● صحيح البخاري | 3315 | عبد الله بن عمر | خمس من الدواب من قتلهن وهو محرم فلا جناح عليه العقرب والفأرة |
● صحيح البخاري | 1828 | عبد الله بن عمر | خمس من الدواب ليس على المحرم في قتلهن جناح |
● صحيح مسلم | 2876 | عبد الله بن عمر | خمس من قتلهن وهو حرام فلا جناح عليه فيهن العقرب والفأرة |
● صحيح مسلم | 2873 | عبد الله بن عمر | خمس من الدواب لا جناح على من قتلهن في قتلهن الغراب والحدأة |
● صحيح مسلم | 2872 | عبد الله بن عمر | خمس من الدواب ليس على المحرم في قتلهن جناح الغراب والحدأة والعقرب |
● صحيح مسلم | 2868 | عبد الله بن عمر | خمس لا جناح على من قتلهن في الحرم والإحرام الفأرة والعقرب والغراب |
● سنن أبي داود | 1846 | عبد الله بن عمر | خمس لا جناح في قتلهن على من قتلهن في الحل والحرم |
● سنن النسائى الصغرى | 2837 | عبد الله بن عمر | يقتل العقرب والفويسقة والحدأة والغراب والكلب العقور |
● سنن النسائى الصغرى | 2836 | عبد الله بن عمر | خمس لا جناح على من قتلهن الحدأة والغراب والفأرة والعقرب والكلب العقور |
● سنن النسائى الصغرى | 2835 | عبد الله بن عمر | خمس من الدواب لا جناح على من قتلهن أو في قتلهن وهو حرام الحدأة والفأرة والكلب العقور والعقرب والغراب |
● سنن النسائى الصغرى | 2838 | عبد الله بن عمر | خمس من الدواب لا جناح في قتلهن على من قتلهن في الحرم والإحرام الفأرة |
● سنن النسائى الصغرى | 2833 | عبد الله بن عمر | قتل خمس من الدواب للمحرم الغراب والحدأة والفأرة والكلب العقور والعقرب |
● سنن النسائى الصغرى | 2831 | عبد الله بن عمر | خمس ليس على المحرم في قتلهن جناح الغراب والحدأة والعقرب والفأرة والكلب العقور |
● سنن ابن ماجه | 3088 | عبد الله بن عمر | خمس من الدواب لا جناح على من قتلهن أو قال في قتلهن وهو حرام العقرب |
● صحيح البخاري | 1826 | عبد الله بن عمر | خمس من الدواب ليس على المحرم في قتلهن جناح |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 313 | عبد الله بن عمر | خمس من الدواب ليس على المحرم فى قتلهن جناح |
● مسندالحميدي | 631 | عبد الله بن عمر | |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 313
´حالت احرام میں کن جانوروں کا قتل جائز ہے؟`
«. . . 224- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”خمس من الدواب ليس على المحرم فى قتلهن جناح: الغراب والحدأة والعقرب والفأرة والكلب العقور.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حالت احرام میں پانچ جانوروں کے قتل میں کوئی حرج نہیں ہے: کوا، چیل، بچھو، چوہا اور کاٹنے والا کتا . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 313]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1826، ومسلم 1199، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ حالتِ احرام میں مذکورہ جانوروں کو قتل کرنا جائز ہے اور مُحرم (احرام پہننے والے) پر کوئی دَم (یا جرمانہ) نہیں ہے اور اسی پر قیاس کرکے حالتِ احرام میں ہر مُوذی جانور کو مارنا جائز ہے۔
➋ شریعت میں جن جانوروں کا قتل جائز ہے، ان کا کھانا حرام ہے لہٰذا کوا، چیل، بچھو، چوہا اور کتا یہ سب حرام جانور ہیں۔
➌ نیز دیکھئے ح286
تنبیہ:
یہاں بطورِ فائدہ عرض ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فتوے سے معلوم ہوتا ہے کہ حالتِ احرام میں خارش کرنا جائز ہے۔ [ديكهئے الموطأ 1/358 ح811 وسنده صحيح]
اگر کسی شخص کا حالتِ احرام میں ناخن ٹوٹ کر لٹکنے لگے تو سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: اسے کاٹ دو۔ [الموطأ 1/358 ح814 وسنده حسن]
➊ الکلب العقور سے کاٹنے والا کتا اور تمام درندے مراد ہیں۔
➋ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: گیا: کیا احرام باندھنے والا سانپ کو قتل کر سکتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: وہ دشمن ہے، اسے جہاں پاؤ قتل کردو۔ [التمهيد 171/15، وسنده حسن]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 224
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1846
´محرم کون کون سا جانور قتل کر سکتا ہے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ محرم کون کون سا جانور قتل کر سکتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ جانور ہیں جنہیں حل اور حرم دونوں جگہوں میں مارنے میں کوئی حرج نہیں: بچھو، چوہیا، چیل، کوا اور کاٹ کھانے والا کتا۔“ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1846]
1846. اردو حاشیہ: بچھو پر اس جنس کے دیگر موذی جانور بھی قیاس کئے جاسکتے ہیں۔مثلا کنکھجورا اور بھڑ وغیرہ اور کانٹے والے کتے پر اس جنس کے دیگر جانور مثلاً شیر چیتا ریچھ اور بھیڑیا وغیرہ۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1846
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2831
´محرم کس طرح کے جانور مار سکتا ہے، کٹ کھنے کتے کے قتل کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ جانور ایسے ہیں جنہیں محرم کے مارنے میں کوئی حرج (گناہ) نہیں ہے۔ کوا، چیل، بچھو، چوہیا اور کٹ کھنا (کاٹنے والا) کتا“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2831]
اردو حاشہ:
(1) محرم کے لیے شکار منع ہے۔ اسی طرح کسی بھی جانور کو مارنا منع ہے لیکن موذی جانور ممکن ہے اس کے لیے مصیبت بن جائیں، لہٰذا ان کی ایذا سے بچنے کے لیے انھیں قتل کرنے کی اسے رخصت دے دی گئی ہے، خواہ وہ اسے نقصان نہ ہی پہنچائیں بلکہ محض خدشہ ہو۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے ایذا کی بجائے ان جانوروں کو مارنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ ان کو کھایا نہیں جاتا، لہٰذا محرم ہر ایسے جانور کو قتل کر سکتا ہے جس کا گوشت کھانا حرام ہے۔ لیکن پہلا موقف ہی صحیح ہے۔
(2) ”کاٹنے والا کتا“ بعض اہل علم نے تمام درندوں کو اس میں داخل کیا ہے، مثلاً: شیر، چیتا، بھیڑیا کیونکہ لغوی طور پر یہ سب کتے ہی ہیں اور بدرجہ اولیٰ کاٹنے والے ہیں۔ یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے ورنہ یہ عجیب بات ہوگی کہ کتا مارنا تو جائز ہو جو کم کاٹتا ہے اور جس سے بچاؤ بھی ممکن ہے مگر شیر، چیتا وغیرہ کو مارنا جائز نہ ہو جس سے جان کا خطرہ ہے اور عموماً بچاؤ بھی ممکن نہیں۔ شریعت کے احکام مصلحت کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور مصلحت کا لحاظ ضروری ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ احناف نے اس جگہ اہل ظاہر کی طرح جمود اختیار کیا ہے کہ ”صرف کتا ہی مارا جا سکتا ہے، شیر وغیرہ نہیں کیونکہ تعداد پانچ سے بڑھ جائے گی۔“ حالانکہ روایات کو جمع کریں تو مذکورہ جانور ہی پانچ سے بڑھ جائیں گے، مثلاً: اگلی روایت میں سانپ کا بھی ذکر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2831
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2833
´چوہیا مارنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کو پانچ جانور کو مارنے کی اجازت دی ہے: کوا، چیل، چوہیا، کٹ کھنا (کاٹنے والا) کتا، اور بچھو۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2833]
اردو حاشہ:
چوہا بھی فطرتاً موذی ہے۔ پلید ہونے کے ساتھ ساتھ بعض قیمتی چیزیں کتر دیتا ہے۔ کھانے پینے کی چیزیں پلید کر سکتا ہے۔ طاعون وغیرہ کا مبدا بھی یہی بنتا ہے، لہٰذا مارا جا سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2833
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2835
´بچھو مارنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ جانور ایسے ہیں جنہیں احرام کی حالت میں مارنے پر یا جنہیں احرام کی حالت میں مارنے میں کوئی گناہ نہیں: چیل، چوہیا، کاٹ کھانے والا کتا، بچھو اور کوا۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2835]
اردو حاشہ:
(1) بچھو کا موذی ہونا واضح ہے بلکہ بسا اوقات اس کا زہر سانپ سے بھی خطرناک ہوتا ہے۔
(2) ”کوئی گناہ نہیں“ بلکہ گناہ کے علاوہ کوئی تاوان وغیرہ بھی نہیں، خواہ محرم ہی ہو اور حرم ہی میں ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2835
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2837
´کوا مارنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ محرم کن (جانوروں) کو قتل کر سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”وہ بچھو، چوہیا، چیل۔ کوا، اور کاٹ کھانے والے کتے کو قتل کر سکتا ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2837]
اردو حاشہ:
کوے میں چیل والے سب مفاسد پائے جاتے ہیں، بلکہ قریب رہنے کی وجہ سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ پریشان بھی زیادہ کرتا ہے، لہٰذا اسے قتل کرنا جائز ہے۔ اوپر ایک حدیث: (2832) میں ابقع (جس کا پیٹ یا پشت سفید ہوتی ہے) کہ قید ہے، لہٰذا مطلق کوے سے مراد بھی یہی ہے۔ گھروں میں یہی آتا جاتا ہے۔ باقی رہا خالص سیاہ کوا تو وہ عموماً فصلوں میں ہوتا ہے۔ اس کا لوگوں کو کوئی نقصان نہیں، لہٰذا اسے مارنے کی ضرورت نہیں۔ وہ گندگی بھی نہیں کھاتا۔ صرف دانوں پر گزارا کرتا ہے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2837
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3088
´محرم کو کون سا جانور قتل کرنا جائز ہے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ قسم کے جانور ہیں جنہیں احرام کی حالت میں مارنے میں گناہ نہیں: بچھو، کوا، چیل، چوہیا اور کاٹ کھانے والا کتا“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3088]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
احرام کی حالت میں موذی جانوروں کو قتل کرنا جائز ہے۔
(2)
ان جانوروں کو حرم کی حد میں بھی قتل کرنا جائز ہے۔
(3)
کوے سے مراد وہ کوا ہے جس کا کچھ حصہ (پیٹ وغیرہ)
سفید ہوتا ہے۔
(4)
کاٹنے والے کتے سے مراد وہ کتا ہےجو ہڑکایا ہوا اور باؤلا ہو۔
(5)
شیرچیتےوغیرہ درندوں کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ ان سے بھی مسافروں کو جان کا خطرہ ہوتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3088
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:631
631-سالم بن عبداللہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں۔ ”پانچ قسم کے جانور ایسے ہیں، حل یا حرم میں انہیں قتل کرنے والے کو کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ کوا، چیل، بچھو، چوہا اور باؤلہ کتا۔“ سفیان سے کہا: گیا: معمر نے یہ روایت زہری کے حوالے سے عروہ کے حوالے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی ہے، تو وہ بولے: اللہ کی قسم۔ زہری نے یہ روایت سالم کے حوالے سے ان کے والد کے حوالے سے نقل کی ہے۔ انہوں نے عروہ کے حوالے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسے نقل نہیں کیا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:631]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حدیث میں مذکور تمام جانور حرام ہیں اور انھیں ہر حالت میں قتل کرنا جائز ہے
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 631
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2876
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ جانور، جو ان کو محرم ہونے کی صورت میں قتل کر دے گا تو اس پر ان کے بارے میں کوئی گناہ نہیں ہے، بچھو، چوہا، کاٹنے والا کتا، کوا اور چیل۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2876]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
عام روایات میں غراب کا لفظ بلا قید ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کے کوے کا قتل جائز ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2876
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3315
3315. حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پانچ جانور ایسے ہیں جنھیں اگر کوئی شخص حالت احرام میں بھی مارڈالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔: وہ بچھو، چوہا، باؤلا کتا، کوا اور چیل ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3315]
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ احادیث دراصل بنیادی عنوان کے اثبات کے لیے ہیں جن میں حیوانات کاذکر ہے۔
ان احادیث میں چونکہ ایک اضافی فائدہ بھی تھا، اس لیے الگ عنوان قائم کرکے اس پر متنبہ کیا ہے۔
2۔
امام بخاری ؒ کا بنیادی مقصد تو زمین میں پائے جانے والے حیوانات کا ذکر کرنا ہے اور وہ ان احادیث سے روز روشن کی طرح ثابت ہورہا ہے کہ ان احادیث میں پانچ جانوروں کاذکر ہے، البتہ یہ جانور انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں، اس لیے اس اضافی فائدے کے پیش نظر اضافی عنوان قائم کیا۔
اس وضاحت کے بعد حافظ ابن حجر ؒنے تنبیہ کے عنوان سے جو بیان کیاہے۔
(فتح الباري: 429/6)
اس میں ذرا بھر بھی وزن نہیں ہے کہ اس باب کو حذف کردینا مناسب ہے کیونکہ یہ بے محل ہے۔
3۔
ان پانچ جانوروں کو فاسق اس لیے کہاگیا ہے کہ فسق کے معنی خروج کے ہیں۔
یہ جانور اذیت پہنچاتے اور تکلیف دینے کے باعث اچھے جانوروں کی راہ سے نکل چکے ہیں، چنانچہ کوا اونٹ کی پشت پر چونچیں مارکر اسے زخمی کردیتا ہے، چیل گوشت چھین لیتی ہے، بچھو ڈس لیتا ہے، چوہا کپڑے اور کتابیں کتردیتا ہے اور کاٹنے والا کتا لوگوں کو کاٹتا ہے۔
بعض دفعہ اس کے کاٹنے سے آدمی باؤلا ہوجاتا ہے۔
انھیں بحالت احرام، حرم میں بھی قتل کیا جاسکتا ہے۔
غیرمحرم کے لیے تو بطریق اولیٰ انھیں مارنا جائز ہے۔
اس پر تمام امت کا اتفاق ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3315