عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ صدقہ فطر نماز کے لیے لوگوں کے نکلنے سے پہلے ادا کر دیا جائے (ابن بزیع کی روایت میں «بصدقة الفطر» کے بجائے «بزكاة الفطر» ہے)۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1610
´صدقہ فطر کب دیا جائے؟` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ صدقہ فطر لوگوں کے نماز کے لیے نکلنے سے پہلے ادا کیا جائے، راوی کہتے ہیں: چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نماز عید کے ایک یا دو دن پہلے صدقہ فطر ادا کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1610]
1610. اردو حاشیہ: ➊ اس صدقے کو رسول اللہ ﷺ نے اپنے حکم سے جاری فرمایا تھا۔ جو اس کے واجب ہونے کی دلیل ہے۔جیسے کہ دیگر احادیث میں (فرض) کالفظ آیا ہے۔ ➋ صدقہ فطر کا حق یہ ہے کہ نماز عید کےلئے نکلنے سے پہلے پہلے اسے ادا کیاجائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1610
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2289
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانہ نکالنے کے بارے میں یہ حکم دیا کہ اسے لوگوں کے عید کے لیے نکلنے سے پہلے ادا کیا جائے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2289]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: صدقۃالفطر کا عید کی نماز سے پہلے نکالنا ضروری ہے اگر بعد میں ادا کرے گا تو وہ صدقۃ الفطر نہیں ہو گا۔ اور آپﷺ کے طرز عمل کا تقاضا یہی ہے کہ ہر جنس سے ایک صاع صدقہ فطر ادا کیا جائے۔