الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
زکاۃ کے احکام و مسائل
The Book of Zakat
41. باب التَّحزِيرِ مِنَ الاِ غتِرَارِ بِزِينَةِ الدُّنيَا وَمَا يَبسُطُ مِنهَا
41. باب: دنیا کی کشادگی اور زینت پر مغرور مت ہو۔
حدیث نمبر: 2423
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني علي بن حجر ، اخبرنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن هشام صاحب الدستوائي ، عن يحيى بن ابي كثير ، عن هلال بن ابي ميمونة ، عن عطاء بن يسار ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر، وجلسنا حوله، فقال: " إن مما اخاف عليكم بعدي ما يفتح عليكم من زهرة الدنيا وزينتها "، فقال رجل: او ياتي الخير بالشر يا رسول الله؟، قال: فسكت عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقيل له: ما شانك تكلم رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا يكلمك؟، قال: وراينا انه ينزل عليه فافاق يمسح عنه الرحضاء، وقال: " إن هذا السائل وكانه حمده "، فقال: " إنه لا ياتي الخير بالشر، وإن مما ينبت الربيع يقتل او يلم، إلا آكلة الخضر فإنها اكلت حتى إذا امتلات خاصرتاها، استقبلت عين الشمس فثلطت وبالت، ثم رتعت وإن هذا المال خضر حلو، ونعم صاحب المسلم هو، لمن اعطى منه المسكين واليتيم وابن السبيل "، او كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وإنه من ياخذه بغير حقه كان كالذي ياكل ولا يشبع، ويكون عليه شهيدا يوم القيامة ".حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ هِشَامٍ صَاحِبِ الدَّسْتَوَائِيِّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ، فَقَالَ: " إِنَّ مِمَّا أَخَافُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي مَا يُفْتَحُ عَلَيْكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَزِينَتِهَا "، فَقَالَ رَجُلٌ: أَوَ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: فَسَكَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ: مَا شَأْنُكَ تُكَلِّمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يُكَلِّمُكَ؟، قَالَ: وَرَأَيْنَا أَنَّهُ يُنْزَلُ عَلَيْهِ فَأَفَاقَ يَمْسَحُ عَنْهُ الرُّحَضَاءَ، وَقَالَ: " إِنَّ هَذَا السَّائِلَ وَكَأَنَّهُ حَمِدَهُ "، فَقَالَ: " إِنَّهُ لَا يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ، وَإِنَّ مِمَّا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ أَوْ يُلِمُّ، إِلَّا آكِلَةَ الْخَضِرِ فَإِنَّهَا أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَلَأَتْ خَاصِرَتَاهَا، اسْتَقْبَلَتْ عَيْنَ الشَّمْسِ فَثَلَطَتْ وَبَالَتْ، ثُمَّ رَتَعَتْ وَإِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرٌ حُلْوٌ، وَنِعْمَ صَاحِبُ الْمُسْلِمِ هُوَ، لِمَنْ أَعْطَى مِنْهُ الْمِسْكِينَ وَالْيَتِيمَ وَابْنَ السَّبِيلَ "، أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَإِنَّهُ مَنْ يَأْخُذُهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ كَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَيَكُونُ عَلَيْهِ شَهِيدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
ہلال بن ابی میمونہ نے عطا ء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فر ما ہوئے اور ہم آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا: " مجھے اپنے بعد تمھا رے بارے میں جس چیز کا خوف ہے وہ دنیا کی شادابی اور زینت ہے جس کے دروازے تم پر کھول دیے جا ئیں گے۔تو ایک آدمی نے عرض کی: اے اللہ کے رسول!! کیا خیر شر کو لے آئے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جواب میں (کچھ دیر) خا مو ش رہے اس سے کہا گیا: تیرا کیا معاملہ ہے؟ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرتے ہو (جبکہ) وہ تم سے بات نہیں کر رہے؟ کہا: اور ہم نے دیکھا کہ آپ پر وحی اتاری جا رہی ہے پھر آپ پسینہ پو نچھتے ہو ئے اپنے معمول کی حا لت میں آگئے اور فرمایا: " یہ سا ئل کہاں سے آیا؟ گو یا آپ نے اس کی تحسین فر ما ئی۔۔۔پھر فرمایا: "واقعہ یہ ہے کہ خیر شر کو نہیں لا تی اور بلا شبہ مو سم بہار جو اگا تا ہے وہ (اپنی دفرت شادابی اور مرغوبیت کی بنا پر) مار دیتا ہے یا مو ت کے قریب کر دیتا ہے سوائے سبز دکھا نے والے اس حیوان کے جس نے کھا یا یہاں تک کہ جب اس کی کو کھیں بھرگئیں تو اس نے سورج کی آنکھ کی طرف منہ کر لیا (اور آرام سے بیٹھ کر کھا یا ہوا ہضم کیا) پھر لید کی، پیشاب کیا اس کے بعد (پھر سے) گھا س کھا ئی۔یقیناً یہ ما ل شاداب اور شریں ہے اور یہ اس مسلمان کا بہترین ساتھی ہے جس نے اس میں سے مسکین یتیم اور مسافر کو دیا۔۔۔یا الفا ظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما ئے۔۔۔اور حقیقت یہ ہے جو اسے اس کے حق کے بغیر لیتا ہے وہ اس آدمی کی طرح ہے جو کھا تا ہے اور سیر نہیں ہو تا اور قیامت کے دن وہ (مال) اس کے خلاف گواہ ہو گا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہم آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد بیٹھ گئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" مجھے اپنے بعد تمھا رے بارے میں جس چیز کا خطرہ اور خدشہ ہے وہ دنیا کی رونق و شادابی اور زینت ہے جو تمہارے لیے وافرکر دی جائے گی۔ تو ایک آدمی نے عرض کیا: کیا خیر ر لاتا ہے۔ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو جواب دینے سے خاموش رہے۔ اسے کہا گیا: تیرا کیا معاملہ ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتا ہٰے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تیری گفتگو کا جواب نہیں دیتے۔ اور ہم نے دیکھا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتاری جا رہی ہے۔ آپ پسینہ پونچھتے ہوئے اپنے معمول کی حالت میں آ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سائل (قابل قدر اور لائق تعریف ہے) گویا کہ آپ نے اس کی تحسین فرمائی۔ اور فرمایا: (واقعہ یہ ہے کہ خیر، شر کا سبب نہیں بنتا لیکن) مو سم ربیع جو چارہ اور کھاس اگاتا ہے (اس کا زیادہ استعمال) قتل کر دیتا ہے یا قریب الموت کر دیتا ہے مگر سبزہ کھانے والا وہ حیوان، جو کھاتا ہے، حتی کہ جب اس کی کوکھیں بھر جاتی ہیں تو وہ سورج کی ٹکیہ کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتا ہے پھر گوبرلید اور پیشاب کرتا ہے (ہضم کرنے کےبعد) پھر دوبارہ چرتا چگتا ہے اور بلا سبہ یہ (دنیا کا) مال سر سبز و شاداب شریں ہے اور یہ کسلمان کا بہترین ساتھی ہے جس نے اس میں سے مسکین، یتیم اور مسافر کو دیتا ہے (یا جو الفا ظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے) اور حقیقت یہ ہے جو اس کو ناحق طور پر لیتا ہے وہ اس انسان کی طرح جو کھاتا ہے اور سیر نہیں ہوتا اور وہ قیامت کے دن وہ اس کے خلاف گواہ بنے گا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1052

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2423  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
مال و دولت کی کثرت اور فراوانی خطرناک ہے کیونکہ ﴿إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَىٰ (6)
أَن رَّآهُ اسْتَغْنَىٰ ﴾
بے شک انسان حد سے نکل جاتا ہے اس لیے کہ وہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے کہ وہ غنی ہو گیا ہے اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اپنے بعد حاصل ہونے والے مال واسباب کی کثرت اور زیادتی سے ڈرایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان انسانوں کے امتحان وابتلاء کی خاطر مال و دولت میں حسن وزیبائش اور رونق و بھجت رکھی ہے تاکہ اس کی طرف اس کی نظریں اٹھیں اور ان میں جچ جائے اور اس میں شیرینی و مٹھاس رکھی ہے تاکہ وہ اس کے دل کو لبھائے اور وہ اس کو ہر حالت میں اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
(2)
دنیا کا مال و دولت اگر جائز طریقہ سے حاصل کیا جائے اور اس کے حصول میں ناجائز ذرائع اختیار نہ کیے جائیں اور اس کو اسراف و تبذیر میں پڑ کر عیش و عشرت میں صرف نہ کیا جائے بلکہ جس طرح صحیح اور جائز طریقہ سے کمایا ہے اس طرح صحیح اور جائز مصرف میں اس کو صرف کیا جائے اور اس کی محبت میں گرفتار ہو کر دین اور ایمان اور ان کے تقاضوں سے انحراف و اعراض کرتے ہوئے اس پر سانپ بن کر نہ بیٹھا جائے۔
تو یہ انسان کا بہترین ساتھی اور معاون ہے انسان اس سے ہر قسم کے امور خیر اور نیک مقاصد میں حصہ لے سکتا ہے اور تمام اہل حقوق کے حق ادا کر سکتا ہے اور ایسی صورت میں یہ خیر ہی ہے اور خیر ہی کا باعث ہے لیکن اگر انسان اس کو جائز طریقہ سے نہیں کماتا یا اس کو عیش وعشرت میں اڑتا ہے یا اس کی محبت میں گرفتار ہو کر اس کو سمیٹ سمیٹ کر رکھتا ہے تو پھر یہ انسان کی تباہی و بربادی کا باعث ہے جیسا کہ آج کل دولت کی ریل پیل نے اہل ثروت اور اصحاب مال کو الا ماشاء اللہ دین اہل دین اور قوم و ملت کے مفادات سے یکسر غافل کردیا ہے اور انہیں ہر وقت یہی دھن اور فکر رہتی ہے کہ کس طرح زیادہ مال جمع کیا جائے ان کی مثال اس حیوان کی ہے جو موسم ربیع کے بہترین سبزہ کو دیکھ کر بلاتحاشا کھائے جاتا ہے حتی کہ اس کا پیٹ پھول جاتا ہے اور انتڑیاں پھٹ جاتی ہیں اور وہ مر جاتا ہے۔
اس کی کوکھ کو کاٹ کر پیٹ سے سبزہ نکال کر بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اور ایسا انسان مال و دولت کی حرص وآز میں اس انسان کی طرح ہوجاتا ہے جسے بھوک کی بیماری لاحق ہوتی ہے اور اس کی بھوک کبھی بھی نہیں مٹتی اس طرح ان اصحاب ثروت کی ہوس پوری نہیں ہوتی (جیسا کہ پچھلے باب کی احادیث میں گزر چکا ہے)
انہیں مال بڑھانے کی فکر دامن گیر رہتی ہے اور مال ہی ان کا معبود مطلوب اور مقصود ٹھہرتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2423   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.