حدثنا سويد، اخبرنا عبد الله بن المبارك، عن معمر، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا او ليصمت " , قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح، وفي الباب عن عائشة، وانس، وابي شريح العدوي الكعبي الخزاعي واسمه: خويلد بن عمرو.حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وفي الباب عن عَائِشَةَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ الْكَعْبِيِّ الْخُزَاعِيِّ وَاسْمُهُ: خُوَيْلِدُ بْنُ عَمْرٍو.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے، اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، انس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 31 (6018)، صحیح مسلم/الإیمان 19 (14)، سنن ابن ماجہ/الفتن 12 (3976) (تحفة الأشراف: 15272)، و مسند احمد (2/267، 269، 433، 463) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ بولنے سے پہلے بولنے والا خوب سوچ سمجھ لے تب بولے، یا پھر خاموش ہی رہے تو بہتر ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ بھلی بات بھی الٹے نقصان دہ ہو جائے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3971
´فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اچھی بات کہے، یا خاموش رہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3971]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) بری بات کہنے سے اجتناب ایمان کا تقاضہ ہے۔
(2) فضول باتیں کرنے سے اجتناب کرنا اور خاموش رہنا اچھی عادت ہے۔
(3) بے فائدہ باتوں میں مشغول رہنے سے ذکر الہی اور تلاوت وغیرہ میں مشغول رہنا بہت ہی بہتر ہے۔ اس کی وجہ سے گناہ سے حفاظت ہوتی ہے اور نیکیاں زیادہ ہوتی ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3971
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2500
´باب:۔۔۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے، اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2500]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: معلوم ہوا کہ بولنے سے پہلے بولنے والا خوب سوچ سمجھ لے تب بولے، یا پھر خاموش ہی رہے تو بہتر ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ بھلی بات بھی الٹے نقصان دہ ہوجائے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2500