سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
Establishing the Prayer and the Sunnah Regarding Them
119. . بَابُ : مَنْ رَفَعَ يَدَيْهِ فِي الدُّعَاءِ وَمَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ
119. باب: دعا میں ہاتھ اٹھانے اور اس کو چہرے پر پھیرنے کا بیان۔
Chapter: Raising the hands in supplication and wiping the face with them
حدیث نمبر: 1181
Save to word مکررات اعراب
حدثنا ابو كريب ، ومحمد بن الصباح ، قالا: حدثنا عائذ بن حبيب ، عن صالح بن حسان الانصاري ، عن محمد بن كعب القرظي ، عن ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا دعوت الله فادع بباطن كفيك، ولا تدع بظهورهما، فإذا فرغت، فامسح بهما وجهك".
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ حَسَّانَ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا دَعَوْتَ اللَّهَ فَادْعُ بِبَاطِنِ كَفَّيْكَ، وَلَا تَدْعُ بِظُهُورِهِمَا، فَإِذَا فَرَغْتَ، فَامْسَحْ بِهِمَا وَجْهَكَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کا باطن منہ کی طرف کر کے دعا کرو، ان کے ظاہری حصہ کو منہ کی طرف نہ کرو، اور جب دعا سے فارغ ہو جاؤ تو دونوں ہتھیلیاں اپنے چہرہ پر پھیر لو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 358، (1485)، (تحفة الأشراف: 6448، ومصباح الزجاجة: 417)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 3866) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں صالح بن حسان ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 334)

It was narrated that Ibn ‘Abbas said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘When you call upon Allah, then do so with the palms of your hands (upwards). Do not do so with the back of your hands (upwards). And when you finish, then wipe your face with them.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
ضعيف جدًا
صالح بن حسان: متروك
والحديث ضعفه البوصيري
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 419
   سنن أبي داود1485عبد الله بن عباسسلوا الله ببطون أكفكم ولا تسألوه بظهورها فإذا فرغتم فامسحوا بها وجوهكم
   سنن ابن ماجه1181عبد الله بن عباسإذا دعوت الله فادع بباطن كفيك ولا تدع بظهورهما فإذا فرغت فامسح بهما وجهك
   سنن ابن ماجه3866عبد الله بن عباسإذا دعوت الله فادع ببطون كفيك ولا تدع بظهورهما فإذا فرغت فامسح بهما وجهك

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1181 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1181  
اردو حاشہ:
فائدہ:
ہ روایت ضعیف ہے۔
اس لئے اس سے دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنے کا اثبات نہیں ہوتا۔
تاہم بعض علماء نے شواہد کے طور پر اس روایت کوحسن لغیرہ تسلیم کیا ہے۔
علاوہ ازیں بعض صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کے آثار سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔
اس لئے دعا کے بعد چہرے پرہاتھ پھیرنے کی ضرورت نہیں۔
اس لئے اس کا ثبوت صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین سے بھی نہیں ملتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1181   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1485  
´دعا کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیواروں پر پردہ نہ ڈالو، جو شخص اپنے بھائی کا خط اس کی اجازت کے بغیر دیکھتا ہے تو وہ جہنم میں دیکھ رہا ہے، اللہ سے سیدھی ہتھیلیوں سے دعا مانگو اور ان کی پشت سے نہ مانگو اور جب دعا سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے ہاتھ اپنے چہروں پر پھیر لو۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث محمد بن کعب سے کئی سندوں سے مروی ہے۔ ساری سندیں ضعیف ہیں اور یہ طریق (سند) سب سے بہتر ہے اور یہ بھی ضعیف ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1485]
1485. اردو حاشیہ: دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنے کی احادیث انفراداً ضعیف ہیں مگر بقول حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ مجموعی لہاظ سے درجہ حسن تک پہنچتی ہیں۔ [بلوغ المرام، کتاب الجامع، باب الذکر والدعاء، حدیث: 1554) شیخ البانی ؒ اور ہمارے محقق شیخ زبیر علی زئی وغیرہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں۔ لیکن بعض دوسرے شیوخ بعض آثارصحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی بنیاد پر جن میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل بیان کیا گیا ہے۔ کہ وہ دعا کے بعد اپنے ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر لیتے تھے۔ دیکھئے۔ [الأدب المفرد، حدیث: 609) دعا کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح دعائے قنوت بھی ان علماء کے نزدیک دعا ہی ہے۔ بنا بریں ان کے نزدیک ہاتھ پھیرنے کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے اسکے بعد بھی چہرے پر ہاتھ پھیرنا جائز ہوگا۔ ایک جلیل القدر تابعی رحمۃ اللہ علیہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے قنوت وتر میں بھی ہاتھ پھیرنے کا عمل ثابت ہے۔ دیکھئے۔ [قیام اللیل للمروزي، ص: 236 و مسائل الإمام أحمد، روایة ابن عبد اللہ، ج:
➋ ص:300)
تاہم دعائے قنوت وتر چونکہ نماز کا ایک حصہ ہے۔ اس لئے دعائے قنوت وتر کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے سے بچنا بہتر ہے۔ کیونکہ اس کا اثبات حدیث سے ہوتا ہے نہ عمل صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین سے۔ واللہ أعلم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1485   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3866  
´دعا میں دونوں ہاتھ اٹھانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو تو اپنے ہاتھ کی اندرونی ہتھیلیوں سے دعا کیا کرو، ان کی پشت اپنی طرف کر کے دعا نہ کرو، پھر جب دعا سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے ہاتھ اپنے منہ پر پھیرو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3866]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
مذکورہ روایت ضعیف ہے۔
تاہم روایت میں بیان کردہ مسائل دیگر صحیح احادیث اور صحابہ ؓ کے عمل سے ثابت ہیں۔
جیسا کہ حضرت مالک بن یسار ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو تو اپنی ہتھیلیوں کو پھیلا کر کرو۔
ہاتھوں کی پشت کو پھیلا کر نہ کرو۔ (سنن أبي داؤد، الوتر، باب الدعاء، حدیث: 1186)
 بنا بریں عام دعاؤں میں ہتھیلیاں ہی پھیلانی چاہیں۔
مگر نماز استسقاء میں جب قحط اور خشکی دور کرنے کی دعا کی جائے۔
تو بطور تفاول (نیک شگون)
ہاتھوں کی پشت اوپر کی جانب کی جائے جو کہ سنت رسول سے ثابت ہے۔
باقی رہا دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کا مسئلہ تو اس کا ثبوت بھی بعض صحابہ کرام ؓ اور سلف صالحین سے ملتا ہے۔
اس کی بابت امام بخاری نے الادب المفرد میں ابو نعیم سے موقوفا صحیح سند سے روایت بیان کی ہے۔
کہ ابو نعیم فرماتے ہیں۔
کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ اور ابن زبیر ؓ دونوں حضرات کودعا کرتے ہوئے اور اپنی ہتھیلیوں کو چہرے پر پھرتے ہوئے دیکھا نیز اس مسئلے کی بابت امام طبرانی نے یزید بن سعید الکندی کی روایت نقل کی ہے۔
جس کے بارے میں حافظ ابن حجر  بیان کرتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی ابن لعیہ ضعیف ہے اور اس کااستاد غیرمعروف ہے لیکن اس حدیث کے مؤید شاہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث کی کچھ نہ کچھ بنیاد ضرور ہے۔
علاوہ ازیں حسن بصری سے بھی حسن سند کے ساتھ اس کی تائید مروی ہے مذید تفصیل کے لئے دیکھئے: (العلل: 2/ 347)
گو مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن یہ عمل صحابہ کرام ؓ سے سلف صالحین سے صحیح سندوں سے ثابت ہے لہٰذا اسے بدعت کہنا درست نہیں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مسنون نہیں ہے۔
واللہ اعلم
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3866   



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.