایک دوسری کی قیدوبند کا باعث بن بنتے ہیں، دشمن انہیں آپس میں لڑاتے رہتے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7258
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4252
´فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان۔` ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی“ یا فرمایا: ”میرے لیے میرے رب نے زمین سمیٹ دی، تو میں نے مشرق و مغرب کی ساری جگہیں دیکھ لیں، یقیناً میری امت کی حکمرانی وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک زمین میرے لیے سمیٹی گئی، مجھے سرخ و سفید دونوں خزانے دئیے گئے، میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت کو کسی عام قحط سے ہلاک نہ کرے، ان پر ان کے علاوہ باہر سے کوئی ایسا دشمن مسلط نہ کرے جو انہیں جڑ سے مٹا دے، اور ان کا نام باقی نہ رہنے پائے، تو میرے رب نے مجھ سے فرمایا: اے محمد! جب ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الفتن والملاحم /حدیث: 4252]
فوائد ومسائل: 1) اس مضمون کی احادیث میں بشارت ہے کہ امتِ مسلمہ کی عملداری مشرق و مغرب کی انتہاؤں تک پہنچے گی۔ اس کا کسی قدر اظہار ہو چکا ہے اور انشا اللہ مزید بھی ہو گا۔
2) سرخ و سفید سے مراد سونے چاندی کی دولت ہے۔ اور فی الواقع دنیا میں مجموعی طور پر دولت کے مصادر و منابع جس قدر مسلمانوں کے پاس ہیں کسی اور امت کے پاس نہیں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ موجودہ حا لات میں مسلمان اپنی نادانی اور اللہ کے عقاب (مجھے لگتا ہے سے عتاب ہونا چاہیئے لیکن جیسا فائل میں لکھا ہے میں ویسا ہی لکھ رہی ہوں) کی وجہ سے اس میں فتنے میں مبتلا ہیں اور دوسری قومیں ان کی دولت سے فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔
3) اس امت میں کلی اور اجتماعی قحط نہیں پڑے گا جزوی ہو سکتا ہے۔
4) اس امت پر براہِ راست کو ئی دوسری قوم مسلط نہیں ہو گی وہ ہمیشہ مسلمانوں ہی میں سے کچھ لوگ ان کے خلاف استعمال کر کے ان کو مغلوب کریں گے۔ تاریخ میں یہ حقائق نمایاں اور موجودہ حالات اس کی گواہی دے رہے ہیں۔
5) ائمہ مُضلین (گمراہ امام) دینی ہوں یا سیاسی یہی امت کے لیئے سب سے بڑا فتنہ ہے۔ اور عوام کالانعام بالعموم اپنے ائمہ و حکام ہی کے پیرو ہو کرتے ہیں۔
6) اور اس حقیقت سے انکا رنہیں کہ جب سے امت میں تلوار پڑی ہے اُتھ نہیں سکی۔ لا حول ولاقوة إلابالله۔
7) بالآخر امت سے علم اُٹھا لیا جائے گا جہالت عام ہو جا ئے گی حتی کہ لوگ صریح شرک جلی بلکہ بت پرستی میں مبتلا ہو نگے۔ ونسال اللہ السلام 8) مسیلمہ کذاب سے لیکر اب تک وقتاََ فوقتاََ جھوٹے نبی ظاہر ہوتے رہے ہیں اور شائد اور بھی ہونگے، جیسے کہ ہندوستان میں مرزا غلام احمد قادیانی اپنے وقت کا ایک طاغوت ہو گزرا ہے ان کی مجمو عی تعداد تو نامعلو م کتنی ہو مگر ان میں سے تیس بہت نمایاں ہونگے۔
9) امت میں سے حق اور اہلِ حق کبھی ناپید نہیں ہونگے۔ تھوڑے بہت ہر جگہ اپنے آپ کو ظاہر اور نمایاں رکھیں گے جو ایک تاریخی حقیقت ہے اور زبانِ نبوت سے آ ئیندہ کے لیئے پیشین گو ئی بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ والحمد للہ علٰی ذلك۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4252
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3952
´(امت محمدیہ میں) ہونے والے فتنوں کا بیان۔` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لیے زمین سمیٹ دی گئی حتیٰ کہ میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھ لیا، پھر اس کے دونوں خزانے زرد یا سرخ اور سفید (یعنی سونا اور چاندی بھی) مجھے دئیے گئے ۱؎ اور مجھ سے کہا گیا کہ تمہاری (امت کی) حکومت وہاں تک ہو گی جہاں تک زمین تمہارے لیے سمیٹی گئی ہے، اور میں نے اللہ تعالیٰ سے تین باتوں کا سوال کیا: پہلی یہ کہ میری امت قحط (سوکھے) میں مبتلا ہو کر پوری کی پوری ہلاک نہ ہو، دوسری یہ کہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے نہ کر، تیسری یہ کہ آپس می۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3952]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) زمین سمیٹے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ لے لیے زمین اس طرح منکشف فرمائی کہ آپ نے اس کے مشرقی اور مغربی علاقے بیک وقت ملاحظہ فرمالیے۔
(2) جہاں تک زمین سمیٹی گئی ہےاس میں اشارہ ہے کہ زمین کے بعض حصے اس کشف میں شامل نہیں تھے۔ ممکن ہے کہ صرف وہ علاقے دکھائیں گئے ہوں جہاں تک ایک وقت میں اسلامی حکومت قائم ہونا مقدور ہو یعنی اسلامی سلطنت اپنی وسیع ترین حدود میں دکھائی گئی۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ پوری زمین دکھائی گئی ہو کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں پوری دنیا میں اسلام غالب ہوگا کیونکہ وہ جزیہ قبول نہیں کریں گے بلکہ ان کا مطالبہ ہوگا کہ یا تو مسلمان ہوجاؤ یا تو مرنے کے لیےتیار ہوجاؤ۔
(3) نبیﷺ کو سونے چاندی کے خزانے دیے جانے کا مطلب امت کا ان خزانوں پر قابض اور متصرف ہونا ہےجیسے خلافت راشدہ کے دور میں قیصر وکسریٰ کی سلطنتیں ملیا میٹ ہوئیں اور ان کے خزانے مسلمانوں کے قبضے میں آئے۔
(4) تمام امت کا بھوک سے ہلاک نہ ہونے کا مطلب یہ ہے نہیں کہ ان پر جزوی طور پر ایسا عذاب نہیں آئے گا بلکہ امت کے جرائم کی وجہ سے مقامی طور پر مختلف انداز کے عذاب آئے ہیں اور آئندہ بھی آسکتے ہیں۔
(5) مسلمانوں میں باہمی قتل وغارت واقع ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اسے ناگزیر سمجھ کر قبول کرلیں بلکہ ہمارا فرض ہے کہ مسلمانوں کو اس کیفیت سے نکالنے کے لیے جو کچھ ممکن ہوعملی طور پر کریں۔
(6) گمراہ کرنے والے قائدین کے شر سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن اور احادیث شریفہ کا علم حاصل کریں تاکہ دین کی اصل تعلیمات کو جان کر ان پر عمل کرسکیں۔
(7) وثن سے صرف بت (صنم) مراد نہیں بلکہ اللہ کے سوا جس چیز کی بھی پوجا کی جائے وہ وثن ہے: مثلاً بزرگوں کی قبریں، تصویریں، تبرکات، بزرگوں کی طرف منسوب درخت، پتھر اور غار وغیرہ۔ ان سب چیزوں سے نام نہاد عقیدت کے جو مظاہرے اور شرکیہ اعمال کیے جاتے ہیں ان کی وجہ سے یہ سب اشیاء وثن بن گئی ہیں۔ لہٰذا ان سے دور رہنا ہر توحید پرست کا فرض ہے۔
(8) مسلمانوں کا مشرکین سے ملنا اس طرح بھی ہے کہ وہ اسلام چھوڑ کر مرتد ہوجائیں اور یہ بھی ہے کہ جنگ وجدل اور جھگڑے فساد کے موقع پر وہ مسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں کی مدد کریں اور یہ بھی ہے کہ ان کے کافرانہ رسم ورواج اور الحاد کے مظاہر کو ” تہذیب“ قرار دے کر اختیار کرلیں جیسے ہندؤں کی بسنت اور عیسائیوں کا ویلن ٹائن ڈے اور اپریل فول وغیرہ۔
(9) حضرت محمدﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد نبوت کا دعوی کرنے والا ہر شخص دجال اور کذاب ہے جیسے کہ مرزا غلام قادیانی یا عا لیجاہ محمد وغیرہ۔
(10) اہل حق کی ایک جماعت قیامت تک قائم رہے گی جو قرآن و حدیث کو مشعل راہ بنائے گی اور نت نئے اٹھنے والے گمراہ فرقوں کی گمراہی واضح کرے گی۔
(11) امام ابن ماجہؒ نے اس حدیث کو اس لیے خوف زدہ کرنے والی قرار دیا ہے کہ اس میں مسلمانوں کے کفروشرک اکبر میں ملوث ہوجانے کا ذکر ہے۔ یہ بات یقیناً خطرناک ہے کہ انسان خود کو مسلمان سمجھتا رہے اوراللہ کے ہاں وہ اسلام سے خارج ہوچکا ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3952