الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
The Book of Pilgrimage
1. باب مَا يُبَاحُ لِلْمُحْرِمِ بِحَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ وَمَا لاَ يُبَاحُ وَبَيَانِ تَحْرِيمِ الطِّيبِ عَلَيْهِ:
1. باب: اس بات کا بیان کہ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والے کے لئے کیا چیز جائز ہے اور کیا ناجائز ہے؟ اور اس پر خوشبو کے حرام ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2800
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم . ح وحدثنا عبد بن حميد ، اخبرنا محمد بن بكر ، قالا: اخبرنا ابن جريج . ح وحدثنا علي بن خشرم واللفظ له، اخبرنا عيسى ، عن ابن جريج ، قال: اخبرني عطاء ، ان صفوان بن يعلى بن امية اخبره، ان يعلى كان يقول لعمر بن الخطاب رضي الله عنه: ليتني ارى نبي الله صلى الله عليه وسلم حين ينزل عليه، فلما كان النبي صلى الله عليه وسلم بالجعرانة، وعلى النبي صلى الله عليه وسلم ثوب قد اظل به عليه، معه ناس من اصحابه فيهم عمر، إذ جاءه رجل عليه جبة صوف متضمخ بطيب، فقال: يا رسول الله، كيف ترى في رجل احرم بعمرة في جبة بعد ما تضمخ بطيب؟ فنظر إليه النبي صلى الله عليه وسلم ساعة، ثم سكت فجاءه الوحي، فاشار عمر بيده إلى يعلى بن امية تعال، فجاء يعلى فادخل راسه فإذا النبي صلى الله عليه وسلم محمر الوجه، يغط ساعة ثم سري عنه، فقال: " اين الذي سالني عن العمرة آنفا "، فالتمس الرجل فجيء به، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " اما الطيب الذي بك فاغسله ثلاث مرات، واما الجبة فانزعها، ثم اصنع في عمرتك ما تصنع في حجك ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا عِيسَى ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ يَعْلَى كَانَ يَقُولُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَيْتَنِي أَرَى نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يُنْزَلُ عَلَيْهِ، فَلَمَّا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجِعْرَانَةِ، وَعَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَوْبٌ قَدْ أُظِلَّ بِهِ عَلَيْهِ، مَعَهُ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فِيهِمْ عُمَرُ، إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ عَلَيْهِ جُبَّةُ صُوفٍ مُتَضَمِّخٌ بِطِيبٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَرَى فِي رَجُلٍ أَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ فِي جُبَّةٍ بَعْدَ مَا تَضَمَّخَ بِطِيبٍ؟ فَنَظَرَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً، ثُمَّ سَكَتَ فَجَاءَهُ الْوَحْيُ، فَأَشَارَ عُمَرُ بِيَدِهِ إِلَى يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ تَعَالَ، فَجَاءَ يَعْلَى فَأَدْخَلَ رَأْسَهُ فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْمَرُّ الْوَجْهِ، يَغِطُّ سَاعَةً ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ، فَقَالَ: " أَيْنَ الَّذِي سَأَلَنِي عَنِ الْعُمْرَةِ آنِفًا "، فَالْتُمِسَ الرَّجُلُ فَجِيءَ بِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَّا الطِّيبُ الَّذِي بِكَ فَاغْسِلْهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَأَمَّا الْجُبَّةُ فَانْزِعْهَا، ثُمَّ اصْنَعْ فِي عُمْرَتِكَ مَا تَصْنَعُ فِي حَجِّكَ ".
۔ ابن جریج نے کہا: مجھے عطاء نے خبر دی کہ صفوان بن یعلیٰ رضی اللہ عنہ بن امیہ نے انھیں خبر دی کہ یعلیٰ رضی اللہ عنہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہاکرتے تھے: کاش!میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھوں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پروحی نازل ہورہی ہو۔ (ایک مرتبہ) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک کپڑے سےسایہ کیاگیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی تھے۔جن میں عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا۔اس نے خوشبوسےلت پت جبہ پہنا ہواتھا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شخص کے بارے میں کیا خیا ل ہے۔جس نےاچھی طرح خوشبولگاکر جبے میں عمرے کا احرام باندھاہے۔؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر اس کی طرف دیکھا، پھرسکوت اختیار فرمایا تو (اس اثناء میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوناشروع ہوگئی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ سے یعلیٰ رضی اللہ عنہ کو اشارہ کیا، ادھرآؤ یعلیٰ رضی اللہ عنہ آگئے اور اپنا سر (چادر) میں داخل کردیا۔ادھر آؤ، یعلیٰ رضی اللہ عنہ آگئے اور پنا سر (چادر) میں داخل کردیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سرخ ہورہاتھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر بھاری بھاری سانس لیتے رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ کیفیت دور ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ شخص کہاں ہے جس نے ابھی مجھ سے عمرے کے متعلق سوال کیا تھا؟"آدمی کو تلاش کرکے حاضر کیا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " وہ خوشبو جو تم نے لگا رکھی ہے۔اسے تین مرتبہ دھو لو اور یہ جبہ (لباس)، اسے اتار دو، پھر اپنے عمرے میں ویسے ہی کرو جیسے تم اپنے حج میں کرتے ہو۔"
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے بیان کرتے ہیں کہ صفوان بن یعلیٰ بن امیہ نے عطا کو بتایا، کہ یعلیٰ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے کہتے تھے کہ کاش میں نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھوں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی ہو تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپڑے کا سایہ کیا گیا تھا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ساتھی، آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جن میں عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے، اچانک آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، جو جبہ پہنے ہوئے تھا اور خوشبو سے لت پت تھا تو اس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپصلی اللہ علیہ وسلم کا اس انسان کے بارے میں کیا ارشاد ہے، جس نے عمرہ کا احرام ایک جبہ میں، خوشبو سے معطر ہو کر باندھا؟ کچھ وقت آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا، پھر خاموش ہو گئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہو گیا، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ہاتھ سے یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اشارہ سے کہا: آؤ تو یعلیٰ رضی اللہ تعالی عنہ آ گئے اور اپنا سر (کپڑے کے) اندر داخل کر دیا، ناگہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سرخ تھا، کچھ وقت تک آپصلی اللہ علیہ وسلم خراٹے لیتے رہے پھر یہ کیفیت دور ہو گئی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہاں ہے وہ جس نے ابھی مجھ سے عمرہ کے بارے میں دریافت کیا تھا؟ اس آدمی کو تلاش کر کے لایا گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ خوشبو جو تیرے جسم پر ہے، اس کو تین دفعہ دھو ڈالو اور جبہ کو اتار دو، پھر اپنے عمرہ میں وہی کام کرو جو اپنے حج میں کرتے ہو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1180
   صحيح البخاري4985يعلى بن أميةليتني أرى رسول الله حين ينزل عليه الوحي فجاءه الوحي فأشار عمر إلى يعلى أن تعال فجاء يعلى فأدخل رأسه فإذا هو محمر الوجه يغط كذلك ساعة ثم سري عنه أين الذي يسألني عن العمرة آنفا أما الطيب الذي بك فاغسله ثلاث مرات وأما الجبة فانزعها ثم اصنع في عمرتك كما تصنع
   صحيح البخاري4329يعلى بن أميةليتني أرى رسول الله حين ينزل عليه فأشار عمر إلى يعلى بيده أن تعال فجاء يعلى فأدخل رأسه فإذا النبي محمر الوجه يغط كذلك ساعة ثم سري عنه أين الذي يسألني عن العمرة آنفا أما الطيب الذي بك فاغسله ثلاث مرات وأما الجبة فانزعها ثم اصنع في عمرتك كما تصنع في حجك
   صحيح البخاري1789يعلى بن أميةأيسرك أن تنظر إلى النبي وقد أنزل الله عليه الوحي قلت نعم فرفع طرف الثوب فنظرت إليه له غطيط كغطيط البكر فلما سري عنه قال أين السائل عن العمرة اخلع عنك الجبة واغسل أثر الخلوق عنك وأنق الصفرة واصنع في عمرتك كما تصنع في حجك
   صحيح البخاري1847يعلى بن أميةاصنع في عمرتك ما تصنع في حجك وعض رجل يد رجل فانتزع ثنيته فأبطله النبي
   صحيح مسلم2800يعلى بن أميةليتني أرى نبي الله حين ينزل عليه فجاءه الوحي فأشار عمر بيده إلى يعلى بن أمية تعال فجاء يعلى فأدخل رأسه فإذا النبي محمر الوجه يغط ساعة ثم سري عنه أين الذي سألني عن العمرة آنفا أما الطيب الذي بك فاغسله ثلاث مرات وأما الجبة فانزعها ثم اصنع في عمرتك ما تصنع ف
   صحيح مسلم2798يعلى بن أميةأيسرك أن تنظر إلى النبي وقد أنزل عليه الوحي فرفع عمر طرف الثوب فنظرت إليه له غطيط كغطيط البكر فلما سري عنه قال أين السائل عن العمرة اغسل عنك أثر الصفرة واخلع عنك جبتك واصنع في عمرتك ما أنت صانع في حجك
   صحيح مسلم2802يعلى بن أميةانزع عنك جبتك واغسل أثر الخلوق الذي بك وافعل في عمرتك ما كنت فاعلا في حجك
   صحيح مسلم2801يعلى بن أميةانزع عنك الجبة واغسل عنك الصفرة وما كنت صانعا في حجك فاصنعه في عمرتك
   صحيح مسلم2799يعلى بن أميةأنزع عني هذه الثياب وأغسل عني هذا الخلوق ما كنت صانعا في حجك فاصنعه في عمرتك
   سنن أبي داود1819يعلى بن أميةرجلا أتى النبي وعليه أثر خلوق وعليه جبة قال كيف تأمرني أن أصنع في عمرتي فأنزل الله تبارك و على النبي الوحي فلما سري عنه قال أين السائل عن العمرة قال اغسل عنك أثر الخلوق واخلع الجبة عنك واصنع في عمرتك ما صنعت في حجتك
   سنن النسائى الصغرى2710يعلى بن أميةأتقي هذا وأغسله ما كنت صانعا في حجك فاصنعه في عمرتك
   سنن النسائى الصغرى2711يعلى بن أميةانزع عنك الجبة واغسل عنك الصفرة وما كنت صانعا في حجتك فاصنعه في عمرتك
   صحيح البخاري1790يعلى بن أميةإن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما
   مسندالحميدي808يعلى بن أميةما كنت تصنع في حجك؟
   مسندالحميدي809يعلى بن أميةأين السائل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4985  
´قرآن مجید قریش اور عرب کے محاورہ میں نازل ہوا`
«. . . أَخْبَرَنِي صَفْوَانُ بْنُ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، أَنَّ يَعْلَى، كَانَ يَقُولُ: لَيْتَنِي أَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يُنْزَلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ، فَلَمَّا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجِعْرَانَةِ وعَلَيْهِ ثَوْبٌ قَدْ أَظَلَّ عَلَيْهِ وَمَعَهُ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ مُتَضَمِّخٌ بِطِيبٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَرَى فِي رَجُلٍ أَحْرَمَ فِي جُبَّةٍ بَعْدَ مَا تَضَمَّخَ بِطِيبٍ؟ فَنَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً، فَجَاءَهُ الْوَحْيُ، فَأَشَارَ عُمَرُ إِلَى يَعْلَى أَنْ تَعَالَ، فَجَاءَ يَعْلَى، فَأَدْخَلَ رَأْسَهُ، فَإِذَا هُوَ مُحْمَرُّ الْوَجْهِ يَغِطُّ كَذَلِكَ سَاعَةً، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ، فَقَالَ: أَيْنَ الَّذِي يَسْأَلُنِي عَنِ الْعُمْرَةِ آنِفًا؟ فَالْتُمِسَ الرَّجُلُ، فَجِيءَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَمَّا الطِّيبُ الَّذِي بِكَ فَاغْسِلْهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَأَمَّا الْجُبَّةُ فَانْزِعْهَا، ثُمَّ اصْنَعْ فِي عُمْرَتِكَ كَمَا تَصْنَعُ فِي حَجِّكَ . . .»
. . . مجھے صفوان بن یعلیٰ بن امیہ نے خبر دی کہ (میرے والد) یعلیٰ کہا کرتے تھے کہ کاش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھتا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی ہو۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام جعرانہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر کپڑے سے سایہ کر دیا گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے چند صحابہ موجود تھے کہ ایک شخص کے بارے میں کیا فتویٰ ہے۔ جس نے خوشبو میں بسا ہوا ایک جبہ پہن کر احرام باندھا ہو۔ تھوڑی دیر کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنا شروع ہو گئی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یعلیٰ کو اشارہ سے بلایا۔ یعلیٰ آئے اور اپنا سر (اس کپڑے کے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سایہ کیا گیا تھا) اندر کر لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اس وقت سرخ ہو رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے سانس لے رہے تھے، تھوڑی دیر تک یہی کیفیت رہی۔ پھر یہ کیفیت دور ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ جس نے ابھی مجھ سے عمرہ کے متعلق فتویٰ پوچھا تھا وہ کہاں ہے؟ اس شخص کو تلاش کر کے آپ کے پاس لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ جو خوشبو تمہارے بدن یا کپڑے پر لگی ہوئی ہے اس کو تین مرتبہ دھو لو اور جبہ کو اتار دو پھر عمرہ میں بھی اسی طرح کرو جس طرح حج میں کرتے ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ: 4985]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4985 کا باب: «بَابُ نَزَلَ الْقُرْآنُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ وَالْعَرَبِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت مشکل ہے، کیوں ترجمۃ الباب میں قرآن مجید کا قریشی اور عربی زبان میں نازل ہونے کی وضاحت کی جا رہی ہے، جس حدیث کو پیش کیا گیا ہے اس کا تعلق قرآن مجید کے نزول سے نہیں ہے۔

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بین طور پر یہ اقرار کیا کہ:
«قد خفي دخول هذا الحديث فى هذا الباب على كثير من الائمة حتي قال ابن كثير فى تفسيره ذكر هذا الحديث فى الترجمة التى قبل هذه اظهر وابين» [فتح الباري لابن حجر: 9/10]
یقیناً کئی ائمہ پر یہ بات مخفی رہی کہ یہاں پر ترجمۃ الباب سے حدیث کی کیا مناسبت ہو گی یہاں تک کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں کہا کہ، اس حدیث کا تعلق اس باب کے ساتھ ہے جو اس سے قبل ہے، یہ زیادہ ظاہر اور واضح ہے۔

بعضے علماء نے یہاں تک کہا کہ اس حدیث کو درج کرنے میں اس جگہ پر کا تب سے غلطی ہو گئی ہے، کیوں کہ اس حدیث کا تعلق سابقہ باب سے ہے۔ لیکن جب غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اس حدیث کو «نزل القرآن بلسان القريش العرب» میں لانے سے امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ کا بڑا مقصد ہے، جس کو وہ تحت الباب اور ترجمۃ الباب کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں اور اسی حل میں ترجمۃ الباب اور تحت الباب جو حدیث سیدنا لیلیٰ رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائی ہے اسی میں مناسبت موجود ہے۔

ابن المنیر رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«كان ادخال هذا الحديث فى الباب الذى قبله اليق، لكن لعله قصة التنبيه على ان الوحي بالقرآن والسنة كان على صفة واحدة، وبلسان واحد .» [المتوري على ابواب البخاري: ص 387]
اس حدیث کا تعلق پچھلے باب سے ہے، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کا ارادہ اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کی وحی چاہے قرآن مجید کی ہو یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو، ان دونوں کا تعلق زبان کے اعتبار سے ایک ہی صفت کے ساتھ ہے۔
ابن منیر رحمہ اللہ کی وضاحت سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید اور حدیث رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں کا تعلق زبان عربی سے ہے اور صفت کے اعتبار سے دونوں ایک ہی ہیں، یعنی امام بخاری رحمہ اللہ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ قرآن اور حدیث کا تعلق ایک شئی کے ساتھ ملحق ہے اور وہ شئی وحی ہے، جو من جانب اللہ ہوا کرتی ہے۔

ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مناسبة الحديث للترجمة: ان الوحي كله متلوا كان او غير متلو، انما نزل بلسان العرب» [شرح ابن بطال 218/10]
حدیث کی مناسبت باب سے یہ ہے کہ وحی کا مکمل دارومدار متلو یا غیر متلو (حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم) پر ہے اور یقیناً یہ دونوں وحی عربی زبان میں نازل ہوئیں۔

علامہ عینی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
اس حدیث کو تحت الباب میں لانے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ اس بات پر تنبیہ کرنا کہ قرآن اور حدیث ان دونوں کا تعلق وحی کے ساتھ وابستہ ہے، جو کہ اس ایک ہی زبان میں نازل ہوئے۔ [عمدة القاري للعيني: 10/20]

امام قسطلانی رحمہ اللہ نے بھی قریب قریب یہی مناسبت دی ہے۔ [ارشاد الساري: 8/9]

امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«ومناسبة حديثه للباب الاشارة الي ان القرآن نزل بلسان العرب مطلقاً قريش وغيرهم، لان السائل من غير قريش، وقد نزل الوحي فى جواب سؤاله بما يفهمه .» [التوشيح شرح الجامع الصحيح: 3199/7]
ترجمۃ الباب اور حدیث کی مناسبت اس اشارہ میں ہے کہ قرآن مجید مطلق طور پر عربی اور قریش وغیرھم کی زبان میں نازل ہوا، کیوں کہ سائل (جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا) وہ قریشی نہ تھا اور یقیناً وحی کے ذریعے اسے سوال کا جواب اس طرح دیا گیا کہ وہ (جواب) کو سمجھے۔
امام سیوطی رحمہ اللہ کے جواب سے مناسبت کچھ یوں ہوئی کہ قرآن مجید جس طرح قریشی زبان اور اس کے علاوہ دوسرے عرب لہجے کی زبان میں نازل ہوا ہے، بعین حدیث وحی کے ذریعے بھی غیر قریشی زبان کے ذریعے لوگوں کے سوالات کے جوابات نازل کئے جاتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر۔

مزید اگر غور کیا جائے تو ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت دوسرے پہلو سے بھی بنتی ہے، سیدنا صفوان بن یعلی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی کیفیت کا ذکر ہے اور یہ کیفیت وحی کے نزول کی طرف دلالت کرتی ہے، یعنی امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت فرما رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جس طرح قرآن نازل ہوتا تھا، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حدیث بھی نازل ہوا کرتی تھی، اگرچہ وحی کی مختلف کیفیات ہیں، تاہم ان تمام وحی کا تعلق من جانب اللہ ہوا کرتا ہے، چاہے وہ قرآنی وحی ہو، یا غیر قرآنی، پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 73   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1819  
´آدمی سلے ہوئے کپڑے میں احرام باندھ لے تو اس کے حکم کا بیان۔`
یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ جعرانہ میں تھے، اس کے بدن پر خوشبو یا زردی کا نشان تھا اور وہ جبہ پہنے ہوئے تھا، پوچھا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کس طرح عمرہ کرنے کا حکم دیتے ہیں؟ اتنے میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کی، جب وحی اتر چکی تو آپ نے فرمایا: عمرے کے بارے میں پوچھنے والا کہاں ہے؟ فرمایا: خلوق کا نشان، یا زردی کا نشان دھو ڈالو، جبہ اتار دو، اور عمرے میں وہ سب کرو جو حج میں کرتے ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1819]
1819. اردو حاشیہ:
➊ جعرانہ جیم کےکسرہ اورعین کےسکون کےساتھ یاجیم اور عین دونوں کے کسرہ اور راء مشدد کےساتھ۔مکہ سے مدینہ آنے والےراستے سے دائیں جانب کچھ دور ہٹ کر ایک منزل کا نام ہے۔یہاں آپ نے حنین کا مال غنیمت تقسیم فرمایت تھا یہیں سے احرام باندھ کر ایک عمرہ کیا تھا۔
➋ احرام باندھتے وقت خوشبو لگانا جائز ہے خواہ بعدازاں اس کا اثر بھی باقی رہے۔مگر زعفران اورز ردرنگ یک خوشبو عام حالات میں بھی ممنوع ہے تو احرام میں احرم میں زیادہ ہی منع ہے۔
➌ مرد کےلیے سلےہوئے لباس میں احرام نہیں صرف دو چادریں ہونی چاہئیں۔
➍ لباس اتارتے ہوئے یا اتفاقاً سر پر کپڑا آپڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
➎ حج اور عمرے کے احرم کے احکام ایک ہی ہیں۔مزید یہ بھی ثابت ہوا کہ ممنوعات سے بچنا بھی ایک عمل ہوتا ہے۔
➏ شریعت سراسر منزل من اللہ اور وحی شدہ ہے۔ <قرآن> ﴿ وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ* إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ﴾ (سورة النجم:3، 4)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1819   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.