الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جمعہ کے بیان میں
The Book of Al-Jumuah (Friday)
22. بَابُ الْمُؤَذِّنِ الْوَاحِدِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ:
22. باب: جمعہ کے لیے ایک مؤذن مقرر کرنا۔
(22) Chapter. One Muadh-dhin on Friday.
حدیث نمبر: 913
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا عبد العزيز بن ابي سلمة الماجشون، عن الزهري، عن السائب بن يزيد،" ان الذي زاد التاذين الثالث يوم الجمعة عثمان بن عفان رضي الله عنه حين كثر اهل المدينة ولم يكن للنبي صلى الله عليه وسلم مؤذن غير واحد، وكان التاذين يوم الجمعة حين يجلس الإمام يعني على المنبر".حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ،" أَنَّ الَّذِي زَادَ التَّأْذِينَ الثَّالِثَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ كَثُرَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ وَلَمْ يَكُنْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُؤَذِّنٌ غَيْرَ وَاحِدٍ، وَكَانَ التَّأْذِينُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حِينَ يَجْلِسُ الْإِمَامُ يَعْنِي عَلَى الْمِنْبَرِ".
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد العزیز بن ابوسلمہ ماجشون نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے سائب بن یزید نے کہ جمعہ میں تیسری اذان عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بڑھائی جبکہ مدینہ میں لوگ زیادہ ہو گئے تھے جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ہی مؤذن تھے۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں) جمعہ کی اذان اس وقت دی جاتی جب امام منبر پر بیٹھتا۔

Narrated As-Saib bin Yazid: The person who increased the number of Adhans for the Jumua prayers to three was `Uthman bin `Affan and it was when the number of the (Muslim) people of Medina had increased. In the lifetime of the Prophet there was only one Mu'adh-dhin and the Adhan used to be pronounced only after the Imam had taken his seat (i.e. on the pulpit).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 13, Number 36

   صحيح البخاري913سائب بن يزيدالذي زاد التأذين الثالث يوم الجمعة عثمان بن عفان حين كثر أهل المدينة ولم يكن للنبي مؤذن غير واحد وكان التأذين يوم الجمعة حين يجلس الإمام يعني على المنبر
   صحيح البخاري912سائب بن يزيدالنداء يوم الجمعة أوله إذا جلس الإمام على المنبر على عهد النبي وأبي بكر وعمر ما فلما كان عثمان وكثر الناس زاد النداء الثالث على الزوراء
   جامع الترمذي516سائب بن يزيدالأذان على عهد رسول الله وأبي بكر وعمر إذا خرج الإمام وإذا أقيمت الصلاة فلما كان عثمان زاد النداء الثالث على الزوراء
   سنن أبي داود1087سائب بن يزيدالأذان كان أوله حين يجلس الإمام على المنبر يوم الجمعة في عهد النبي وأبي بكر وعمر ما فلما كان خلافة عثمان وكثر الناس أمر عثمان يوم الجمعة بالأذان الثالث فأذن به على الزوراء فثبت الأمر على ذلك
   سنن النسائى الصغرى1393سائب بن يزيدالأذان كان أول حين يجلس الإمام على المنبر يوم الجمعة في عهد رسول الله وأبي بكر وعمر فلما كان في خلافة عثمان وكثر الناس أمر عثمان يوم الجمعة بالأذان الثالث فأذن به على الزوراء فثبت الأمر على ذلك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1087  
´جمعہ کے دن اذان دینے کا بیان۔`
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا، پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت ہوئی، اور لوگوں کی تعداد بڑھ گئی تو جمعہ کے دن انہوں نے تیسری اذان کا حکم دیا، چنانچہ زوراء ۱؎ پر اذان دی گئی پھر معاملہ اسی پر قائم رہا ۲؎۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1087]
1087۔ اردو حاشیہ:
اصل اذان جو کہ امام کہ منبر پر بیٹھنے کے وقت کی ہے پہلی اذان ہے۔ اور اقامت یعنی جماعت کے لئے تکبیر کو دوسری اذان کہا گیا ہے اور خطبہ شروع ہونے سے کچھ وقت پہلے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے جو اذان شروع کرائی گئی وہ تیسری اذان ہوئی۔ جو کہ عملاً پہلی مگر رتبہ میں تیسری ہے اسے عرف عام میں دوسری اذان اور تاریخی لحاظ سے اذان عثمانی کہتے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی اکثریت نے اسے قبول کیا ہے اور یہ عالم اسلام میں اسی دور سے جاری و ساری ہے۔ یہ اذان لوگوں کو متنبہ کرنے کے لئے تھی جیسے کہ اذان فجر سے کچھ پہلے متنبہ کرنے کے لئے دور نبوت میں اذان کہلوائی گئی۔ ابن ابی شیبہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اس اذان کو بدعت کہا ہے۔ اصحاب الحدیث کے ہاں ایسے مسائل میں توسع ہے افضل اور راحج یہی ہے کہ دور نبوت کا عمل اختیار کیا جائے۔ حسب ضرورت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا معمول اپنا لینے میں بھی کوئی حرج نہیں، ویسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ اذان مسجد نبوی سے ایک میل دور مقام زورا میں کہلوائی تھی، وہاں بازار لگتا تھا اور لوگوں کو نماز کے وقت کا علم نہیں ہوتا تھا۔ یہ اذان اتنی پہلے کہی جاتی تھی کہ لوگ یہ اذان سن کر سامان سمیٹتے، گھر جاتے، غسل اور وضو کر کے لباس بدل کر خطبہ شروع ہونے سے پہلے مسجد نبوی میں آ جاتے۔ لہٰذا اگر، اذان عثمانی ہی کہلانی ہو تو اس پس منظر کو ملحوظ رکھنا چاہیے، ورنہ خطبے سے چند منٹ پہلے امام کے منہ کے سامنے کھڑے ہو کر اذان کہنا اذان عثمانی کی متابعت ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ یہ طبع زاد اور ایجاد بند ہ ہے۔
«زورا» زاء کی فتحہ واؤ ساکن اور آخر میں الف ممدودہ۔ زورا بازار مدینہ کے قریب ایک جگہ کا نام تھا جو مسجد نبوی سے کوئی ایک میل کے فاصلے پر تھی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1087   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 516  
´جمعہ کی اذان کا بیان۔`
سائب بن یزید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے زمانے میں (پہلی) اذان اس وقت ہوتی جب امام نکلتا اور (دوسری) جب نماز کھڑی ہوتی ۱؎ پھر جب عثمان رضی الله عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے زوراء ۲؎ میں تیسری اذان کا اضافہ کیا ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجمعة/حدیث: 516]
اردو حاشہ:
1؎:
یہاں دوسری اذان سے مراد اقامت ہے۔

2؎:
زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ کا نام تھا۔

3؎:
عثمان رضی اللہ عنہ نے مسجد سے دور بازار میں پہلی اذان دلوائی،
اور فی زمانہ لوگوں نے یہ اذان مسجد کے اندر کر دی ہے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اذان عثمان رضی اللہ عنہ کی سنت ہے،
اگر کہیں واقعی اس طرح کی ضرورت موجود ہو تو اذان مسجد سے باہر دی جائے،
ویسے اب مائک کے انتظام اور اکثر لوگوں کے ہاتھوں میں گھڑیوں کی موجودگی کے سبب اس طرح کی اذان کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ گئی،
جس ضرورت کے تحت عثمان رضی اللہ عنہ یہ زائد اذان دلوائی تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 516   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 913  
913. حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے کہ جب اہل مدینہ کی آبادی زیادہ ہو گئی تو اس وقت جمعہ کے دن تیسری اذان کا اہتمام کرنے والے حضرت عثمان ؓ تھے۔ اور نبی ﷺ کا تو ایک ہی مؤذن تھا۔ اور جمعہ کے دن اس وقت اذان دی جاتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:913]
حدیث حاشیہ:
اس سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ جب منبر پر جاتے توتین مؤذن ایک کے بعد ایک اذان دیتے۔
ایک مؤذن کا مطلب یہ کہ جمعہ کی اذان خاص ایک مؤذن حضرت بلال ؓ ہی دیا کرتے تھے ورنہ ویسے تو عہد نبوی میں کئی مؤذن مقرر تھے جو باری باری اپنے وقتوں پر اذان دیا کرتے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 913   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:913  
913. حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے کہ جب اہل مدینہ کی آبادی زیادہ ہو گئی تو اس وقت جمعہ کے دن تیسری اذان کا اہتمام کرنے والے حضرت عثمان ؓ تھے۔ اور نبی ﷺ کا تو ایک ہی مؤذن تھا۔ اور جمعہ کے دن اس وقت اذان دی جاتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:913]
حدیث حاشیہ:
(1)
ابن حبیب وغیرہ کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب منبر پر تشریف رکھتے تو یکے بعد دیگرے تین مؤذن اذان دیا کرتے تھے اور تیسرے کی اذان سے فراغت کے بعد رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر خطبہ شروع فرماتے۔
امام بخاری ؒ نے اسی موقف کی تردید کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے۔
یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔
(فتح الباري: 508/2)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں کہ حرمین میں یہ رواج ہے کہ جمعہ کے دن اور دوسرے ایام میں بھی کئی مؤذن جمع ہو کر بلند آواز سے اذان دیتے ہیں۔
یہ دستور رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نہیں تھا کیونکہ عہد رسالت میں ایک ہی مؤذن اذان دیتا تھا، تاہم اس عمل کو بدعت اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ اس کی بنیاد موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن زید بن عبد ربہ کو فرمایا تھا کہ وہ اذان کے کلمات حضرت بلال پر القا کریں۔
اس طرح دونوں حضرات بلند آواز سے اذان کہتے تھے۔
(شرح تراجم بخاری)
شاہ ولی اللہ ؒ کی بات اس لیے محل نظر ہے کہ حضرت بلال ؓ کو اذان سکھانے کا معاملہ صرف ایک مرتبہ ہوا تھا، ہر اذان کے موقع پر یہ عمل نہیں دہرایا جاتا تھا۔
اس کے علاوہ آج کل حرمین میں ایک ہی مؤذن اذان دیتا ہے، بیک وقت متعدد اذانین دینے کا عمل متروک ہو چکا ہے۔
(2)
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے تیسری اذان دینے کا اہتمام کیا تھا۔
آپ نے حکم دیا تھا کہ اذان دینے والے مسجد سے باہر اذان دیں تاکہ لوگوں کو وقت جمعہ کا پتہ چل جائے، نیز آپ نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ اذان خطبہ منبر کے پاس کہی جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے دور میں معمول تھا۔
آپ نے فرمایا کہ ہم نے اس تیسری اذان کا اہتمام اس لیے کیا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہو چکی ہے۔
لیکن یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ حضرت معاذ ؓ سے بیان کرنے والے حضرت مکحول ہیں، ان دونوں کے درمیان انقطاع ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ تیسری اذان کا اہتمام حضرت عثمان ؓ نے فرمایا تھا جیسا کہ صحیحین وغیرہ میں ہے۔
(فتح الباري: 507/2)
واللہ أعلم۔
(3)
عہد رسالت میں حضرت ابو محذورہ اور حضرت سعد القرظی ؓ بھی اذان دیا کرتے تھے لیکن مسجد نبوی میں ان کا اذان دینا ثابت نہیں بلکہ وہ اپنے اپنے قبیلے کی مساجد میں اذان کے لیے تعینات تھے۔
حضرت ابن ام مکتوم ؓ کا نام بھی اذان دینے والوں میں ملتا ہے لیکن وہ صرف صبح کی دوسری اذان کہتے تھے، دیگر اذانوں کے لیے صرف سیدنا بلال ؓ تعینات تھے جیسا کہ حضرت سائب بن یزید ؓ فرماتے ہیں جمعہ اور غیر جمعہ کی تمام نمازوں کے لیے ایک ہی مؤذن ہوا کرتا تھا، وہی اذان دیتا اور تکبیر کہتا۔
آپ نے فرمایا کہ حضرت بلال ؓ جمعہ کے لیے اس وقت اذان کہتے جب رسول اللہ ؓ منبر پر تشریف فرماتے اور جب منبر سے اترتے تو تکبیر کہتے۔
(دیکھیے ترجمۃ الباب والی حدیث)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 913   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.