تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب التكبيرفي العيدين، حديث:1151، والترمذي في علل الكبير:1 /88.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عیدین کی بارہ تکبیریں زائد ہیں۔
مگر اس کی سند میں بعض حضرات نے کلام کیا ہے کہ اگر جدہ سے عمرو کا دادا محمد بن عبداللہ مراد ہے تو یہ روایت مرسل ہے کیونکہ محمد بن عبداللہ تابعی ہیں اور اگر شعیب کے دادا عبداللہ مراد ہیں تو شعیب کا ان سے سماع ثابت نہیں‘ اس لیے یہ روایت منقطع ہے۔
لیکن یہ بات غلط ہے‘ امام دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس کی تردید کی ہے اور شعیب کا اپنے دادا سے سماع ثابت کیا ہے۔
اور یہاں جدہ سے مراد شعیب ہی کا دادا ہے۔
2. جمہور ائمۂجرح و تعدیل اس سند کو صحیح قرار دیتے ہیں۔
امام احمد‘ امام علی بن مدینی‘ امام اسحق‘ امام ابوعبیدہ‘ امام بخاری‘ امام دارقطنی اور امام دارمی رحمہم اللہ وغیرہم نے اسے صحیح کہا ہے۔
بلکہ فقہائے اربعہ بھی اس سند سے استدلال کرتے اور اسے صحیح کہتے ہیں۔
3.امام ترمذی رحمہ اللہ سے جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ
”امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو صحیح کہا ہے۔
“ اس کے بارے میں صاحب سبل السلام نے کہا ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی جامع میں عمرو بن شعیب کی روایت ہی نقل نہیں کی‘ معلوم نہیں کہ حافظ ابن حجر نے امام ترمذی رحمہ اللہ کے اس قول کو کہاں سے نقل کیا ہے؟ میں نے اس کے متعلق تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہ روایت امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی
”العلل الکبیر
“ میں نقل کی ہے۔
حافظ زیلعی نے نصب الرایہ: ۲ /۲۱۷ میں بھی اسی کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔
4.اس حدیث کی تائید حضرت عائشہ‘ حضرت سعد‘ حضرت ابن عباس اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی روایات سے بھی ہوتی ہے مگر ان میں کلام ہے۔
اکثر صحابہ و تابعین اور فقہائے مدینہ کے علاوہ امام احمد اور امام شافعی ; وغیرہ کا بھی اسی حدیث کے مطابق عمل ہے۔
5. شارح ترمذی‘ علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ کا اس سلسلے میں مستقل رسالہ القول السدید فیما یتعلق بتکبیرات العید قابل دید ہے۔
6. امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور بعض دیگر فقہائے کوفہ چھ تکبیروں کے قائل ہیں۔
تین پہلی رکعت میں قراء ت سے پہلے اور تین دوسری رکعت میں رکوع میں جانے سے پہلے‘ مگر اس بارے میں کوئی صحیح مرفوع روایت ثابت نہیں۔
جمہور صحابہ و تابعین کا عمل ہی راجح اور دلیل کے اعتبار سے قوی ہے۔
7. تکبیرات عیدین کے ساتھ رفع الیدین کرنے کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔
امام ابن حزم اس کی بابت لکھتے ہیں:
«لَمْ یَصِحَّ قَطُّ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم رَفَعَ فِیہِ یَدَیْہِ» (المحلی:۵ / ۸۳‘ ۸۴) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعاً یہ ثابت نہیں کہ آپ نے ان تکبیروں میں رفع الیدین کیا ہے۔
“ محقق عصر شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ مسنون نہیں ہے۔
(إرواء الغلیل: ۳ / ۱۱۴) تاہم تکبیرات عیدین کے ساتھ رفع الیدین کرنے کی بابت ائمہ کے اقوال ضرور ملتے ہیں۔
عطاء بن ابی رباح سے پوچھا گیا: کیا امام نماز عیدین میں ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرے؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں‘ وہ رفع الیدین کرے اور لوگ بھی اس کے ساتھ ہاتھ اٹھائیں۔
(المصنف لعبد الرزاق: ۳ /۲۹۷) نیز امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تکبیرات عیدین کے موقع پر ہاتھ اٹھانے چاہییں اگرچہ میں نے اس کے متعلق کچھ نہیں سنا۔
(الفریابي بحوالہ إرواء الغلیل: ۳ / ۱۱۳) اور امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ تکبیرات عیدین میں ہاتھ اٹھانے چاہییں۔
(الأم: ۱ / ۲۳۷) لہٰذا ان اقوال کی روشنی میں اگر کوئی تکبیرات عیدین میں رفع الیدین کرتا ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے اور کوئی نہیں کرتا تو اس کا بھی جواز ہے۔
اس میں تشدد نامناسب ہے۔
واللّٰہ أعلم۔