ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس منبر کے پاس کوئی غلام یا لونڈی جھوٹی قسم نہیں کھاتا، اگرچہ وہ قسم ایک تازہ مسواک ہی کے لیے ہو، مگر جہنم کی آگ اس پر واجب ہو جاتی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14949، ومصباح الزجاجة: 815)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/518) (صحیح)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2326
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) باہمی اختلاف اور جھگڑے کے فیصلے کےلیے قسم لینا اور قسم کھانا جائز ہے بشرطیکہ سچی قسم ہو۔ گناہ صرف جھوٹی قسم کھانے میں ہے۔
(2) کسی عام جگہ گناہ کرنے کی نسبت احترام والی جگہ گناہ کرنا زیادہ برا ہے اور اس کی سزا بھی زیادہ سخت ہو گی۔
(3) مسجد دوسرے مقامات سے زیادہ احترام کی مستحق ہے۔
(4) تمام مسجدوں میں سے سب سے زیادہ احترام والی مسجدیں تین ہیں: مسجد حرام، جس میں کعبہ شریف ہے، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔
(5) مسجد میں منبر کے قریب کی جگہ زیادہ تقدس کی حامل ہے خصوصاً مسجد نبوی میں منبر کے قریب کی جگہ کو ”جنت کا باغیچہ“ فرمایا گیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے: میرے گھر (حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا) اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے۔ (صحيح البخاري، فضل الصلاة فى مسجد مكة و المدينة، باب فضل ما بين القبر والمنبر، حديث: 1192- وصحيح مسلم.الحج .باب مابين القبر والمنبر روضة من رياض الحنة . حديث: 1390) ۔ 6۔ اس مقام پر جھوٹی قسم کھانا انتہائی بری حرکت اور بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے خاص طور پر جب کسی معمولی چیز کےلیے ہو تو اور بھی بری بات ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2326