الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
The Book of Pilgrimage
50. باب رَمْيِ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي وَتَكُونُ مَكَّةُ عَنْ يَسَارِهِ وَيُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ:
50. باب: بطن وادی سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے، اور مکہ کو اپنے بائیں طرف کرنے، اور ہر ایک کنکری مارنے کے ساتھ تکبیر کہنے کا بیان۔
Chapter: Stoning Jamrat Al-'Aqabah from the bottom of the valley; Makkah should be on to one's left and one should say Takbir with each throw
حدیث نمبر: 3132
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا منجاب بن الحارث التميمي ، اخبرنا ابن مسهر ، عن الاعمش ، قال: سمعت الحجاج بن يوسف، يقول، وهو يخطب على المنبر: الفوا القرآن كما الفه جبريل، السورة التي يذكر فيها البقرة، والسورة التي يذكر فيها النساء، والسورة التي يذكر فيها آل عمران، قال: فلقيت إبراهيم ، فاخبرته بقوله، فسبه، وقال: حدثني عبد الرحمن بن يزيد ، انه كان مع عبد الله بن مسعود ، فاتى جمرة العقبة، فاستبطن الوادي، فاستعرضها فرماها من بطن الوادي بسبع حصيات، يكبر مع كل حصاة، قال: فقلت: يا ابا عبد الرحمن: إن الناس يرمونها من فوقها، فقال: هذا والذي لا إله غيره مقام الذي انزلت عليه سورة البقرة ".وحَدَّثَنَا مِنْجَابُ بْنُ الْحَارِثِ التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ مُسْهِرٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ بْنَ يُوسُفَ، يَقُولُ، وَهُوَ يَخْطُبُ عَلَى الْمِنْبَرِ: أَلِّفُوا الْقُرْآنَ كَمَا أَلَّفَهُ جِبْرِيلُ، السُّورَةُ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا الْبَقَرَةُ، وَالسُّورَةُ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا النِّسَاءُ، وَالسُّورَةُ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا آلُ عِمْرَانَ، قَالَ: فَلَقِيتُ إِبْرَاهِيمَ ، فَأَخْبَرْتُهُ بِقَوْلِهِ، فَسَبَّهُ، وَقَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، فَأَتَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ، فَاسْتَبْطَنَ الْوَادِي، فَاسْتَعْرَضَهَا فَرَمَاهَا مِنْ بَطْنِ الْوَادِي بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ: إِنَّ النَّاسَ يَرْمُونَهَا مِنْ فَوْقِهَا، فَقَالَ: هَذَا وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ مَقَامُ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ ".
ابن مسہر نے مجھے اعمش سے خبر دی (انھوں نے) کہا: میں نے حجا ج بن یو سف سے سنا وہ منبر پر خطبہ دیتے ہو ئے کہہ رہا تھا: قرآن کی وہی ترتیب رکھو جو جبریلؑ نے رکھی (نیز سورہ بقرہ کہنے کے بجا ئے کہو) وہ سورت جس میں بقر ہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ سورت جس میں نساء کا تذکرہ ہے وہ سورت جس میں آل عمران کا تذکرہ ہے۔ (اعمش نے) کہا اس کے بعد میں ابر اہیم سے ملا، میں نے انھیں اس کی بات سنائی تو انھوں نے اس پر سب وشتم کیا اور کہا: مجھ سے عبد الرحمٰن بن یزید نے حدیث بیان کی کہ وہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔۔وہ جمرہ عقبہ کے پاس آئے وادی کے اندر کھڑے ہو ئے اس (جمرہ) کو چوڑا ئی کے رخ اپنے سامنے رکھا اس کے بعد وادی کے اندر سے اس کو سات کنکریاں ماریں وہ ہر کنکریکے ساتھ اللہ اکبر کہتے تھے کہا: میں نے عرض کی: ابو عبد الرحمٰن کچھ لو گ اس کے اوپر (کی طرف) سے اسے کنکریاں مارتے ہیں انھوں نے کہا اس ذات کی قسم!جس کے سوا کوئی معبود نہیں!یہی اس ہستی کے کھڑے ہو نے کی جگہ ہے جس پر سورہ بقرہ نازل ہو ئی۔
امام اعمش سے روایت ہے، میں نے حجاج بن یوسف سے سنا، جبکہ وہ منبر پر خطبہ دے رہا تھا، قرآن کو اس طرح مرتب کرو، جس طرح اسے جبریل علیہ السلام نے مرتب کیا تھا، وہ سورۃ جس میں بقرہ کا تذکرہ ہے، وہ سورۃ جس میں عورتوں (نساء) کا تذکرہ ہے، وہ سورہ جس میں آل عمران کا تذکرہ کیا گیا ہے، اعمش کہتے ہیں، میری ابراہیم سے ملاقات ہوئی، میں نے اسے حجاج کی بات بتائی، اس نے حجاج کو برا بھلا کہا، اور کہا، مجھے عبدالرحمٰن بن یزید نے بتایا، کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا، وہ جمرہ عقبہ کے پاس آئے، وادی کے اندر چلے گئے، اور جمرہ عقبہ کی طرف رخ کر کے وادی کے اندر سے سات کنکریاں ماریں، وہ ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے تھے، میں نے پوچھا، اے ابو عبدالرحمٰن! لوگ تو جمرہ کے اوپر سے کنکریاں مارتے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا، اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں، یہی جگہ ہے، (جہاں سے) اس ذات نے کنکریاں ماریں، جن پر سورۃ بقرہ اتری تھی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1296
   صحيح البخاري1748عبد الله بن مسعودانتهى إلى الجمرة الكبرى جعل البيت عن يساره ومنى عن يمينه ورمى بسبع
   صحيح البخاري1747عبد الله بن مسعودناسا يرمونها من فوقها
   صحيح البخاري1750عبد الله بن مسعودمن ههنا والذي لا إله غيره قام الذي أنزلت عليه سورة البقرة
   صحيح مسلم3134عبد الله بن مسعودرمى الجمرة بسبع حصيات وجعل البيت عن يساره ومنى عن يمينه
   صحيح مسلم3131عبد الله بن مسعودرمى جمرة العقبة من بطن الوادي بسبع حصيات يكبر مع كل حصاة قال فقيل له إن أناسا يرمونها من فوقها
   صحيح مسلم3132عبد الله بن مسعودأتى جمرة العقبة فاستبطن الوادي فاستعرضها رماها من بطن الوادي بسبع حصيات يكبر مع كل حصاة
   صحيح مسلم3136عبد الله بن مسعودمن ها هنا والذي لا إله غيره رماها الذي أنزلت عليه سورة البقرة
   جامع الترمذي901عبد الله بن مسعودمن هاهنا رمى الذي أنزلت عليه سورة البقرة
   سنن أبي داود1974عبد الله بن مسعودجعل البيت عن يساره ومنى عن يمينه ورمى الجمرة بسبع حصيات
   سنن ابن ماجه3030عبد الله بن مسعودمن هاهنا والذي لا إله غيره رمى الذي أنزلت عليه سورة البقرة
   سنن النسائى الصغرى3072عبد الله بن مسعودمن ههنا والذي لا إله غيره رمى الذي أنزلت عليه سورة البقرة
   سنن النسائى الصغرى3073عبد الله بن مسعودها هنا مقام الذي أنزلت عليه سورة البقرة
   سنن النسائى الصغرى3074عبد الله بن مسعودها هنا والذي لا إله غيره مقام الذي أنزلت عليه سورة البقرة
   سنن النسائى الصغرى3075عبد الله بن مسعودها هنا والذي لا إله غيره رأيت الذي أنزلت عليه سورة البقرة رمى
   بلوغ المرام627عبد الله بن مسعودانه جعل البيت عن يساره ومني عن يمينه ورمى الجمرة بسبع حصيات
   مسندالحميدي111عبد الله بن مسعودمن هاهنا والذي لا إله غيره رأيت الذي أنزلت عليه سورة البقرة رماها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3030  
´جمرہ عقبہ پر کہاں سے کنکریاں ماری جائیں؟`
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمرہ عقبہ کے پاس آئے تو وادی کے نچلے حصے میں گئے، کعبہ کی طرف رخ کیا، اور جمرہ عقبہ کو اپنے دائیں ابرو پر کیا، پھر سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے جاتے تھے پھر کہا: قسم اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، یہیں سے اس ذات نے کنکری ماری ہے جس پر سورۃ البقرہ نازل کی گئی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3030]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ابرو کے مقابل رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ بالکل سامنے کھڑے نہیں ہوئے بلکہ تھوڑا سا ہٹ کر کھڑے ہوئے۔

(2)
  رمی کرتے وقت کنکریاں ایک ایک مارنی چاہییں۔

(3)
ہر کنکری مارتے وقت الله اكبر کہنا چاہیے۔

(4)
اس حدیث میں ہے کہ کعبہ کی طرف منہ کیا جب کہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیت اللہ کو بائیں طرف اور منی کو دائیں طرف رکھا۔ (صحيح البخاري، الحج، باب من رمي جمرة العقبة فجعل البيت عن يساره، حديث: 1749)
حافظ ابن حجر ؒ نے صحیح بخاری کی روایت کو ترجیح دی ہےلیکن یہ بھی فرمایا ہے:
اس بات پر اجماع ہے کہ جہاں بھی کھڑے ہوکر رمی کرے جائز ہےخواہ اس کی طرف منہ کرے یا اسے دائیں بائیں رکھے۔
اس کی اوپر کی سمت سے یا نیچے کی سمت سے یا درمیان سے (فتح الباري3/ 734)

(5)
سورۃ بقرہ کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ اس میں حج کے بہت سے مسائل مذکور ہیں، مطلب یہ ہے کہ قرآن کے احکام کا مطلب رسول اللہ ﷺ بہتر طور پر سمجھتے تھے اس لیے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے عمل کیا ہےہمیں بھی اسی طرح کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3030   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 627  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ انہوں نے بیت اللہ کو اپنی بائیں جانب اور منٰی کو اپنی دائیں جانب رکھا اور جمرہ کو سات سنگریزے مارے اور فرمایا کہ یہ ان (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جن پر سورۃ «البقره» کا نزول ہوا تھا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 627]
627 لغوی تشریح:
«رمى الجمرة» اس جمرہ سے جمرۃ العقبہ مراد ہے۔
«انزلت عليه سورة البقرة» سورہ بقرہ کا بالخصوص ذکر اس لیے کیا کہ حج کے اکثر احکام اس میں بیان ہوئے ہیں۔ گویا اس سے اس پر متنبہ اور خبردار کرنا مقصود ہے کہ حج کے اعمال توفیقی ہیں۔ ان میں رد و بدل اور ترمیم و تنسیخ کی کوئی گنجائش نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 627   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1974  
´رمی جمرات کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ جمرہ کبری (جمرہ عقبہ) کے پاس آئے تو بیت اللہ کو اپنے بائیں جانب اور منیٰ کو دائیں جانب کیا اور جمرے کو سات کنکریاں ماریں، اور کہا: اسی طرح اس ذات نے بھی کنکریاں ماری تھیں جس پر سورۃ البقرہ نازل کی گئی۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1974]
1974. اردو حاشیہ: اور یہ وہی منظر ہے جس کا ذکر دیگر احادیث میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے وادی کے دامن میں سے کنکریاں ماریں(صحیح البخاری الحج حدیث:1750]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1974   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3132  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حجاج بن یوسف کا مؤقف یہ تھا کہ سورہ بقرہ،
سورہ نساء یا سورہ آل عمران نہیں کہنا چاہیے،
بلکہ یہ کہنا چاہیے وہ سورۃ جس میں بقرہ کا تذکرہ ہے،
وہ سورہ جس میں نساء کا تذکرہ ہے،
وہ سورہ جس میں آل عمران کا ذکر ہے۔
امام ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ہے اس تکلف کی کیا ضرورت ہے جب کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سورۃ بقرہ،
سورۃ نساء وغیرہ کے نام سے یاد کیا ہے باقی قرآن مجید کی سورتوں اور آیات کی ترتیب اور مصحف کی اشاعت تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔
حجاج بن یوسف بنوامیہ کا گورنر ہو کر اس کی مخالفت کیسے کر سکتا تھا اور آیات وسورتوں کی ترتیب توفیقی ہے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرئیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مطابق آیتوں اور سورتوں کو مرتب کیا صرف سورہ انفال اور سورۃ توبہ کے بارے میں اختلاف ہے کہ ان کی ترتیب توفیقی ہے یا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اجتہاد ہے۔
اورکنکریاں مارنا جمہور کے نزدیک واجب ہے،
اگر کسی شخص نے جمرہ عقبہ کو کنکریاں نہیں ماریں حتی کہ ایام تشریق بھی گزر گئے تو اس کا حج صحیح ہو گا لیکن اس کو ایک جانورقربان کرنا ہوگا۔
احناف کا مؤقف بھی یہی ہے لیکن بعض مالکیوں کے نزدیک رمی رکن ہے اس لیے اس کے بغیر حج نہیں ہو گا۔
کنکریاں مارنے والا عقبہ کی طرف رخ کر کے اس طرح کھڑا ہو گا کہ مکہ مکرمہ اس کے بائیں ہو اور منیٰ دائیں۔
اب وادی کے اندر سے مارنے کا مسئلہ نہیں رہا کیونکہ وہاں صاف شفاف سڑکیں بن چکی ہیں۔
اب کنکریاں اللہ اکبر کہہ کر الگ الگ جمرہ کے دائرہ کے اندر پھینکنی ہوں گی،
اگرسب کنکریاں بیک بار پھینک دے گا،
تو ائمہ اربعہ کے نزدیک ایک کنکری شمار ہو گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3132   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.