الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
روزوں کے احکام و مسائل
The Book of Fasting
15. باب جَوَازِ الصَّوْمِ وَالْفِطْرِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ لِلْمُسَافِرِ فِي غَيْرِ مَعْصِيَةٍ إِذَا كَانَ سَفَرُهُ مَرْحَلَتَيْنِ فَأَكْثَرَ وَأَنَّ الأَفْضَلَ لِمَنْ أَطَاقَهُ بِلاَ ضَرَرٍ أَنْ يَصُومَ وَلِمَنْ يَشُقُّ عَلَيْهِ أَنْ يُفْطِرَ:
15. باب: رمضان المبارک کے مہینے میں مسافر کے لئے جبکہ اس کا سفر دو منزل یا اس سے زیادہ ہو تو روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کے جواز کا بیان، اور بہتر یہ ہے کہ جو باب: روزہ کی طاقت رکھتا ہے وہ روزہ رکھے، اور جس کے لیے مشقت ہو تو وہ نہ رکھے۔
حدیث نمبر: 2609
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابو كريب ، حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن عبد الكريم ، عن طاوس ، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: " لا تعب على من صام ولا على من افطر، قد صام رسول الله صلى الله عليه وسلم في السفر وافطر ".وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " لَا تَعِبْ عَلَى مَنْ صَامَ وَلَا عَلَى مَنْ أَفْطَرَ، قَدْ صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ وَأَفْطَرَ ".
ابو کریب، وکیع، سفیان، عبدالکریم، طاؤس، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم برا بھلا نہیں کہتے تھے کہ جو روزہ رکھے اور نہ ہی برا بھلا کہتے ہیں جو آدمی سفر میں روزہ نہ رکھے تحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزہ رکھا بھی اور روزہ افطار بھی کیاہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ روزے رکھنے والے کو برا نہ کہو اور نہ روزہ نہ رکھنے والے کو برا کہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزہ رکھا بھی ہے اور نہیں بھی رکھا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1113
   صحيح البخاري4277عبد الله بن عباسالمفطرون للصوام أفطروا
   صحيح البخاري4279عبد الله بن عباسصام حتى بلغ عسفان ثم دعا بإناء من ماء فشرب نهارا ليريه الناس فأفطر حتى قدم مكة قال صام رسول الله في السفر وأفطر فمن شاء صام ومن شاء أفطر
   صحيح البخاري2953عبد الله بن عباسصام حتى بلغ الكديد أفطر
   صحيح البخاري4276عبد الله بن عباسخرج في رمضان من المدينة ومعه عشرة آلاف وذلك على رأس ثمان سنين ونصف من مقدمه المدينة فسار هو ومن معه من المسلمين إلى مكة يصوم ويصومون حتى بلغ الكديد وهو ماء بين عسفان وقديد أفطر وأفطروا
   صحيح البخاري1944عبد الله بن عباسخرج إلى مكة في رمضان فصام حتى بلغ الكديد أفطر فأفطر الناس
   صحيح البخاري1948عبد الله بن عباسخرج رسول الله من المدينة إلى مكة فصام حتى بلغ عسفان ثم دعا بماء فرفعه إلى يديه ليريه الناس فأفطر حتى قدم مكة وذلك في رمضان
   صحيح مسلم2608عبد الله بن عباسسافر رسول الله في رمضان فصام حتى بلغ عسفان ثم دعا بإناء فيه شراب فشربه نهارا ليراه الناس ثم أفطر حتى دخل مكة
   صحيح مسلم2609عبد الله بن عباسصام رسول الله في السفر وأفطر
   صحيح مسلم2604عبد الله بن عباسخرج عام الفتح في رمضان فصام حتى بلغ الكديد ثم أفطر
   سنن أبي داود2404عبد الله بن عباسمن شاء صام ومن شاء أفطر
   سنن النسائى الصغرى2291عبد الله بن عباسصام في السفر حتى أتى قديدا ثم دعا بقدح من لبن فشرب فأفطر هو وأصحابه
   سنن النسائى الصغرى2316عبد الله بن عباسسافر رسول الله فصام حتى بلغ عسفان ثم دعا بإناء فشرب نهارا ليراه الناس ثم أفطر حتى دخل مكة فافتتح مكة في رمضان
   سنن النسائى الصغرى2315عبد الله بن عباسخرج رسول الله عام الفتح صائما في رمضان حتى إذا كان بالكديد أفطر
   سنن النسائى الصغرى2293عبد الله بن عباسصام حتى بلغ عسفان ثم دعا بإناء فشرب نهارا يراه الناس ثم أفطر
   سنن النسائى الصغرى2292عبد الله بن عباسصام حتى أتى عسفان فدعا بقدح فشرب في رمضان
   سنن النسائى الصغرى2290عبد الله بن عباسصام رسول الله من المدينة حتى أتى قديدا ثم أفطر حتى أتى مكة
   سنن النسائى الصغرى2289عبد الله بن عباسخرج في رمضان فصام حتى أتى قديدا ثم أتي بقدح من لبن فشرب وأفطر هو وأصحابه
   سنن ابن ماجه1661عبد الله بن عباسصام رسول الله في السفر وأفطر
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم248عبد الله بن عباسخرج إلى مكة عام الفتح فى رمضان فصام حتى بلغ الكديد ثم افطر فافطر الناس معه
   مسندالحميدي524عبد الله بن عباسأن النبي صلى الله عليه وسلم خرج من المدينة عام الفتح في شهر رمضان فصام حتى إذا بلغ الكديد أفطر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 248  
´سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا دونوں طرح جائز ہے`
«. . . عن ابن عباس: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى مكة عام الفتح فى رمضان فصام حتى بلغ الكديد ثم افطر فافطر الناس معه، وكانوا ياخذون بالاحدث فالاحدث من امر رسول الله صلى الله عليه وسلم . . .»
. . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فتح مکہ والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی طرف رمضان میں روانہ ہوئے تو آپ نے کدید (ایک مقام) تک روزے رکھے پھر آپ نے افطار کیا (روزے نہ رکھے) تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ افطار کیا اور لوگ (صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم اجمعین) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تازہ بہ تازہ حکم پر عمل کرتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 248]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1944، من حديث مالك به مختصراً ورواه الدارمي 1715، من حديث مالك به، ومسلم 1112، من حديث الزهري به]

تفقه:
➊ سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا دونوں طرح جائز ہے اگر سفر میں سخت مشقت ہے تو افطار افضل ہے اور نہ آسانی کی حالت میں روز ہ بہتر ہے۔ اس مسئلے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے لیکن یہی قول راجح ہے۔ والله اعلم
➋ ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ قصر کرتے رہے اور میں (نماز) پوری پڑھتی رہی، آپ افطار کر تے رہے اور میں روزے رکھتی رہی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! تم نے اچھا کیا ہے۔ [سنن النسائي: 121/3 ح 1457، وسنده صحيح]
● اس روایت پر حافظ ابن تیمیہ کی جرح مردود ہے۔
➌ سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما سفر میں روزہ نہیں رکھتے تھے۔ [الموطأ رواية يحييٰ 295/1 ح 663 و سنده صحيح]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سفر میں روزے رکھتی تھیں۔ [ابن ابي شيبه 16/3 ح 8980 سنده صحيح]
➍ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إن شئت فصم وإن شئت فأفطر» اگر تم چاہو تو روزہ رکھو اور اگر چاہو تو افطار کرو۔ [صحيح بخاري:1943، صحيح مسلم:1121، الاتحاف الباسم:465]

تنبیہ: التحاف الباسم سے یہی کتاب مراد ہے الموطأ امام مالک روایۃ ابن القاسم جس کے متن میں امام عبدالرحمٰن بن القاسم رحمہ اللہ کے بیان کردہ الموطأ کا نسخہ درج ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 50   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1661  
´سفر میں روزہ رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزہ رکھا بھی ہے، اور نہیں بھی رکھا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1661]
اردو حاشہ:
فائده:
جس سفر میں نماز قصر کرنا جائز ہے۔
اس میں مسافر کےلئے روزہ چھوڑنا بھی جائز ہے۔
خواہ سفر پیدل ہو یا سواری پر اور سواری خواہ گاڑی ہو یا ہوائی جہاز وغیرہ اور خواہ تھکاوٹ لاحق ہوتی ہو جس میں روزہ مشکل ہو یا تھکاوٹ لاحق نہ ہوتی۔
خواہ سفر میں بھوک پیاس لگتی ہے۔
یا نہ لگتی ہو۔
کیونکہ شریعت نے سفر میں نمازقصر کرنے اور روزہ چھوڑنے کی مطلق اجازت دی ہے۔
اور اس میں سواری کی نوعیت یا تھکاوٹ اور بھوک پیاس وغیرہ کی کوئی قید نہیں لگائی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ﴾  (البقرة: 184/2)
 تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہوتو وہ (رمضان کے علاوہ)
دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرلے۔
علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی عطا کردہ رخصتوں کو قبول کیا جائے جس طرح و ہ اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اس کی معصیت ونافرمانی کا ارتکاب کیاجائے۔ (مسند أحمد: 108/2)
 البتہ اگر روزہ رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو اور کوئی روزہ رکھ لے تو ا س میں کوئی حرج نہیں اور اگر تکلیف ہوتو پھر روزہ رکھنے سے احتراز کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1661   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2404  
´تاجر روزہ چھوڑ سکتا ہے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے یہاں تک کہ مقام عسفان پر پہنچے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پانی وغیرہ کا) برتن منگایا اور اسے اپنے منہ سے لگایا تاکہ آپ اسے لوگوں کو دکھا دیں (کہ میں روزے سے نہیں ہوں) اور یہ رمضان میں ہوا، اسی لیے ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ بھی رکھا ہے اور افطار بھی کیا ہے، تو جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2404]
فوائد ومسائل:
(1) یہ واقعہ فتح مکہ کے سفر کا ہے۔

(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص نے سفر میں صبح کو روزے کی نیت کی ہو تو شرعی عذر سے کسی وقت اگر وہ افطار کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2404   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2609  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
سفر میں روزہ رکھنے نہ رکھنے کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے۔

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما،
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ،
زہری رحمۃ اللہ علیہ،
نخعی رحمۃ اللہ علیہ،
اور ابن ظاہر رحمۃ اللہ علیہ،
کے نزدیک سفر میں فرض روزہ رکھنا جائز نہیں ہے اگر رکھے گا تو کفایت نہیں کرے گا اور اقامت (حضر)
میں اس کی قضاء لازم ہو گی۔

سعید ابن المسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ،
اسحاق رحمۃ اللہ علیہ،
اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ،
اور احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ،
کے نزدیک افطار افضل ہے۔

اگر رمضان اقامت میں شروع ہو گیا بعد میں سفر پر نکلا تو افطار جائز نہیں۔

اگر انسان روزہ رکھ سکتا ہے اور روزہ رکھنے سے تکلیف اور مشقت یا نقصان کا اندیشہ نہیں ہے تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام مالکِ رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
اور جمہور علماء کے نزدیک روزہ رکھنا افضل ہے اگر روزہ رکھنے سے تکلیف یا مشقت یا نقصان کا ڈر ہو تو روزہ نہ رکھنا افضل ہے۔

اختیار ہے کہ روزہ رکھے یا نہ رکھے۔

جس عمل میں سہولت اور آسانی ہو وہی افضل ہے یعنی اگر بعد میں قضاء مشکل ہو تو روزہ رکھنا افضل ہے اگر قضاء میں سہولت اور آسانی ہو تو یہ افضل ہے عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اور ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے صحیح بات یہی ہے کہ موقع اور محل کا لحاظ رکھا جائے گا اگر دشمن سے ٹکراؤ کا خطرہ ہے یا روزہ رکھنے میں حضرکے مقابلہ میں زائد تکلیف اور مشقت ہے یا عجب وریاء کا اندیشہ ہے یا دوسروں کے لیے بوجھ اور کلفت کا باعث بنے گا یا شرعی رخصت کو اہمیت نہیں دیتا یا اس کا عمل دوسروں کے لیے نمونہ بنتا ہے تو پھر روزہ نہ رکھنا افضل ہے اور اگر روزہ رکھنے میں تکلیف ومشقت یا ضرر کا اندیشہ نہیں یا بعد میں نہ رکھ سکنے کا خطرہ ہے یا سب ساتھیوں کے ساتھ روزہ رکھنے کی سہولت اور آسانی میسر ہے تو روزہ رکھنا افضل ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2609   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.