بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے روکا تھا سو اب زیارت کرو کیونکہ ان کی زیارت میں موت کی یاددہانی ہے“۔
Narrated Buraidah: The Messenger of Allah ﷺ as saying: I forbade you to visit graves, but you may now visit them, for in visiting them there is a reminder (of death).
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3229
نهيتكم عن ثلاث وأنا آمركم بهن نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها فإن في زيارتها تذكرة نهيتكم عن الأشربة أن تشربوا إلا في ظروف الأدم فاشربوا في كل وعاء لا تشربوا مسكرا نهيتكم عن لحوم الأضاحي أن تأكلوها بعد ثلاث فكلوا واستمتعوا بها في أسفاركم
نهيتكم أن تأكلوا لحوم الأضاحي إلا ثلاثا فكلوا وأطعموا وادخروا ما بدا لكم لا تنتبذوا في الظروف الدباء والمزفت والنقير والحنتم وانتبذوا فيما رأيتم اجتنبوا كل مسكر نهيتكم عن زيارة القبور فمن أراد أن يزور فليزر ولا تقولوا هجرا
نهيتكم عن ثلاث عن زيارة القبور فزوروها ولتزدكم زيارتها خيرا نهيتكم عن لحوم الأضاحي بعد ثلاث فكلوا منها وأمسكوا ما شئتم نهيتكم عن الأشربة في الأوعية فاشربوا في أي وعاء شئتم لا تشربوا مسكرا
نهيتكم عن لحوم الأضاحي بعد ثلاث عن النبيذ إلا في سقاء عن زيارة القبور فكلوا من لحوم الأضاحي ما بدا لكم وتزودوا وادخروا من أراد زيارة القبور فإنها تذكر الآخرة واشربوا اتقوا كل مسكر
نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها نهيتكم عن لحوم الأضاحي فوق ثلاثة أيام فأمسكوا ما بدا لكم نهيتكم عن النبيذ إلا في سقاء فاشربوا في الأسقية كلها لا تشربوا مسكرا
نهيتكم عن ثلاث زيارة القبور فزوروها ولتزدكم زيارتها خيرا نهيتكم عن لحوم الأضاحي بعد ثلاث فكلوا منها ما شئتم نهيتكم عن الأشربة في الأوعية فاشربوا في أي وعاء شئتم لا تشربوا مسكرا
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 472
´قبروں کی زیارت جائز ہے` ”سیدنا بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا۔ اب ان کی زیارت کرو۔“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 472]
لغوی تشریح: «فَزُورُوهَا» «زيارة» سے امر کا صیغہ ہے۔ یہ اجازت ممانعت کے بعد تھی۔ «تُذَكَّرُ» «تذكير» سے ماخوذ ہے، یعنی یاد دہانی کراتی ہے۔ «تُزْهَّدُ» «تزهيد» سے ماخوذ ہے، یعنی دنیا سے بےرغبت و زاہد بنا دیتی ہے۔ زیارت قبور سے بس یہی مقصود و مطلوب ہوتا ہے۔
فوائد و مسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قبروں کی زیارت جائز ہے۔ ➋ ابتداء میں نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا تھا مگر پھر اس کی اجازت دے دی اور اس سے مقصد آخرت کی یاد اور میت کے لیے بخشش و مغفرت کی دعا کرنا ہے۔ ➌ قبروں پر نذر و نیاز اور عرس وغیرہ کا شریعت مطہرہ میں کوئی جواز نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 472
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1054
´قبروں کی زیارت کی رخصت کا بیان۔` بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا۔ اب محمد کو اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تو تم بھی ان کی زیارت کرو، یہ چیز آخرت کو یاد دلاتی ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1054]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس میں قبروں کی زیارت کااستحباب ہی نہیں بلکہ اس کا حکم اورتاکید ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ ابتداء اسلام میں اس کام سے روک دیاگیا تھا کیونکہ اس وقت یہ اندیشہ تھا کہ مسلمان اپنے زمانۂ جاہلیت کے اثرسے وہاں کوئی غلط کام نہ کربیٹھیں پھرجب یہ خطرہ ختم ہوگیا اور مسلمان عقیدۂ توحید میں پختہ ہوگئے تو اس کی نہ صرف اجازت دیدی گئی بلکہ اس کی تاکیدکی گئی تاکہ موت کا تصورانسان کے دل ودماغ میں ہروقت رچابسارہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1054
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3235
´قبروں کی زیارت کا بیان۔` بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے روکا تھا سو اب زیارت کرو کیونکہ ان کی زیارت میں موت کی یاددہانی ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3235]
فوائد ومسائل: 1۔ زیارت قبور ایک مشروع او ر مسنون عمل ہے۔ انسان جہاں کہیں مقیم ہو وہاں کے قبرستان کی زیارت کو اپنا معمول بنالے۔ مگر صرف اس مقصد کےلئے دور دراز کا سفر کرنا جائز نہیں۔ 2۔ زیارت قبور کے مسنون آداب ہیں۔ یعنی قبرستان میں داخل ہونے کی دعا اور مسلمان اہل قبور کے لئے دعائے مغفرت نہ کہ وہاں جا کر نماز پڑھنا۔ یا تلاوت قرآن کرنا۔ قبر کو مقام قبولیت سمجھنا یا صاحب قبر کے واسطے اور وسیلے سے دعا کرنا یا خود اسی کو اپنی حاجات پیش کرنا۔ یہ سب کام حرام ہیں۔ اور اسی طرح قبروں پر میلے ٹھیلے اور عرس وقوالی وغیرہ کا احادیث رسول اللہ ﷺ اور عمل صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین میں کوئی نام ونشان تک نہیں ملتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3235