الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
قرآن کے فضائل اور متعلقہ امور
54. باب مَعْرِفَةِ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ كَانَ يُصَلِّيهِمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْعَصْرِ:
54. باب: عصر کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے ان کا بیان۔
حدیث نمبر: 1933
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني حرملة بن يحيى التجيبي ، حدثنا عبد الله بن وهب اخبرني عمرو وهو ابن الحارث ، عن بكير ، عن كريب مولى ابن عباس، ان عبد الله بن عباس، وعبد الرحمن بن ازهر، والمسور بن مخرمة ارسلوه إلى عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: اقرا عليها السلام منا جميعا، وسلها، عن الركعتين بعد العصر، وقل إنا اخبرنا انك تصلينهما، وقد بلغنا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عنهما، قال ابن عباس: وكنت اصرف مع عمر بن الخطاب الناس عنها، قال كريب: فدخلت عليها وبلغتها ما ارسلوني به، فقالت: سل ام سلمة، فخرجت إليهم فاخبرتهم بقولها، فردوني إلى ام سلمة بمثل ما ارسلوني به إلى عائشة، فقالت ام سلمة : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عنهما، ثم رايته يصليهما، اما حين صلاهما فإنه صلى العصر، ثم دخل وعندي نسوة من بني حرام من الانصار، فصلاهما فارسلت إليه الجارية، فقلت: قومي بجنبه فقولي له: تقول ام سلمة يا رسول الله إني اسمعك تنهى، عن هاتين الركعتين واراك تصليهما، فإن اشار بيده فاستاخري عنه، قال: ففعلت الجارية فاشار بيده فاستاخرت عنه، فلما انصرف، قال: " يا بنت ابي امية سالت، عن الركعتين بعد العصر، إنه اتاني ناس من عبد القيس بالإسلام من قومهم، فشغلوني، عن الركعتين اللتين بعد الظهر فهما هاتان ".حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي عَمْرٌو وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ بُكَيْرٍ ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، وعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَزْهَرَ، والْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَرْسَلُوهُ إِلَى عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: اقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنَّا جَمِيعًا، وَسَلْهَا، عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَقُلْ إِنَّا أُخْبِرْنَا أَنَّكِ تُصَلِّينَهُمَا، وَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُمَا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَكُنْتُ أَصْرِفُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ النَّاسَ عَنْهَا، قَالَ كُرَيْبٌ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهَا وَبَلَّغْتُهَا مَا أَرْسَلُونِي بِهِ، فَقَالَتْ: سَلْ أُمَّ سَلَمَةَ، فَخَرَجْتُ إِلَيْهِمْ فَأَخْبَرْتُهُمْ بِقَوْلِهَا، فَرَدُّونِي إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ بِمِثْلِ مَا أَرْسَلُونِي بِهِ إِلَى عَائِشَةَ، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْهُمَا، ثُمَّ رَأَيْتُهُ يُصَلِّيهِمَا، أَمَّا حِينَ صَلَّاهُمَا فَإِنَّهُ صَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ دَخَلَ وَعِنْدِي نِسْوَةٌ مِنْ بَنِي حَرَامٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَصَلَّاهُمَا فَأَرْسَلْتُ إِلَيْهِ الْجَارِيَةَ، فَقُلْتُ: قُومِي بِجَنْبِهِ فَقُولِي لَهُ: تَقُولُ أُمُّ سَلَمَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَسْمَعُكَ تَنْهَى، عَنْ هَاتَيْنِ الرَّكْعَتَيْنِ وَأَرَاكَ تُصَلِّيهِمَا، فَإِنْ أَشَارَ بِيَدِهِ فَاسْتَأْخِرِي عَنْهُ، قَالَ: فَفَعَلَتِ الْجَارِيَةُ فَأَشَارَ بِيَدِهِ فَاسْتَأْخَرَتْ عَنْهُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: " يَا بِنْتَ أَبِي أُمَيَّةَ سَأَلْتِ، عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، إِنَّهُ أَتَانِي نَاسٌ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ بِالْإِسْلَامِ مِنْ قَوْمِهِمْ، فَشَغَلُونِي، عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ فَهُمَا هَاتَانِ ".
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام کریب سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، عبدالرحمان بن ازہر، مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ انھیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا اور کہا کہ ہم سب کی طرف سے انھیں سلام عرض کرنا اور ان سے عصر کے بعد کی دو رکعت کے بارے میں پوچھنا اور کہنا کہ ہمیں خبر ملی ہے کہ آ پ یہ (دو رکعتیں) پڑھتی ہیں۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہم تک یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے روکا ہے۔ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر لوگوں کو ان سے روکا کرتا تھا۔کریب نے کہا: میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان حضرات نے جو پیغام د ے کر مجھے بھیجا تھا میں نے ان تک پہنچایا۔انھوں نے جواب دیا ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھو۔میں نکل کر ان حضرات کے پاس لوٹا اور انھیں ان کے جواب سے آگاہ کیا۔ان حضرات نے مجھے وہی پیغام دے کر حضرت اسلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف بھیج دیا جس طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجاتھا، اس پر ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ ان دو رکعتوں سے روکتے تھے، پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھا، ہاں، آپ نے جب یہ دو رکعتیں پڑھیں تھیں اس وقت آپ عصر کی نماز پڑھ چکے تھے، پھر (عصر پڑھ کر) آپ (میرے گھر میں) داخل ہوئے جبکہ میرے پاس انصار کے قبیلے بنو حرام کے قبیلے کی کچھ عورتیں موجودتھیں، آ پ نے یہ دو رکعتیں ادا (کرنی شروع) کیں تو میں نے آپ کے پاس خادمہ بھیجی اور (اس سے) کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جانب جا کر کھڑی ہوجاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں آپ سے سنتی رہی ہوں کہ آپ (عصر کے بعد) ان دو رکعتوں سے منع فرماتے تھے اور اب میں آپ کو پڑھتے ہوئےدیکھ رہی ہوں؟اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ سے اشارہ فرمائیں تو پیچھے ہٹ (کرکھڑی ہو) جانا۔اس لڑکی نے ایسے ہی کیا، آپ نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا، وہ آپ سے پیچھے ہٹ (کر کھڑی ہو) گئی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیراتو فرمایا: "اے ابو امیہ (حذیفہ بن مغیرہ مخزومی) کی بیٹی!تم نے عصر کے بعد کی دورکعتوں کے بارے میں پوچھا ہے، تو (معاملہ یہ ہے کہ) بنو عبدالقیس کے کچھ افراد اپنی قوم کے اسلام (لانے کی اطلاع) کے ساتھ میرے پاس آئے، اور انھوں نے مجھے ظہر کی بعد کی دورکعتوں سے مشغول کردیا، یہ وہی دو رکعتیں ہیں۔"
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے آزاد کردہ غلام کریب سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس، عبدالرحمان بن ازہر اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بھیجا اور سب نے مجھے کہا کہ ہم سب کی طرف سے انھیں سلام عرض کرنا اور ان سے عصر کے بعد کی دو رکعت کے بارے میں سوال کرنا اور ان سے پوچھنا ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ آپ دو رکعتیں پڑھتی ہیں۔ جبکہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پہنچی ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے روکتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مل کر لوگوں کو ان سے (پھیرنے کے لیے) ان کے پڑے پر مارتا تھا، کریب کہتے ہیں: میں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان حضرات نے جو پیغام د ے کر مجھے بھیجا تھا میں نے ان تک پہنچایا۔ انھوں (عائشہ) نے جواب دیا، ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھیے۔ میں ان حضرات کے پاس واپس آیا اور انھیں ان کے جواب سے آگاہ کیا۔ ان حضرات نے مجھے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف اس پیعام کے ساتھ بھیجا جس کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بھیجا تھا، اس پر ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپصلی اللہ علیہ وسلم ان دو رکعت سے روکتے تھے، پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رکعات پڑھتے دیکھا، ہاں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس وقت پڑھا جب آپصلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھ کو میرے پاس تشریف لائے، اور میرے پاس انصار کے قبیلہ بنو حرام کے کی کچھ عورتیں بیٹھیں تھیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو رکعتوں کو پڑھنا شروع کیا تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خادمہ بھیجی اور میں نے کنیزسے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں جا کرکھڑی ہو جانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرنا، ام سلمہ آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتی ہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے آپ سے سنا ہے آپصلی اللہ علیہ وسلم ان دو رکعتوں کے پڑھنے سے منع فرما رہے تھے اور اب میں آپ کو پڑھتے ہوئےدیکھ رہی ہوں؟ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ سے اشارہ سے پیچھے ہٹائیں تو ہٹ جانا، تو اس لونڈی نے ایسے ہی کیا، آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو وہ آپ سے پیچھے ہٹ گئی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو فرمایا: اے ابو امیہ کی بیٹی! تم نے عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے بارے میں پوچھا ہے، صورت حال یہ ہے کہ میرے پاس عبد القیس خاندان کے کچھ افراد اپنی قوم کے اسلام لانے کی اطلاعدینے آئے اور انھوں نے مجھے ظہر کی بعد کی دورکعتوں سے مشغول کردیا، یہ وہی دو رکعتیں ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 834
   صحيح البخاري4370هند بنت حذيفةأتاني أناس من عبد القيس بالإسلام من قومهم فشغلوني عن الركعتين اللتين بعد الظهر فهما هاتان
   صحيح البخاري1233هند بنت حذيفةأتاني ناس من عبد القيس فشغلوني عن الركعتين اللتين بعد الظهر فهما هاتان
   صحيح مسلم1933هند بنت حذيفةأتاني ناس من عبد القيس بالإسلام من قومهم فشغلوني عن الركعتين اللتين بعد الظهر فهما هاتان
   سنن أبي داود1273هند بنت حذيفةأتاني ناس من عبد القيس بالإسلام من قومهم فشغلوني عن الركعتين اللتين بعد الظهر فهما هاتان
   سنن النسائى الصغرى580هند بنت حذيفةهما ركعتان كنت أصليهما بعد الظهر فشغلت عنهما حتى صليت العصر
   سنن النسائى الصغرى581هند بنت حذيفةشغل رسول الله عن الركعتين قبل العصر فصلاهما بعد العصر
   سنن ابن ماجه1159هند بنت حذيفةشغلني أمر الساعي أن أصليهما بعد الظهر فصليتهما بعد العصر
   بلوغ المرام143هند بنت حذيفةشغلت عن ركعتين بعد الظهر فصليتهما الآن
   مسندالحميدي296هند بنت حذيفةلا إنما يكفيك أن تحثي على رأسك ثلاث حثيات من ماء ثم تفيضي عليك الماء فتطهري

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 143  
´عصر کے بعد ظہر کی رہ جانے والی سنتوں کی قضا`
«. . . صلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم العصر. ثم دخل بيتي فصلى ركعتين. فسالته فقال: ‏‏‏‏شغلت عن ركعتين بعد الظهر فصليتهما الآن . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر پڑھ کر میرے حجرے میں تشریف لائے اور دو رکعت نماز ادا فرمائی۔ میں نے عرض کیا یہ دو رکعت کیسی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا ظہر کے فرائض کے بعد کی دو سنتیں پڑھ نہیں سکا تھا وہ اب میں نے پڑھی ہیں . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 143]

لغوی تشریح:
«شُغِلْتُ» صیغہ مجہول۔ اس کے معنی ہیں کہ مجھے روک دیا گیا، اس طرف سے توجہ پھیر دی گئی۔ مانع یہ تھا کہ قبیلۂ عبدالقیس کے کچھ لوگ آ گئے تھے یا صدقے کا مال آ گیا تھا۔ مال کی تقسیم یا ان سے گفتگو کرتے رہنے کی وجہ سے ظہر کی دو سنتیں رہ گئی تھیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد پڑھیں۔
«فصليتهما الآن» یعنی میں نے ان دونوں کی اب قضا دی ہے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ ہم بھی چھوٹ جانے کی صورت میں اس وقت قضا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس وقت انہیں قضا ہونے کی صورت میں ادا نہ کرو۔
علامہ یمانی نے کہا ہے کہ اس سے ثابت ہوا نماز عصر کے بعد ان سنتوں کی قضا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے، کسی بھی دوسرے کے لیے یہ جائز نہیں ہے اور ایک دن کے عمل کے بعد آپ کا ہمیشہ انہیں نماز عصر کے بعد ادا کرتے رہنا اس بنا پر تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب ایک عمل ایک مرتبہ کر لیتے تو اسے ہمیشہ انجام دیتے تھے۔ تو گویا یہ بھی آپ کی خصوصیت تھی۔

فائدہ:
حدیث مذکور سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر کے بعد ظہر کی رہ جانے والی سنتوں کی قضا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ اور امتیاز تھا جیسا کہ امام طحاوی اور علامہ یمانی رحمہما اللہ نے کہا ہے مگر امام بیہقی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رحمہما اللہ نے کہا ہے کہ اس روایت کا آخری حصہ «أَفَنَقُضِيهِمَا إذَا فَتَتَا؟ قال: لا» جب یہ رہ جائیں تو کیا ہم ان کی قضا دیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ ضعیف اور غیر محفوظ ہے۔ صحیح یہ ہے کہ عصر کے بعد قضا نماز فرض ہو یا سنت، ادا ہو سکتی ہے۔ اس کی تفصیل أعلام أھل العصر میں شارح ابوداود شیخ شمس الحق محدیث ڈیانوی نے خوب بیان کی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 143   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 581  
´عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہم کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے والی دو رکعت نہیں پڑھ سکے، تو انہیں عصر کے بعد پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 581]
581 ۔ اردو حاشیہ: عصر کے بعد نوافل پڑھنا جائز ہے جب تک کہ سورج زرد نہ ہو جیسا کہ پیچھے تفصیل گزر چکی ہے۔ دیکھیے، حدیث: 574 اور 579 کے فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 581   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1159  
´جس کی ظہر کے بعد کی دو رکعت سنت چھوٹ جائے اس کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک شخص بھیجا، قاصد کے ساتھ میں بھی گیا، اس نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا، تو انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں نماز ظہر کے لیے وضو کر رہے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ وصول کرنے والا ایک شخص روانہ کیا تھا، آپ کے پاس مہاجرین کی بھیڑ تھی، اور ان کی بدحالی نے آپ کو فکر میں مبتلا کر رکھا تھا کہ اتنے میں کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، آپ باہر نکلے، ظہر پڑھائی پھر بیٹھے، اور صدقہ وصول کرنے و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1159]
اردو حاشہ:
فائدہ:

(1)
مذکور روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
اورشیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے منکر قرار دیا ہے۔
لیکن رسول اللہ ﷺ سے عصر کے بعد دورکعتیں پڑھنے کا ثبوت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات سے ملتا ہے۔
اسی لئے بعض محققین نے اس روایت کی سند کو تو ضعیف قراردیا ہے۔
لیکن فی نفسہ مسئلہ یعنی عصر کے بعد دورکعت پڑھنے کو صحیح قرار دیا ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة، مسند الإمام أحمد بن حنبل: 257، 256، 210، 209/44 وسنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشارعواد، حدیث: 115)

(2)
ظہر کی پچھلی دو سنتیں مؤکدہ سنتوں میں سے ہیں۔
اور ان کا پڑھنا مستحب ہے۔

(3)
ممنوع وقت میں کسی مشروع سبب سے نماز پڑھنا جائز ہے۔

(4)
عصر کے بعد ان رکعات کی ہمیشگی نبی اکرمﷺ کی خصوصیت تھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1159   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1273  
´عصر کے بعد نفل پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس، عبدالرحمٰن بن ازہر رضی اللہ عنہ اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ تینوں نے انہیں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا اور کہا: ان سے ہم سب کا سلام کہنا اور عصر کے بعد دو رکعت نفل کے بارے میں پوچھنا اور کہنا: ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ یہ دو رکعتیں پڑھتی ہیں، حالانکہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع فرمایا ہے، چنانچہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور انہیں ان لوگوں کا پیغام پہنچا دیا، آپ نے کہا: ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھو! میں ان لوگوں کے پاس آیا اور ان کی بات انہیں بتا دی، تو ان سب نے مجھے ام المؤمنین ام سلمہ کے پاس اسی پیغام کے ساتھ بھیجا، جس کے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا تھا، تو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے منع کرتے ہوئے سنا، پھر دیکھا کہ آپ انہیں پڑھ رہے ہیں، ایک روز آپ نے عصر پڑھی پھر میرے پاس آئے، اس وقت میرے پاس انصار کے قبیلہ بنی حرام کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں، آپ نے یہ دونوں رکعتیں پڑھنا شروع کیں تو میں نے ایک لڑکی کو آپ کے پاس بھیجا اور اس سے کہا کہ تو جا کر آپ کے بغل میں کھڑی ہو جا اور آپ سے کہہ: اللہ کے رسول! ام سلمہ کہہ رہی ہیں: میں نے تو آپ کو ان دونوں رکعتوں کو پڑھنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے اور اب آپ ہی انہیں پڑھ رہے ہیں، اگر آپ ہاتھ سے اشارہ کریں تو پیچھے ہٹ جانا، اس لڑکی نے ایسا ہی کیا، آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا، تو وہ پیچھے ہٹ گئی، جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے تو فرمایا: اے ابوامیہ کی بیٹی! تم نے مجھ سے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کے بارے میں پوچھا ہے، دراصل میرے پاس عبدالقیس کے چند لوگ اپنی قوم کے اسلام کی خبر لے کر آئے تو ان لوگوں نے مجھے باتوں میں مشغول کر لیا اور میں ظہر کے بعد یہ دونوں رکعتیں نہیں پڑھ سکا، یہ وہی دونوں رکعتیں ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1273]
1273۔ اردو حاشیہ:
➊ ظہر کی پچھلی سنتیں مؤکدہ سنتوں میں سے ہیں اور ان کا پڑھنا مستحب ہے۔
➋ ممنوع وقت میں کسی مشروع سبب سے نماز پڑھنا جائز ہے۔
➌ عصر کے بعد ان رکعات کی ہمیشگی نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی خصوصیت تھی۔
➍ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مسئلے کی تحقیق میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف تحویل کرنا، ان آداب میں سے ہے کہ اعلم اور اہل فضل کی طرف مراجعت کی جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1273   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1933  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
انسان کی فطرت اور مزاج میں یہ بات داخل ہے کہ جب وہ کسی کے قول و فعل میں تضاد دیکھتا ہے تو چاہے یہ کام کرنے والی شخصیت کتنی ہی عظیم اور محبوب ہو وہ خلجان میں پڑجاتا ہے اور اس کے قول و فعل کے تضاد کے سبب کو معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جن کے باپ کا نام ابو امیہ خذیفہ ہے اس بنا پر آپ سے سوال کیا تھا۔
(2)
نماز ظہر کے بعد کی سنتیں اگرچہ فرض نہیں ہیں،
لیکن چونکہ آپﷺ ہمیشہ ان کی پابندی کرتے تھے اس لیے آپﷺ نے اس عادت کو برقرار رکھنے کے لیے سنتوں کی قضائی دی۔
اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سنتوں کی قضائی پسندیدہ ہے اور امام محمد کا قول بھی یہی ہے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول کے مطابق نہیں ہے اور دوسرے قول کی انسان کو اختیار ہے،
جیسے چاہے کر لے۔
(3)
عصر کے بعد سنتوں کی قضائی دینے سے معلوم ہوا کہ عصر کے بعد سببی نماز پڑھنا جائز ہے،
اس بنا پر فرض نماز کی قضاء،
نماز جنازہ،
اور نماز طواف کے بعد سب کے نزدیک جائز ہے تو پھر تحیۃ المسجد کیوں جائز نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1933   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.