ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے پاس تشریف لائے تو اس نے آپ کی ضیافت کے لیے جانور ذبح کرنے کے واسطے چھری سنبھالی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”دودھ والی سے اپنے آپ کو بچانا“ یعنی اسے ذبح نہ کرنا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: دودھ والے جانور کا بلا عذر ذبح کرنا مکروہ ہے، اس لئے کہ دودھ سے بہتوں کو بہت دنوں تک فائدہ ہو سکتا ہے، اور گوشت کھا لینے میں یہ فائدہ جاتا رہے گا۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3180
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مہمان کی مناسب خدمت کرنا مسلمان کی خوبی ہے۔
(2) جو گائے بھینس یا بکری وغیرہ دودھ دیتی ہو، اسے ذبح کرنے سے یہ فائدہ ختم ہوجاتا ہے جب کہ گوشت دوسرے جانور سے بھی حاصل ہوسکتا ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ دودھ نہ دینے والا جانور ذبح کیا جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3180
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3357
´سورۃ اتکاثر سے بعض آیات کی تفسیر۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت «ثم لتسألن يومئذ عن النعيم» نازل ہوئی تو لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! کن نعمتوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا؟ وہ تو صرف یہی دو سیاہ چیزیں ہیں (ایک کھجور دوسرا پانی)(ہمارا) دشمن (سامنے) حاضر و موجود ہے اور ہماری تلواریں ہمارے کندھوں پر ہیں ۱؎۔ آپ نے فرمایا: ”(تمہیں ابھی معلوم نہیں) عنقریب ایسا ہو گا (کہ تمہارے پاس نعمتیں ہی نعمتیں ہوں گی)۔“[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3357]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ہمیں لڑنے مرنے سے فرصت کہاں کہ ہمارے پاس طرح طرح کی نعمتیں ہوں اور ہم ان نعمتوں میں عیش ومستی کریں جس کی ہم سے باز پرس کی جائے۔
نوٹ: (سند میں ابوبکر بن عیاش کا حافظہ بڑھاپے میں کمزور ہو گیا تھا، لیکن سابقہ حدیث کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3357