حدثنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لان يمتلئ جوف احدكم قيحا خير له من ان يمتلئ شعرا" , قال ابو علي: بلغني عن ابي عبيد، انه قال وجهه: ان يمتلئ قلبه حتى يشغله عن القرآن وذكر الله، فإذا كان القرآن والعلم الغالب، فليس جوف هذا عندنا ممتلئا من الشعر، وإن من البيان لسحرا , قال: كان المعنى: ان يبلغ من بيانه: ان يمدح الإنسان فيصدق فيه حتى يصرف القلوب إلى قوله، ثم يذمه فيصدق فيه حتى يصرف القلوب إلى قوله الآخر، فكانه سحر السامعين بذلك. حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِكُمْ قَيْحًا خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا" , قال أَبُو عَلِيٍّ: بَلَغَنِي عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ، أَنَّهُ قَالَ وَجْهُهُ: أَنْ يَمْتَلِئَ قَلْبُهُ حَتَّى يَشْغَلَهُ عَنِ الْقُرْآنِ وَذِكْرِ اللَّهِ، فَإِذَا كَانَ الْقُرْآنُ وَالْعِلْمُ الْغَالِبَ، فَلَيْسَ جَوْفُ هَذَا عِنْدَنَا مُمْتَلِئًا مِنَ الشِّعْرِ، وَإِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْرًا , قال: كَأَنَّ الْمَعْنَى: أَنْ يَبْلُغَ مِنْ بَيَانِهِ: أَنْ يَمْدَحَ الْإِنْسَانَ فَيَصْدُقَ فِيهِ حَتَّى يَصْرِفَ الْقُلُوبَ إِلَى قَوْلِهِ، ثُمَّ يَذُمَّهُ فَيَصْدُقَ فِيهِ حَتَّى يَصْرِفَ الْقُلُوبَ إِلَى قَوْلِهِ الْآخَرِ، فَكَأَنَّهُ سَحَرَ السَّامِعِينَ بِذَلِكَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کے لیے اپنا پیٹ پیپ سے بھر لینا بہتر ہے اس بات سے کہ وہ شعر سے بھرے، ابوعلی کہتے ہیں: مجھے ابو عبید سے یہ بات پہنچی کہ انہوں نے کہا: اس کی شکل (شعر سے پیٹ بھرنے کی) یہ ہے کہ اس کا دل بھر جائے یہاں تک کہ وہ اسے قرآن، اور اللہ کے ذکر سے غافل کر دے اور جب قرآن اور علم اس پر چھایا ہوا ہو تو اس کا پیٹ ہمارے نزدیک شعر سے بھرا ہوا نہیں ہے (اور آپ نے فرمایا) بعض تقریریں جادو ہوتی ہیں یعنی ان میں سحر کی سی تاثیر ہوتی ہے، وہ کہتے ہیں: اس کے معنی گویا یہ ہیں کہ وہ اپنی تقریر میں اس مقام کو پہنچ جائے کہ وہ انسان کی تعریف کرے اور سچی بات (تعریف میں) کہے یہاں تک کہ دلوں کو اپنی بات کی طرف موڑ لے پھر اس کی مذمت کرے اور اس میں بھی سچی بات کہے، یہاں تک کہ دلوں کو اپنی دوسری بات جو پہلی بات کے مخالف ہو کی طرف موڑ دے، تو گویا اس نے سامعین کو اس کے ذریعہ سے مسحور کر دیا“۔
Abu Hurairah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: it is better for a man’s belly to be full of pus than to be full of poetry. Abu Ali said: I have been told that Abu Ubaid said: It means that his heart is full of poetry so much so that it makes him neglectful of the Quran and remembrance of Allah. If the Quran and the knowledge (of religion) are dominant, the belly will not be full of poetry in our opinion. Some eloquent speech is magic. It means that a man expresses his eloquence by praising another man, and he speaks the truth about him so much so that he attracts the hearts to his speech. He then condemns him and speaks the truth about him so much so that he attracts the hearts to another of his speech, as if he spelled the audience by it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4991
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح رواه البخاري (6155) مسلم (2257)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5009
فوائد ومسائل: شعروشاعری بیان کا ایک فطری اور لازمی حصہ ہے۔ مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دینی مزاج شاعری پسند نہیں ہے۔ خیرالقرون میں شعر وشعراء سے اشاعت حق اور دفاع اسلام کا کام ضرور لیا گیا ہے، مگر بطور فن اس کی حوصلہ افزائی ہرگزنہیں کی گئی۔ لہذا کوئی صاحب علم شعروشاعری کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے۔ اور قرآن اور اللہ کے ذکر سے غافل ہو رہے تو انتہائی مذموم ہے۔ البتہ حد اعتدال میں رہتے ہوئے اپنے اس ذوق اور فن سے اشاعت حق اور ابطال باطل کا فریضہ سرانجام دے تو بلاشبہ کارخیر ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5009
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2851
´پیٹ کا مواد سے بھرا ہونا (گندے) اشعار سے بھرے ہونے سے بہتر ہے۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی شخص کے پیٹ کا خون آلود مواد سے بھر جانا جسے وہ گلا، سڑا دے، یہ کہیں بہتر ہے اس سے کہ اس کے پیٹ (و سینے) میں (کفریہ شرکیہ اور گندے) اشعار بھرے ہوئے ہوں۔“[سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2851]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: پچھلے باب کی احادیث اور اس باب کی احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ اشعار اگر تو حید وسنت، اخلاق حمیدہ، وعظ ونصیحت، پندونصائح اور حکمت ودانائی پر مشتمل ہوں تو ان کا کہنا، پڑھنا سب جائز ہے، اور اگر کفریہ، شرکیہ، بدعت اور خلاف شرع باتوں پر مشتمل ہوں یا بازاری اور گندے اشعار ہوں تو ان کو اپنے دل وماغ میں داخل کرنا (یا ذکر کرنا) پیپ اورمواد سے زیادہ مکروہ اور نقصان دہ ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2851
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5893
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کے پیٹ میں ایسی پیپ بھر جائے، جو اس کو بگاڑ دے، اس سے بہتر ہے کہ اس کا پیٹ شعروں سے بھرے۔“ حفص کی روایت میں ”يريه“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5893]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) يَريه: جو اس کو بگاڑ دے۔ (2) الوري: اس بیماری کو کہتے ہیں، جو پیٹ کو خراب کر دے یا اس کے پھیپڑوں کو کھا جائے۔ فوائد ومسائل: انسان پر اشعار کا اس قدر غلبہ اور تسلط کہ وہ قرآن و سنت اور علوم شرعیہ کی تحصیل سے محروم ہو جائے اور یاد الٰہی اور فرائض سے غافل رہے ناپسندیدہ ہے، اگرچہ وہ اشعار اچھے ہی کیوں نہ ہوں، لیکن وہ اشعار، جو کفرو فسق کی تعلیم دیتے ہیں، جن میں کسی کی پگڑی اچھالی گئی ہو یا عشق و محبت میں ڈوب کر کسی عورت کی مداح سرائی کی گئی، یا خلاف شریعت ہوں تو ایسے اشعار ہر حالت میں ناپسندیدہ اور مذموم ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5893
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6155
6155. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی آدمی کے پیٹ کا پیپ سے بھر کر خراب ہو جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ (وہ پیٹ) شعروں سے بھر جائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6155]
حدیث حاشیہ: پیٹ بھر جانے سے یہی مطلب ہے کہ سوا شعروں کے اس کو اور کچھ یاد نہ ہو۔ نہ قرآن یاد کرے نہ حدیث دیکھے۔ رات دن شعر گوئی کی دھن میں مست رہے جیسا کہ اکثر شعرائے عصر کا ماحول ہے إلا ماشاءاللہ۔ وہ واعظین حضرات بھی ذراغور کریں جو قر آن و حدیث کی جگہ سارا وعظ شعر وشاعری سے بھر دیتے ہیں۔ یوں گاہے گاہےحمد و نعت کے اشعار مذموم نہیں ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6155
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6155
6155. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی آدمی کے پیٹ کا پیپ سے بھر کر خراب ہو جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ (وہ پیٹ) شعروں سے بھر جائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6155]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری رحمہ اللہ کا مذکورہ عنوان کوئی مسئلہ ثابت کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایک حدیث کی وضاحت کرنے کے لیے ہے کیونکہ حدیث کے ظاہری الفاظ مطلق طور پر اشعار کی مذمت پر دلالت کرتے ہیں، حالانکہ اس سے مراد ایسے اشعار ہیں جو فحش اور اخلاق کو خراب کرنے والے ہوں یا ایسے شاعر مراد ہیں جو رات دن شعر گوئی میں مست رہیں اور شعروں کے علاوہ انہیں کسی کام سے کوئی سروکار نہ ہو، نہ قرآن پڑھیں نہ حدیث یاد کریں اور اللہ کے ذکر سے غافل رہیں یا اس سے مراد وہ شعر ہیں جو ظالم و جابر حکمرانوں کی تعریف میں کہے گئے ہوں یا جن میں عورتوں کے محاسن بیان کیے گئے ہوں۔ (2) اس حدیث کا سبب ورود یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یمن کے علاقے عرج میں سفر کر رہے تھے کہ ایک شاعر سامنے آیا اور اشعار پڑھنے لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شیطان کو پکڑو یا اس شیطان کو شعر کہنے سے روکو۔ “ اس کے بعد آپ نے مذکورہ حدیث بیان فرمائی۔ (صحیح مسلم، الشعر، حدیث: 5895(2259)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6155