فوائد و مسائل: سوال: کیا سبزیوں پر زکوۃ (عشر) ہے؟ جواب: سبزیوں پر زکوۃ
(عشر) واجب نہیں ہوتی۔
اس پر دلائل ملاحظہ فرمائیں:
اجماع امت: اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ سبزیوں پر زکوٰۃ
(عشر) واجب نہیں، جیسا کہ:
◈ امام ابوعبید قاسم بن سلام فرماتے ہیں:
«فالعلماء اليوم مجمعون من أهل العراق، والحجاز، والشام على أن لا صدقة فى قليل الخضر ولا فى كثيرها، إذا كانت فى أرض العشر» ”عراق، حجاز اور شام کے اہلِ علم آج اس بات پر متفق ہیں کہ سبزیاں کم ہوں یا زیادہ، اگر وہ عشر والی زمین میں ہوں، تو ان پر کوئی زکوٰۃ نہیں۔
“ [كتاب الأموال: 502] ◈ نیز اس سلسلے میں امام مالک رحمہ اللہ کا قول ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
«وكذٰلك قول سفيان، وأهل العراق جميعا، غير أبى حنيفة، فانه قال: فى قليل ما تخرج الارض وكثيره الصدقة۔۔۔ وخالفه اصحابه، فقالوا كقول الاخرين، وعليه الآثار كلها، وبه تعمل الامة اليوم» ”امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور تمام اہل عراق کا یہی موقف ہے، سوائے امام ابو حنیفہ کے کہ ان کے بقول زمین کی پیداوار کم ہو یا زیادہ، اس میں زکوٰۃ ہو گی... امام صاحب کے شاگردوں نے بھی اس سلسلے میں ان کی مخالفت کی ہے اور باقی تمام اہل علم کے موافق فتویٰ دیا ہے۔ تمام آثار بھی یہی بتاتے ہیں۔ اور آج تمام اُمت کا عمل بھی اسی پر ہے
(کہ سبزیوں پر زکوٰۃ نہیں)۔
“ [كتاب الأموال: 501] ◈ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والعمل على هذا عند اهل العلم انه ليس في الخضراوات صدقة» ”اہل علم کے ہاں عمل اسی بات پر ہے کہ سبزیوں پر کوئی زکاۃ نہیں ہے۔
“ [سنن الترمذي: 638] اس کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں۔
حدیث نبوی: ❀ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ليس فيما اقل من خمسة اوسق صدقة» ”پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہوتی۔
“ [صحيح بخاري: 1484، صحيح مسلم: 2266] ◈ حافظ خطابی رحمہ اللہ
(319۔ 388ھ) اس حدیث کے فوائد میں لکھتے ہیں:
”اس حدیث سے ان اہلِ علم نے استدلال کیا ہے جن کے نزدیک کسی بھی سبزی پر زکوٰۃ واجب نہیں، کیونکہ ان کے بقول سبزی کو ماپا نہیں جاتا، جبکہ حدیث میں زکوٰۃ اسی چیز کے لیے مقرر کی گئی ہے، جس کو ماپا جا سکے، جیسا کہ دانے اور غلہ ہوتا ہے۔ جن چیزوں کو ماپا نہیں جاتا، وہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں، جیسا کہ پھل اور سبزیاں وغیرہ۔ اکثر اہلِ علم یہی بات کہتے ہیں، سوائے امام ابوحنیفہ کے۔ وہ سبزیوں میں بھی زکوٰۃ کو واجب سمجھتے ہیں۔
“ [معالم السنن: 2؍14] ◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”امام ابن منذر رحمہ اللہ نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ پانچ وسق سے کم زمینی پیداوار پر عشر نہیں ہوتا، سوائے امام ابوحنیفہ کے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر اس چیز پر عشر ہو گا، جس کی کاشت کا مقصد زمین کی نمو ہو، سوائے لکڑی، بانس، بھنگ اور اس درخت کے جس پر پھل نہ لگتا ہو۔
“ [فتح الباري: 3؍350] اسلافِ امت کا تعامل: ◈ عظیم تابعی میمون بن مہران رحمہ اللہ سے سبزیوں پر زکوٰۃ کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا:
«ليس فيها زكاة، حتٰى تباع، فإذا بيعت وبلغت مأتي درهم، فإن فيها خمسة دراهم.» ”سبزیوں پر کوئی زکوٰۃ نہیں، حتی کہ ان کو بیچ دیا جائے۔ جب بیچا جائے اور ان کی قیمت دو سو درہم
(نصاب) تک پہنچ جائے، تو اس میں پانچ درہم زکوٰۃ ہو گی۔
“ [كتاب الأموال: 502، وسنده حسن] ◈ امام محمد بن مسلم، ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔
[أيضا، وسنده حسن] ◈ عالم اہل کوفہ، امام حکیم بن عتیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ليس في الخضراوات صدقة.» ”سبزیوں پر کوئی زکٰوۃ نہیں۔
“ [مصنف ابن ابي شيبة: 139/3، و سنده حسن] ◈ مفتی مکہ، عظیم تابعی، امام عطا بن ابورباح رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں۔
[مصنف ابن ابي شيبة: 139/3، و سنده صحيح] ◈ امام اہل شام، مکحول تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ليس فى الخضر زكاة؛ الا ان يصير مالا، فيكون فيه زكاة» ”سبزیوں پر کوئی زکوٰۃ نہیں، ہاں اگر ان کو بیچ کر مال بنا لیا جائے، تو اس میں زکوٰۃ ہو گی۔
“ [مصنف ابن ابي شيبة: 139/3، و سنده حسن] دلیل احناف: ”جو زمین بارش سے سیراب ہوتی ہو، اس کی پیداوار میں دسواں حصہ زکوٰۃ ہو گی اور جسے جانوروں یا کنویں سے سیراب کیا جاتا ہو، اس کی پیداوار تھوڑی ہو یا زیادہ، اس میں بیسواں حصہ زکوٰۃ ہو گی۔“ [التحقيق فى مسائل الخلاف لابن الجوزي: 962، نصب الراية للزيلعي: 385/2]
تبصرہ: یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ:
➊ ابومطیع بلخی راوی سخت ترین
”ضعیف
“ ہے۔ اس کے بارے میں توثیق کا ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں۔
➋ اس کا استاذ بھی باتفاق محدثین
”ضعیف
“ ہے۔
➌ ابان بن عیاش کے
”ضعیف
“ اور
”متروک
“ ہونے پر محدثین کرام کا اتفاق ہے۔
◈ امام شعبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لأن أزني احب إلي من أن أحدث عن أبان بن أبي عياش.» [المجروحين لابن حبان: 97/1، وسنده صحيح] ◈ علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں:
«فضعيف جدا» ”یہ راوی سخت ضعیف ہے۔
“ [نصب الراية:385/2] ◈ اس روایت کے بارے میں: حافظ ابن الجوزی فرماتے ہیں:
«وهٰذا إسناد لا يساوي شيئا.» ”یہ سند کسی کام کی نہیں۔
“ [التحقيق فى مسائل الخلاف: 962] ◈ جناب محمد یوسف بنوری دیوبندی (م: 1397ھ) لکھتے ہیں:
«إنه تابعه عن أنس عند البزار.»
”امام قتادہ نے مسند بزار میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے میں اس کی متابعت کی ہے۔ ” [معارف السنن: 5 203]
↰ لیکن حقیقت میں ایسی کوئی متابعت موجود نہیں۔ یہ کم علمی ہے یا غلط بیانی، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
➍ اس میں
”رجل
“ کا واسطہ ہے اور یہ
”مبہم و مجہول
“ ہے۔
↰ ثابت ہوا کہ زمین کی ہر پیداوار، وہ کم ہو یا زیادہ، اس پر زکوٰۃ کو واجب کہنا بے دلیل اور بے ثبوت بات ہے۔
◈ عالم اہل کوفہ، امام حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فيما حفظناعن اصحابنا انهم كانو يقولون: وليس فى شيء من هذا شيء؛ الا فى الحنطة والشعير والتمر والزبيب.» ”ہم نے اپنے احباب سے یہ یاد کیا ہے کہ وہ زمین کی پیداوار میں سے کسی پر زکوٰۃ کو واجب نہیں کہتے تھے، سوائے گندم، جو، کھجور اور منقے کے۔
[مصنف ابن أبى شيبة: 139/3، وسنده صحيح] اجماعِ امت، حدیثِ رسول اور تصریحاتِ اہل علم کے برعکس بعض لوگ کچھ عمومی دلائل ذکر کر کے سبزیوں پر زکوٰۃ کے وجوب کی رٹ لگاتے ہیں، علمی دنیا میں اس طرز عمل کو کوئی حیثیت نہیں دی جاتی۔