الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جمعہ کے بیان میں
The Book of Al-Jumuah (Friday)
21. بَابُ الأَذَانِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ:
21. باب: جمعہ کے دن اذان کا بیان۔
(21) Chapter. Adhan on Friday (for the Jumuah prayer).
حدیث نمبر: 912
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا آدم، قال: حدثنا ابن ابي ذئب، عن الزهري، عن السائب بن يزيد، قال:" كان النداء يوم الجمعة اوله إذا جلس الإمام على المنبر على عهد النبي صلى الله عليه وسلم وابي بكر، وعمر رضي الله عنهما، فلما كان عثمان رضي الله عنه وكثر الناس زاد النداء الثالث على الزوراء"، قال ابو عبد الله: الزوراء موضع بالسوق بالمدينة.حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ:" كَانَ النِّدَاءُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوَّلُهُ إِذَا جَلَسَ الْإِمَامُ عَلَى الْمِنْبَرِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَثُرَ النَّاسُ زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَى الزَّوْرَاءِ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: الزَّوْرَاءُ مَوْضِعٌ بِالسُّوقِ بِالْمَدِينَةِ.
ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے زہری کے واسطے سے بیان کیا، ان سے سائب بن یزید نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کی پہلی اذان اس وقت دی جاتی تھی جب امام منبر پر خطبہ کے لیے بیٹھتے لیکن عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب مسلمانوں کی کثرت ہو گئی تو وہ مقام زوراء سے ایک اور اذان دلوانے لگے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ ہے۔

Narrated As-Saib bin Yazid: In the lifetime of the Prophet, Abu Bakr and `Umar, the Adhan for the Jumua prayer used to be pronounced when the Imam sat on the pulpit. But during the Caliphate of `Uthman when the Muslims increased in number, a third Adhan at Az-Zaura' was added. Abu `Abdullah said, "Az-Zaura' is a place in the market of Medina."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 13, Number 35

   صحيح البخاري913سائب بن يزيدالذي زاد التأذين الثالث يوم الجمعة عثمان بن عفان حين كثر أهل المدينة ولم يكن للنبي مؤذن غير واحد وكان التأذين يوم الجمعة حين يجلس الإمام يعني على المنبر
   صحيح البخاري912سائب بن يزيدالنداء يوم الجمعة أوله إذا جلس الإمام على المنبر على عهد النبي وأبي بكر وعمر ما فلما كان عثمان وكثر الناس زاد النداء الثالث على الزوراء
   جامع الترمذي516سائب بن يزيدالأذان على عهد رسول الله وأبي بكر وعمر إذا خرج الإمام وإذا أقيمت الصلاة فلما كان عثمان زاد النداء الثالث على الزوراء
   سنن أبي داود1087سائب بن يزيدالأذان كان أوله حين يجلس الإمام على المنبر يوم الجمعة في عهد النبي وأبي بكر وعمر ما فلما كان خلافة عثمان وكثر الناس أمر عثمان يوم الجمعة بالأذان الثالث فأذن به على الزوراء فثبت الأمر على ذلك
   سنن النسائى الصغرى1393سائب بن يزيدالأذان كان أول حين يجلس الإمام على المنبر يوم الجمعة في عهد رسول الله وأبي بكر وعمر فلما كان في خلافة عثمان وكثر الناس أمر عثمان يوم الجمعة بالأذان الثالث فأذن به على الزوراء فثبت الأمر على ذلك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1087  
´جمعہ کے دن اذان دینے کا بیان۔`
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا، پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت ہوئی، اور لوگوں کی تعداد بڑھ گئی تو جمعہ کے دن انہوں نے تیسری اذان کا حکم دیا، چنانچہ زوراء ۱؎ پر اذان دی گئی پھر معاملہ اسی پر قائم رہا ۲؎۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1087]
1087۔ اردو حاشیہ:
اصل اذان جو کہ امام کہ منبر پر بیٹھنے کے وقت کی ہے پہلی اذان ہے۔ اور اقامت یعنی جماعت کے لئے تکبیر کو دوسری اذان کہا گیا ہے اور خطبہ شروع ہونے سے کچھ وقت پہلے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے جو اذان شروع کرائی گئی وہ تیسری اذان ہوئی۔ جو کہ عملاً پہلی مگر رتبہ میں تیسری ہے اسے عرف عام میں دوسری اذان اور تاریخی لحاظ سے اذان عثمانی کہتے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی اکثریت نے اسے قبول کیا ہے اور یہ عالم اسلام میں اسی دور سے جاری و ساری ہے۔ یہ اذان لوگوں کو متنبہ کرنے کے لئے تھی جیسے کہ اذان فجر سے کچھ پہلے متنبہ کرنے کے لئے دور نبوت میں اذان کہلوائی گئی۔ ابن ابی شیبہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اس اذان کو بدعت کہا ہے۔ اصحاب الحدیث کے ہاں ایسے مسائل میں توسع ہے افضل اور راحج یہی ہے کہ دور نبوت کا عمل اختیار کیا جائے۔ حسب ضرورت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا معمول اپنا لینے میں بھی کوئی حرج نہیں، ویسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ اذان مسجد نبوی سے ایک میل دور مقام زورا میں کہلوائی تھی، وہاں بازار لگتا تھا اور لوگوں کو نماز کے وقت کا علم نہیں ہوتا تھا۔ یہ اذان اتنی پہلے کہی جاتی تھی کہ لوگ یہ اذان سن کر سامان سمیٹتے، گھر جاتے، غسل اور وضو کر کے لباس بدل کر خطبہ شروع ہونے سے پہلے مسجد نبوی میں آ جاتے۔ لہٰذا اگر، اذان عثمانی ہی کہلانی ہو تو اس پس منظر کو ملحوظ رکھنا چاہیے، ورنہ خطبے سے چند منٹ پہلے امام کے منہ کے سامنے کھڑے ہو کر اذان کہنا اذان عثمانی کی متابعت ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ یہ طبع زاد اور ایجاد بند ہ ہے۔
«زورا» زاء کی فتحہ واؤ ساکن اور آخر میں الف ممدودہ۔ زورا بازار مدینہ کے قریب ایک جگہ کا نام تھا جو مسجد نبوی سے کوئی ایک میل کے فاصلے پر تھی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1087   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 516  
´جمعہ کی اذان کا بیان۔`
سائب بن یزید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے زمانے میں (پہلی) اذان اس وقت ہوتی جب امام نکلتا اور (دوسری) جب نماز کھڑی ہوتی ۱؎ پھر جب عثمان رضی الله عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے زوراء ۲؎ میں تیسری اذان کا اضافہ کیا ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجمعة/حدیث: 516]
اردو حاشہ:
1؎:
یہاں دوسری اذان سے مراد اقامت ہے۔

2؎:
زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ کا نام تھا۔

3؎:
عثمان رضی اللہ عنہ نے مسجد سے دور بازار میں پہلی اذان دلوائی،
اور فی زمانہ لوگوں نے یہ اذان مسجد کے اندر کر دی ہے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اذان عثمان رضی اللہ عنہ کی سنت ہے،
اگر کہیں واقعی اس طرح کی ضرورت موجود ہو تو اذان مسجد سے باہر دی جائے،
ویسے اب مائک کے انتظام اور اکثر لوگوں کے ہاتھوں میں گھڑیوں کی موجودگی کے سبب اس طرح کی اذان کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ گئی،
جس ضرورت کے تحت عثمان رضی اللہ عنہ یہ زائد اذان دلوائی تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 516   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 912  
912. حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے زمانے میں جمعے کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا لیکن حضرت عثمان ؓ کے دور میں جب لوگ زیادہ ہو گئے تو آپ نے مقام زوراء پر تیسری اذان کا اضافہ فرما دیا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ) کہتے ہیں کہ زوراء مدینہ کے بازار میں واقع ایک جگہ کا نام ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:912]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ اصل اذان وہی تھی جو آنحضرت ﷺ وشیخین کے مبارک زمانوں میں امام کے منبر پر آنے کے وقت دی جاتی تھی۔
بعد میں حضرت عثمان ؓ نے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے بازار میں ایک اذان کا اور اضافہ کر دیا۔
تاکہ وقت سے لوگ جمعہ کے لیے تیار ہو سکیں۔
حضرت عثمان ؓ کی طرح بوقت ضرورت مسجد سے باہر کسی مناسب جگہ پر یہ اذان اگر اب بھی دی جائے تو جائز ہے مگر جہاں ضرورت نہ ہو وہاں سنت کے مطابق صرف خطبہ ہی کے وقت خوب بلند آواز سے ایک ہی اذان دینی چاہیے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 912   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:912  
912. حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے زمانے میں جمعے کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا لیکن حضرت عثمان ؓ کے دور میں جب لوگ زیادہ ہو گئے تو آپ نے مقام زوراء پر تیسری اذان کا اضافہ فرما دیا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ) کہتے ہیں کہ زوراء مدینہ کے بازار میں واقع ایک جگہ کا نام ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:912]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح ابن خزیمہ میں یہ الفاظ ہیں:
وہ اذان جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کیا ہے جمعہ کے دن اس وقت ہوتی تھی جب امام خطبے کے لیے تشریف لے آتا۔
(صحیح ابن خزیمه: 136/3)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد میں دو اذانیں ہوتی تھیں۔
(صحیح ابن خزیمة: 137/3)
امام ابن خزیمہ ؒ وضاحت کرتے ہیں کہ ان اذانوں سے مراد اذان خطبہ اور اقامت نماز ہے۔
چونکہ اذان خطبہ غیر موجود لوگوں کو اطلاع اور اقامت، حاضرین کو آگاہ کرنے کے لیے کہی جاتی ہے، اس لیے دونوں کو اذان کہہ دیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔
اس سے مراد بھی اذان اور اقامت ہے۔
(صحیح ابن خزیمة: 137/3) (2)
عثمانی اذان اضافے کے اعتبار سے تیسری اور ترتیب کے لحاظ سے پہلی ہے۔
بعض روایات میں اسے اذان ثانی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔
(صحیح البخاري، الجمعة، حدیث: 915)
حقیقی اذان نبوی کے مقابلے میں اسے دوسری اذان کہا جاتا ہے اگرچہ ترتیب کے اعتبار سے اذان عثمانی پہلی ہے۔
روایات میں عام طور پر اذان نبوی کا وقت بتایا گیا ہے کہ جب امام منبر پر فروکش ہو جاتا تو اذان کہی جاتی تھی، محل کا ذکر نہیں ملتا۔
محل اذان کے متعلق معجم طبرانی میں حدیث ہے:
(كان النداء علی عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم و أبي بكر و عمر عند المنبر)
رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر و عمر ؓ کے زمانے میں اذان (جمعہ)
منبر کے پاس ہوتی تھی۔
(المعجم الکبیر للطبراني: 146/7)
اس روایت کی سند صحیح ہے۔
ائمہ اربعہ کے ہاں بھی اسی پر عمل ہے۔
(3)
اس سلسلے میں جمعے کے لیے پہلی اذان کا مسئلہ بھی قابل توجہ ہے۔
اس کے متعلق ہماری گزارش یہ ہے کہ مذکورہ بالا حدیث بخاری سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر ؓ کے زمانے میں جمعے کے لیے صرف ایک ہی اذان دی جاتی تھی، وہ بھی اس وقت کہی جاتی تھی جب خطیب منبر پر بیٹھ جاتا تھا، پھر حضرت عثمان ؓ نے لوگوں کی کثرت کے باعث بازار میں ایک اونچے مقام (زوراء)
پر ایک اذان کا اضافہ صرف اس لیے کیا تھا تاکہ لوگوں کو بآسانی خبردار کیا جا سکے۔
اسے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی اکثریت نے اختیار کر لیا۔
اگر آج بھی ایسے حالات ہوں تو اس عمل کو مباح قرار دیا جا سکتا ہے لیکن عصر حاضر میں تقریبا ہر مسجد میں لاؤڈ سپیکر موجود ہوتا ہے جس کے ذریعے سے دور دراز علاقوں میں اذان کی آواز پہنچانا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔
ان حالات میں کسی ہنگامی اذان کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی، لہذا حضرت عثمان ؓ کے عمل سے پہلی اذان کو جواز کشید کرنا محل نظر ہے۔
یہ دعویٰ کرنا کہ پہلی اذان کے جواز پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع سکوتی ہے۔
یہ بھی غوروفکر کا متقاضی ہے کیونکہ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ جمعہ کے دن پہلی اذان کہنا بدعت ہے۔
(المصنف لابن أبي شیبة: 470/3)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے یہ بات علی سبیل انکار کہی تھی اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے آپ کی مراد انکار نہ ہو بلکہ تحسین کے طور پر ایسا کہا ہو کہ اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں یہ اذان نہیں تھی، تاہم ایک اچھا عمل ہے جسے ایک ہنگامی ضرورت کے پیش نظر شروع کیا گیا ہے۔
(فتح الباري: 507/2)
ہمارے نزدیک پہلا احتمال راجح ہے کیونکہ حضرت علی ؓ نے دارالحکومت کوفہ میں اسے ختم کر کے اذان نبوی ہی کو برقرار رکھا۔
(تفسیر القرطبي: 100/18)
اس کے علاوہ حافظ ابن حجر ؓ نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ نویں صدی ہجری کے نصف تک مغرب ادنیٰ (تونس و طرابلس)
کے علاقے میں جمعہ کے لیے صرف ایک اذان دینے کا اہتمام تھا۔
(فتح الباري: 507/2)
امام شافعی ؒ جمعہ کی اذان کے متعلق عہد رسالت ہی کے طرز عمل کو زیادہ پسند کرتے تھے۔
(کتاب الأم: 195/1)
واضح رہے کہ ہم جمعہ کے لیے پہلی اذان کو بدعت بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ خلیفۂ راشد سیدنا عثمان ؓ نے یہ اذان دوسری نمازوں پر قیاس کرتے ہوئے شروع کی تھی، وہ اس طرح کہ کسی بھی نماز کے لیے اذان اس لیے دی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو نماز کے وقت سے خبردار کیا جا سکے۔
چونکہ لوگوں کی کثرت کے باعث جمعہ کے دن ایسا ممکن نہ تھا کہ ایک ہی اذان سے سب کو اطلاع ہو جائے اور ان کے دیر سے آنے کی وجہ سے اجر کے ضیاع کا بھی اندیشہ تھا، اس لیے انہوں نے پہلی اذان کا اہتمام کر دیا، لیکن جن حضرات کو اس کے جاری رکھنے پر اصرار ہے انہیں چاہیے کہ سنت عثمان پر عمل کرتے ہوئے بازار میں کسی اونچے مقام پر کھڑے ہو کر پہلی اذان دینے کا اہتمام کریں۔
ہمارے نزدیک تفصیل بالا کے پیش نظر سنت نبوی کے مطابق جہاں ایک اذان دینے کا عمل ہے وہاں اسے برقرار رہنا چاہیے، کسی خاص مکتب فکر کے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اس نبوی طرز عمل کو بدلنا قطعاً مستحسن نہیں، البتہ جہاں دو اذانیں ہوتی ہیں وہاں دیکھا جائے کہ اگر کسی قسم کے فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ ہو تو وہاں ایک اذان پر اکتفا کیا جائے۔
اگر حالات سازگار نہ ہوں تو ان کے سازگار ہونے تک دونوں اذانوں کو برقرار رکھنے کی گنجائش موجود ہے لیکن سنت نبوی پر عمل کرنے کے لیے ذہن سازی کرتے رہنا اولین فریضہ ہونا چاہیے، اس بنا پر ایسے معاملات کو باہمی اختلاف و جدال کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 912   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.