الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Prayer - Funerals
9. باب الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ:
9. باب: میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔
حدیث نمبر: 2149
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا داود بن رشيد ، حدثنا إسماعيل ابن علية ، حدثنا ايوب ، عن عبد الله بن ابي مليكة ، قال: كنت جالسا إلى جنب ابن عمر، ونحن ننتظر جنازة ام ابان بنت عثمان، وعنده عمرو بن عثمان فجاء ابن عباس يقوده قائد، فاراه اخبره بمكان ابن عمر، فجاء حتى جلس إلى جنبي فكنت بينهما، فإذا صوت من الدار، فقال ابن عمر : كانه يعرض على عمر وان يقوم فينهاهم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن الميت ليعذب ببكاء اهله "، قال: فارسلها عبد الله مرسلة، فقال ابن عباس : كنا مع امير المؤمنين عمر بن الخطاب، حتى إذا كنا بالبيداء، إذا هو برجل نازل في ظل شجرة، فقال لي: اذهب فاعلم لي من ذاك الرجل، فذهبت فإذا هو صهيب، فرجعت إليه فقلت: إنك امرتني ان اعلم لك من ذاك وإنه صهيب، قال: مره فليلحق بنا، فقلت: إن معه اهله، قال: وإن كان معه اهله، وربما قال ايوب: مره فليلحق بنا، فلما قدمنا لم يلبث امير المؤمنين ان اصيب، فجاء صهيب، يقول: وا اخاه وا صاحباه، فقال عمر : الم تعلم، او لم تسمع، قال ايوب او قال: او لم تعلم، او لم تسمع، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الميت ليعذب ببعض بكاء اهله "، قال: فاما عبد الله فارسلها مرسلة، واما عمر، فقال: ببعض، فقمت فدخلت على عائشة فحدثتها بما قال ابن عمر، فقالت: " لا والله ما قاله رسول الله صلى الله عليه وسلم قط إن الميت يعذب ببكاء احد "، ولكنه قال: " إن الكافر يزيده الله ببكاء اهله عذابا، وإن الله لهو اضحك وابكى، ولا تزر وازرة وزر اخرى "، قال ايوب : قال ابن ابي مليكة : حدثني القاسم بن محمد ، قال: لما بلغ عائشة قول عمر، وابن عمر، قالت: " إنكم لتحدثوني عن غير كاذبين ولا مكذبين ولكن السمع يخطئ ".حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا إِلَى جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ، وَنَحْنُ نَنْتَظِرُ جَنَازَةَ أُمِّ أَبَانَ بِنْتِ عُثْمَانَ، وَعِنْدَهُ عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ فَجَاءَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُودُهُ قَائِدٌ، فَأُرَاهُ أَخْبَرَهُ بِمَكَانِ ابْنِ عُمَرَ، فَجَاءَ حَتَّى جَلَسَ إِلَى جَنْبِي فَكُنْتُ بَيْنَهُمَا، فَإِذَا صَوْتٌ مِنَ الدَّارِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : كَأَنَّهُ يَعْرِضُ عَلَى عَمْرٍ وَأَنْ يَقُومَ فَيَنْهَاهُمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ "، قَالَ: فَأَرْسَلَهَا عَبْدُ اللَّهِ مُرْسَلَةً، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : كُنَّا مَعَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ، إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ نَازِلٍ فِي ظِلِّ شَجَرَةٍ، فَقَالَ لِي: اذْهَبْ فَاعْلَمْ لِي مَنْ ذَاكَ الرَّجُلُ، فَذَهَبْتُ فَإِذَا هُوَ صُهَيْبٌ، فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ: إِنَّكَ أَمَرْتَنِي أَنْ أَعْلَمَ لَكَ مَنْ ذَاكَ وَإِنَّهُ صُهَيْبٌ، قَالَ: مُرْهُ فَلْيَلْحَقْ بِنَا، فَقُلْتُ: إِنَّ مَعَهُ أَهْلَهُ، قَالَ: وَإِنْ كَانَ مَعَهُ أَهْلُهُ، وَرُبَّمَا قَالَ أَيُّوبُ: مُرْهُ فَلْيَلْحَقْ بِنَا، فَلَمَّا قَدِمْنَا لَمْ يَلْبَثْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ أَنْ أُصِيبَ، فَجَاءَ صُهَيْبٌ، يَقُولُ: وَا أَخَاهْ وَا صَاحِبَاهْ، فَقَالَ عُمَرُ : أَلَمْ تَعْلَمْ، أَوَ لَمْ تَسْمَعْ، قَالَ أَيُّوبُ أَوَ قَالَ: أَوَ لَمْ تَعْلَمْ، أَوَ لَمْ تَسْمَعْ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ "، قَالَ: فَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ فَأَرْسَلَهَا مُرْسَلَةً، وَأَمَّا عُمَرُ، فَقَالَ: بِبَعْضِ، فَقُمْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَحَدَّثْتُهَا بِمَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ، فَقَالَتْ: " لَا وَاللَّهِ مَا قَالَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَحَدٍ "، وَلَكِنَّهُ قَالَ: " إِنَّ الْكَافِرَ يَزِيدُهُ اللَّهُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَذَابًا، وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى، وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى "، قَالَ أَيُّوبُ : قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ : حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: لَمَّا بَلَغَ عَائِشَةَ قَوْلُ عُمَرَ، وَابْنِ عُمَرَ، قَالَتْ: " إِنَّكُمْ لَتُحَدِّثُونِّي عَنْ غَيْرِ كَاذِبَيْنِ وَلَا مُكَذَّبَيْنِ وَلَكِنَّ السَّمْعَ يُخْطِئُ ".
ایوب نے عبد اللہ بن ابی ملیکہ سے روا یت کی، انھوں نے کہا: میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔ہم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ام ابان کے جنازے کا انتظار کر رہے تھے جبکہ عمرو بن عثمان بھی ان کے پا س تھے اتنے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ آئے انھیں لے کر آنے والا ایک آدمی لا یا میرے خیال میں اس نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹھنے کی جگہ کے بارے میں بتا یا تو وہ آکر میرے پہلو میں بیٹھ گئے میں ان دو نوں کے در میان میں تھا اچانک گھر (کے اندر) سے (رونے کی) آواز آئی تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے۔۔۔اور ایسا لگتا تھا وہ عمرو (بن عثمان) کو اشارہ کر رہے ہیں کہ وہ انھیں اور ان کو روکیں۔۔۔کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہو ئے سنا ہے بلا شبہ میت کو اس کے گھر والوں کے رو نے سے عذاب دیا جا تا ہے: " (عبد اللہ بن ابی ملیکہ نے) کہا: حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے اس کو بلا شرط و قید (یعنی ہر طرح کے رو نے کے حوالے سے) بیان کیا۔اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم امیر المو منین حضرت عمربن خطا ب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے حتیٰ کہ جب ہم بیداء کے مقام پر پہنچے تو انھوں نے ایک آدمی کو درخت کے سائے میں پڑا ؤڈالے دیکھا انھوں نے مجھ سے کہا: جا ؤ اور میرے لیے پتہ کرو کہ وہ کو ن آدمی ہے میں گیا تو دیکھا وہ صہیب رضی اللہ عنہ تھے میں ان کے پاس واپس آیا اور کہا: آپ نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں آپ کے لیے پتہ کروں کہ وہ کو ن شخص ہیں تو وہ صہیب رضی اللہ عنہ ہیں انھوں نے کہا: (جاؤ اور) ان کو حکم (پہنچا) دو کہ وہ ہمارے ساتھ (قافلے میں) آجا ئیں۔میں نے کہا: ان کے ساتھ ان کے گھر والے ہیں انھوں نے کہا: چاہے ان کے ساتھ ان کے گھر والے (بھی) ہیں شامل ہو جا ئیں) بسا اوقات ایوب نے (بس یہاں تک کہا) ان سے کہو کہ وہ ہمارے ساتھ (قافلے میں) شامل ہو جائیں۔۔۔جب ہم مدینہ پہنچے تو زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ امیر المو منین زخمی کردیے گئے صہیب رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہو ئے آئے ہائے میرا بھائی!ہائے میرا ساتھی!تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا تمھیں معلوم نہیں یا (کہا: تم نے سنا نہیں۔۔۔ایوب نے کہا: یا انھوں نے (اس کے بجا ئے (او لم تعلم ...اولم تسمع کیا تمھیں پتہ نہیں اور تم نے سنا نہیں "کے الفاظ کہے۔۔۔کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میت کو اس کے گھر والوں کے بعض (طرح کے) رونے سے عذاب دیا جاتا ہے (ابن ابی ملیکہ نے) کہا: حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس (رونے کے لفظ) کو بلا قید بیان کیا جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (لفظ) بعض (کی قید) کے ساتھ کہاتھا۔میں (ابن ابی ملکہ) اٹھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جو کہا تھا ان کو بتا یا انھوں نے کہا نہیں اللہ کی قسم!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کبھی نہیں فرمایا کہ میت کو کسی ایک کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جا تا ہے بلکہ آپ نے فرمایا ہے: " اللہ تعا لیٰ کا فر کے عذاب میں اس کے گھر والوں کے رو نے کی وجہ سے اضافہ کر دیتا ہے (کیونکہ کا فروں نے اپنی اولاد کو بلند آواز سے رونا سکھایا ہوتا ہے رہا بغیر آواز کے رونا تو اس کی ذمہ داری رونے والے پر نہیں کیونکہ) بے شک اللہ ہی ہے جس نے ہنسایا اور رلایا۔"اور بو جھ اٹھا نے والی کوئی جان کسی دوسری کا بو جھ نہیں اٹھا ئے گی۔ (آواز کے بغیر محض آنسوؤں سے رونے کا نہ رونے والے کو گنا ہ ہے نہ اس کے بڑوں کو کیونکہ وہ بھی اس کے ذمہ دار نہیں۔) ایوب نے کہا: ابن ابی ملیکہ نے کہاں مجھ سے قاسم بن محمد نے بیان کیا انھوں نے کہا: جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حضرت عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ بات پہنچی تو انھوں نے کہا: تم مجھے ایسے دو افراد کی حدیث بیان کرتے ہو جو نہ (خود جھوٹ بولنے والے ہیں اور نہ جھٹلائے جا نے والے ہیں لیکن (بعض اوقات) سماع (سننا) غلط ہو جا تا ہے (کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور سیاق میں یہ با ت کی تھی دیکھیے حدیث نمبر2153۔2156)۔۔
عبد اللہ بن ابی ملیکہ سے روا یت ہے: کہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔ اور ہم حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی ام ابان کے جنازے کے منتظر تھے اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے پاس عمرو بن عثمان بھی عمرو بن عثمان بھی بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو آگے سے پکڑ کر ایک آدمی لے کر آ گیا، میرے خیال میں اس نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی موجودگی کے بارے میں بتایا تو وہ آ کر میرے پہلو میں بیٹھ گئے میں ان دونوں کے درمیان میں تھا اچانک گھر سے آواز بلند ہوئی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 928


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.