علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 561
´نفلی روزے اور جن دنوں میں روزہ رکھنا منع ہے`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دوسری راتوں میں سے جمعہ کی رات کو قیام کرنے کے لیے مخصوص نہ کرو اور نہ ہی دوسرے دنوں میں سے جمعہ کے دن کو روزہ رکھنے کے لیے مختص کرو سوائے اس کے کہ جمعہ کا دن ایسے دن آ جائے کہ جس دن تم میں سے کوئی ایک روزہ رکھتا ہو۔“ (مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 561]
561 فوائد و مسائل:
➊ «لَاتَخُصُّو يَوْمَ الْجُمَعَةِ» یعنی صرف جمعے کے دن کو روزے کے لیے مختص نہ کرو، اس لیے کہ جمعے کے دن عید ہے اور عید کے دن روزہ نہیں ہوتا۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ ممانعت تحریمی ہے مگر جمہور نے اسے نہی تنزیہی پر محمول کیا ہے، کیونکہ ترمذی میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حسن سند والی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت کم جمعے کا روزہ چھوڑتے تھے۔ [جامع الترمذي، الصوم، باب ماجاء فى صوم يوم الجمعة، حديث: 742]
مگر اس میں احتمال ہے کہ شاید اس کے ساتھ آپ ایک دن پہلے یا بعد میں بھی روزہ رکھتے ہوں گے۔
➋ یاد رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاریب جمعے کو عید کا دن فرمایا ہے مگر عید اور جمعے میں اتنا فرق ضرور ہے کہ عید کے دن روزہ رکھنا بالکل ناجائز ہے، کسی طرح بھی جائز نہیں حتیٰ کہ اس سے ایک دن پہلے یا بعد والے دن میں روزہ رکھنے سے بھی جائز نہیں ہوتا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن روزہ رکھنے سے مطلقاً منع فرمایا ہے جبکہ جمعہ میں یہ صورت بالاتفاق جائز ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کی اجازت دی ہے جیسا کہ اس کے بعد والی حدیث میں آ رہا ہے۔ ٭
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 561