انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی وضو کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے ناخن کی مقدار خشک جگہ چھوڑ دی تھی، جہاں پانی نہیں پہنچا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”جاؤ دوبارہ اچھی طرح وضو کرو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 67 (173)، (تحفة الأشراف: 1148)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/143، 146) (صحیح)»
It was narrated from Anas that:
A man came to the Prophet; he had performed ablution and has missed a spot the size of a fingernail where water had not reached. The Prophet said to him: 'Go back and perform ablution properly.'"
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث665
اردو حاشہ: اگر نماز سے پہلے وضو کے اعضاء میں کوئی جگہ خشک نظر آ جائے تو دوبارہ وضو کرنا چاہیے اور اگر نماز کے بعد معلوم ہو تو دوبارہ وضو کرکے نماز بھی دوبارہ پڑھے جیسے اگلی حدیث میں صراحت ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 665
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 50
´سارا پاؤں دھونا فرض` «. . . راى النبى صلى الله عليه وآله وسلم رجلا وفي قدمه مثل الظفر لم يصبه الماء، فقال:ارجع فاحسن وضوءك . . .» ”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک ایسے آدمی پر پڑی جس کے پاؤں کی ناخن برابر جگہ پر پانی نہ پہنچا (یعنی خشک رہ گئی)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ ”واپس جاؤ اور اچھی طرح عمدہ طریق سے وضو کرو . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 50]
� فوائد و مسائل: ➊ یہ حدیث اس بات پر واضح دلیل ہے کہ سارا پاؤں دھونا فرض۔ ➋ ایک دوسری حدیث میں ہے جسے مسلم نے روایت کیا ہے کہ پاؤں کا جتنا حصہ خشک رہ گیا اس کے لئے آگ ہے۔ [صحيح مسلم، الطهارة، باب وجوب غسل الرجلين بكماله، حديث: 241] ➌ ابوداود میں بھی خالد بن معدان سے ایک روایت اسی معنی میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے دیکھا کہ اس کے قدم کی پشت پر تھوڑا سا خشک داغ تھا۔ آپ نے اسے حکم دیا کہ جا، پہلے دوبارہ وضو کر اور پھر نماز پڑھ۔ [سنن ابي داؤد، الطهارة، باب تفريق الوضوء، حديث: 175] ➍ یہ اور اسی قبیل کی دوسری روایات اس پر دال ہیں کہ پاؤں کا دھونا فرض ہے، مسح ناکافی ہے۔ ➎ انہی احادیث کی روشنی میں ائمہ اربعہ، اہل سنت اور مجتہدین امت نے بالاتفاق پاؤں کے دھونے کو فرض قرار دیا ہے۔ جو لوگ پاؤں کے دھونے کو فرض قرار نہیں دیتے اور مسح کے قائل ہیں ان احادیث سے ان کے نظریے کی تردید ہوتی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 50