● صحيح البخاري | 7230 | جابر بن عبد الله | لو استقبلت من أمري ما استدبرت ما أهديت ولولا أن معي الهدي لحللت قال ولقيه سراقة وهو يرمي جمرة العقبة فقال يا رسول الله ألنا هذه خاصة قال لا بل لأبد قال وكانت عائشة قدمت معه مكة وهي حائض فأمرها النبي أن تنسك المناسك كلها غير أنها |
● صحيح البخاري | 7367 | جابر بن عبد الله | لولا هديي لحللت كما تحلون فحلوا فلو استقبلت من أمري ما استدبرت ما أهديت فحللنا وسمعنا وأطعنا |
● صحيح البخاري | 4352 | جابر بن عبد الله | أهد وامكث حراما كما أنت |
● صحيح البخاري | 1557 | جابر بن عبد الله | يقيم على إحرامه |
● صحيح البخاري | 1651 | جابر بن عبد الله | أهل النبي هو وأصحابه بالحج ليس مع أحد منهم هدي غير النبي وطلحة وقدم علي من اليمن ومعه هدي فقال أهللت بما أهل به النبي فأمر النبي أصحابه أن يجعلوها عمرة ويطوفوا ثم يقصروا ويحلوا |
● صحيح البخاري | 1568 | جابر بن عبد الله | أحلوا من إحرامكم بطواف البيت وبين الصفا و المروة |
● صحيح البخاري | 1570 | جابر بن عبد الله | لبيك اللهم لبيك بالحج أمرنا رسول الله فجعلناها عمرة |
● صحيح مسلم | 2949 | جابر بن عبد الله | لبيك بالحج أمرنا رسول الله أن نجعلها عمرة |
● صحيح مسلم | 2937 | جابر بن عبد الله | من لم يكن معه هدي قال فقلنا حل ماذا قال الحل كله فواقعنا النساء وتطيبنا بالطيب ولبسنا ثيابنا وليس بيننا وبين عرفة إلا أربع ليال أهللنا يوم التروية ثم دخل رسول الله على عائشة ا |
● صحيح مسلم | 2940 | جابر بن عبد الله | من لم يكن معه هدي فليحلل قال قلنا أي الحل قال الحل كله قال فأتينا النساء ولبسنا الثياب ومسسنا الطيب لما كان يوم التروية أهللنا بالحج وكفانا الطواف الأول بين الصفا والمروة أمرنا رسول الله أن نشترك في الإبل والبقر كل سبعة من |
● صحيح مسلم | 2941 | جابر بن عبد الله | أمرنا النبي لما أحللنا أن نحرم إذا توجهنا إلى منى |
● صحيح مسلم | 2943 | جابر بن عبد الله | لولا هديي لحللت كما تحلون ولو استقبلت من أمري ما استدبرت لم أسق الهدي فحلوا فحللنا وسمعنا وأطعنا بم أهللت قال بما أهل به النبي فقال له رسول الله فأهد وامكث حراما قال وأهدى له |
● صحيح مسلم | 2944 | جابر بن عبد الله | أحلوا فلولا الهدي الذي معي فعلت كما فعل |
● صحيح مسلم | 2945 | جابر بن عبد الله | أحلوا من إحرامكم فطوفوا بالبيت وبين الصفا والمروة |
● صحيح مسلم | 2946 | جابر بن عبد الله | أمرنا رسول الله أن نجعلها عمرة ونحل قال وكان معه الهدي فلم يستطع أن يجعلها عمرة |
● سنن أبي داود | 1785 | جابر بن عبد الله | يحل منا من لم يكن معه هدي قال فقلنا حل ماذا فقال الحل كله فواقعنا النساء وتطيبنا بالطيب ولبسنا ثيابنا وليس بيننا وبين عرفة إلا أربع ليال ثم أهللنا يوم التروية ثم دخل رسول الله على عائشة فوجدها تبكي فقال ما شأنك قالت شأني أني قد |
● سنن أبي داود | 1788 | جابر بن عبد الله | اجعلوها عمرة إلا من كان معه الهدي لما كان يوم التروية أهلوا بالحج فلما كان يوم النحر قدموا فطافوا بالبيت ولم يطوفوا بين الصفا و المروة |
● سنن أبي داود | 1789 | جابر بن عبد الله | ما أهديت ولولا أن معي الهدي لأحللت |
● سنن النسائى الصغرى | 2744 | جابر بن عبد الله | اللهم إني أهل بما أهل به رسول الله ومعي الهدي قال فلا تحل |
● سنن النسائى الصغرى | 2745 | جابر بن عبد الله | بما أهل به النبي قال فاهد وامكث حراما كما أنت |
● سنن النسائى الصغرى | 2807 | جابر بن عبد الله | أبركم وأتقاكم ولولا الهدي لحللت ولو استقبلت من أمري ما استدبرت |
● سنن النسائى الصغرى | 2713 | جابر بن عبد الله | لم أسق الهدي وجعلتها عمرة فمن لم يكن معه هدي فليحلل وليجعلها عمرة وقدم علي من اليمن بهدي وساق رسول الله من المدينة هديا وإذا فاطمة قد لبست ثيابا صبيغا واكتحلت قال فانطلقت محرشا أستفتي رسول ال |
● سنن النسائى الصغرى | 2997 | جابر بن عبد الله | أحلوا فلولا الهدي الذي معي لفعلت مثل الذي تفعلون |
● سنن النسائى الصغرى | 2875 | جابر بن عبد الله | قدم النبي مكة صبيحة رابعة مضت من ذي الحجة |
● سنن ابن ماجه | 2966 | جابر بن عبد الله | أفرد الحج |
● سنن ابن ماجه | 2967 | جابر بن عبد الله | أفردوا الحج |
● سنن ابن ماجه | 1074 | جابر بن عبد الله | قدم النبي مكة صبح رابعة مضت من شهر ذي الحجة |
● المعجم الصغير للطبراني | 439 | جابر بن عبد الله | قرن رسول الله صلى الله عليه وسلم بين الحج والعمرة ، وطاف لهما طوافا واحدا |
● مسندالحميدي | 1325 | جابر بن عبد الله | أذن في الناس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم يريد الحج، فامتلأت المدينة، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في زمان الحج، وفي حين الحج، فلما أشرف على البيداء أهل منها، وأهل الناس معه |
● مسندالحميدي | 1330 | جابر بن عبد الله | لو استقبلت من أمري ما استدبرت، ما صنعت الذي صنعت |
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2807
´جو شخص ہدی ساتھ نہ لے جائے وہ حج عمرہ میں تبدیل کر کے احرام کھول سکتا ہے۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے خالص حج کا احرام باندھا، اس کے ساتھ اور کسی چیز کی نیت نہ تھی۔ تو ہم ۴ ذی الحجہ کی صبح کو مکہ پہنچے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ”احرام کھول ڈالو اور اسے (حج کے بجائے) عمرہ بنا لو“، تو آپ کو ہمارے متعلق یہ اطلاع پہنچی کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ہمارے اور عرفہ کے درمیان صرف پانچ دن باقی رہ گئے ہیں اور آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2807]
اردو حاشہ:
(1) ”کسی اور چیز کی نیت نہیں تھی۔“ شروع میں ایسا ہی تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ بعض نے عمرے کا احرام باندھا تھا، پھر مکہ مکرمہ کے قریب جا کر عمرے کے لزوم کا حکم اترا تو وہاں سب نے حج کے ساتھ عمرہ بھی داخل کر لیا، پھر قربانیوں والے محرم رہے، دوسرے عمرہ کر کے حلال ہوگئے۔ حج کا احرام الگ باندھا۔ یہ توجیہ بہتر ہے کیونکہ اس طرح تمام احادیث اپنے معنی پر رہتی ہیں۔
(2) ”منی بہا رہے ہوں گے۔“ یہ بطور مبالغہ کہا کہ حج سے اس قدر قریب جماع کرنا مناسب نہیں۔ یہ تقبیح کے لیے الفاظ ذکر کر دیے ورنہ انھیں کوئی بیماری تو نہیں تھی کہ ایسے ہوتا۔ اور حج کو تو احرام باندھ کر جانا تھا۔
(3) ”تم سے بڑھ کر نیک“ یعنی جس کام کا میں حکم دوں، جو کام میں کروں، اس سے پرہیز کرنا حماقت ہے۔ اگر وہ کام قبیح ہوتا تو میں حکم ہی نہ دیتا۔
(4) ”جس کا بعد میں پتا چلا“ کہ عمرہ کرنا لازم ہو جائے گا۔
(5) ”ہمیشہ کے لیے“ یعنی تمتع قیامت تک کے لیے جائز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2807
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1074
´جب مسافر کسی مقام پر ٹھہرے تو کتنے دنوں تک قصر کر سکتا ہے؟`
عطاء کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے مجھ سے میرے ساتھ کئی لوگوں کی موجودگی میں حدیث بیان کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ چار ذی الحجہ کی صبح تشریف لائے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1074]
اردو حاشہ:
فائدہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کو صبح کے وقت مکہ مکرمہ تشریف فرما ہوئے۔
اور یہاں سے یوم الترویہ (8 ذوالحجہ)
کو منیٰ کی طرف روانہ ہوئے۔
اس میں یہ ارشاد ہے کہ چاردن ٹھرنے کی صورت میں بھی دوگانہ ادا کیاجا سکتا ہے۔
الغرض قصر نماز کےلئے دنوں کے تعین میں یہ روایت پہلی روایت سے زیادہ واضح اور فیصلہ کن ہے۔
واللہ أعلم تاہم دونوں ہی موقف صحیح ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1074
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2980
´حج کا احرام فسخ کر کے اس کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حج کا تلبیہ کہا (یعنی احرام باندھا)، اس میں عمرہ کو شریک نہیں کیا ۱؎، پھر ہم مکہ پہنچے تو ذی الحجہ کی چار راتیں گزر چکی تھیں، جب ہم نے خانہ کعبہ کا طواف کیا، اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اسے عمرہ میں تبدیل کر دیں، اور اپنی بیویوں کے لیے حلال ہو جائیں، ہم نے عرض کیا: اب عرفہ میں صرف پانچ دن رہ گئے ہیں، اور کیا ہم عرفات کو اس حال میں نکلیں کہ شرمگاہوں سے منی ٹپک رہی ہو؟ یہ سن کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2980]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر احرام باندھتے وقت صرف حج کی نیت کی گئی ہو تو بعد میں نیت تبدیل کرکے عمرے کی نیت کی جاسکتی ہے۔
(2)
جس کام کی شریعت نے اجازت دی ہے اسے نامناسب سمجھنا کوئی نیکی نہیں۔
(3)
جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہو وہ حج تمتع نہیں کرسکتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2980
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1787
´حج افراد کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حج کا احرام باندھا اس میں کسی اور چیز کو شامل نہیں کیا، پھر ہم ذی الحجہ کی چار راتیں گزرنے کے بعد مکہ آئے تو ہم نے طواف کیا، سعی کی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں احرام کھولنے کا حکم دے دیا اور فرمایا: ”اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا“، پھر سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! یہ ہمارا متعہ (حج کا متعہ) اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(نہیں) بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے ہے“ ۱؎۔ اوزاعی کہتے ہیں: میں نے عطا بن ابی رباح کو اسے بیان کرتے سنا تو میں اسے یاد نہیں کر سکا یہاں تک کہ میں ابن جریج سے ملا تو انہوں نے مجھے اسے یاد کرا دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1787]
1787. اردو حاشیہ: حج کے دنوں میں یا حج کے ساتھ ہی عمرہ بغیر کسی اشکال کے جائز ہے جبکہ ایام جاہلیت میں اسے بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1787
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1789
´حج افراد کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کا احرام باندھا ان میں سے اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کے پاس ہدی کے جانور نہیں تھے اور علی رضی اللہ عنہ یمن سے ساتھ ہدی لے کر آئے تھے تو انہوں نے کہا: میں نے اسی کا احرام باندھا ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ حج کو عمرہ میں بدل لیں یعنی وہ طواف کر لیں پھر بال کتروا لیں اور پھر احرام کھول دیں سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی ہو، تو لوگوں نے عرض کیا: کیا ہم منیٰ کو اس حال میں جائیں کہ ہمارے ذکر منی ٹپکا رہے ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا: ”اگر مجھے پہلے سے یہ معلوم ہوتا جو اب معلوم ہوا ہے تو میں ہدی نہ لاتا، اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا۔“ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1789]
1789. اردو حاشیہ:
➊ صحابہ کرام خوب سمجھتے تھے کہ دین و شریعت رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ا ور پیروی کانام ہے۔ اسی لیے حضرت علی نے احرام کی نیت میں یہ کہا کہ میرا احرام اور میری نیت وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی ہے۔
➋ اور دوسری بات (کہ ہم منی کو اس حالت میں جائیں ......)کہنے کی وجہ یہ تھی کہ عبادت چونکہ انسان سے زہد و رغبت الی اللہ کا تقاضا کرتی ہے اور اعمال حج شروع ہونےمیں دو دن باقی تھے تو انہیں کامل حلت کچھ عجیب سی لگی۔ نیز رسول اللہ ﷺ خود بھی تو حلال نہیں ہوئے تھے۔ او روہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کے شائق تھے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنی مجبوری کی وضاحت کرکے صحابہ کرام کا اشکال دور فرما دیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1789