الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا
The Book of Musaqah
18. باب بَيْعِ الطَّعَامِ مِثْلاً بِمِثْلٍ:
18. باب: برابر برابر اناج کی بیع۔
حدیث نمبر: 4086
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني عمرو الناقد ، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن سعيد الجريري ، عن ابي نضرة ، قال: " سالت ابن عباس عن الصرف، فقال: ايدا بيد، قلت: نعم، قال: فلا باس به، فاخبرت ابا سعيد، فقلت: إني سالت ابن عباس ، عن الصرف، فقال: ايدا بيد، قلت: نعم، قال: فلا باس به، قال: او قال ذلك: إنا سنكتب إليه، فلا يفتيكموه، قال: فوالله لقد جاء بعض فتيان رسول الله صلى الله عليه وسلم بتمر، فانكره، فقال: كان هذا ليس من تمر ارضنا، قال: كان في تمر ارضنا او في تمرنا العام بعض الشيء، فاخذت هذا وزدت بعض الزيادة، فقال: اضعفت اربيت لا تقربن هذا إذا رابك من تمرك شيء، فبعه ثم اشتر الذي تريد من التمر ".حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، قَالَ: " سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنِ الصَّرْفِ، فَقَالَ: أَيَدًا بِيَدٍ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَلَا بَأْسَ بِهِ، فَأَخْبَرْتُ أَبَا سَعِيدٍ، فَقُلْتُ: إِنِّي سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، عَنِ الصَّرْفِ، فَقَالَ: أَيَدًا بِيَدٍ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَلَا بَأْسَ بِهِ، قَالَ: أَوَ قَالَ ذَلِكَ: إِنَّا سَنَكْتُبُ إِلَيْهِ، فَلَا يُفْتِيكُمُوهُ، قَالَ: فَوَاللَّهِ لَقَدْ جَاءَ بَعْضُ فِتْيَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرٍ، فَأَنْكَرَهُ، فَقَالَ: كَأَنَّ هَذَا لَيْسَ مِنْ تَمْرِ أَرْضِنَا، قَالَ: كَانَ فِي تَمْرِ أَرْضِنَا أَوْ فِي تَمْرِنَا الْعَامَ بَعْضُ الشَّيْءِ، فَأَخَذْتُ هَذَا وَزِدْتُ بَعْضَ الزِّيَادَةِ، فَقَالَ: أَضْعَفْتَ أَرْبَيْتَ لَا تَقْرَبَنَّ هَذَا إِذَا رَابَكَ مِنْ تَمْرِكَ شَيْءٌ، فَبِعْهُ ثُمَّ اشْتَرِ الَّذِي تُرِيدُ مِنَ التَّمْرِ ".
سعید جریری نے ابونضرہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دینار و درہم یا سونے چاندی کے تبادلے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: کہا یہ دست بدست ہے؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں، انہوں نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں۔ میں نے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کو خبر دی، میں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دینار و درہم یا سونے چاندی کے تبادلے کے بارے میں سوال کیا تھا تو انہوں نے کہا تھا: کیا دست بدست ہے؟ میں نے جواب دیا تھا: ہاں، تو انہوں نے کہا تھا: اس میں کوئی حرج نہیں (انہوں نے ایک ہی جنس کی صورت میں مساوات کی شرط لگائے بغیر اسے علی الاطلاق جائز قرار دیا۔) انہوں (ابوسعید) نے کہا: کیا انہوں نے یہ بات کہی ہے؟ ہم ان کی طرف لکھیں گے تو وہ تمہیں (غیر مشروط جواز کا) یہ فتویٰ نہیں دیں گے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام سے کوئی کھجوریں لے کر آیا تو آپ نے انہیں نہ پہچانا اور فرمایا: "ایسا لگتا ہے کہ یہ ہماری سرزمین کی کھجوروں میں سے نہیں ہیں۔" اس نے کہا: اس سال ہماری زمین کی کھجوروں میں۔۔ یا ہماری کھجوروں میں۔۔ کوئی چیز (خرابی) تھی، میں نے یہ (عمدہ کھجوریں) لے لیں اور بدلے میں کچھ زیادہ دے دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے دوگنا دیں، تم نے سود کا لین دین کیا، اس کے قریب (بھی) مت جاؤ، جب تمہیں اپنی کھجور کے بارے میں کسی چیز (نقص وغیرہ) کا شک ہو تو اسے فروخت کرو، پھر کھجور میں سے تم جو چاہتے ہو (نقدی کے عوج) خرید لو۔"
ابو نضرہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے کرنسی کے باہمی تبادلہ کے بارے میں سوال کیا؟ تو انہوں نے پوچھا، کیا ہاتھوں ہاتھ ہے؟ میں نے کہا، جی ہاں۔ کہا، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، میں نے اس بات کی خبر حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ کو دی، میں نے کہا، میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے نقدی کے تبادلہ کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے پوچھا، کیا نقد بنقد ہے؟ میں نے کہا، جی ہاں۔ انہوں نے کہا، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، کیا انہوں نے یہ بات کہی ہے؟ ہم انہیں ابھی لکھتے ہیں تو تمہیں یہ فتویٰ نہیں دیں گے، ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض خادم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوریں لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر تعجب کا اظہار کیا، اور فرمایا، گویا یہ ہماری سرزمین کی کھجوریں نہیں ہیں خادم نے کہا، ہمارے علاقہ کی کھجور یا کھجوروں میں، اس سال کچھ خرابی تھی، تو میں نے یہ لے کر، کچھ زائد کھجوریں دے دیں، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے اضافہ کیا، زیادہ دیں، تو نے سود دیا، اس معاملہ کے قریب نہ جانا، جب تمہیں اپنی کھجوروں کے بارے میں کچھ خلجان ہو، تو انہیں فروخت کر دو، پھر جو کھجوریں چاہو خرید لو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1594

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4086  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ایک نکمی چیز بیچ کو اس قیمت سے اچھی چیز خریدنا تاکہ تبادلہ کی صورت میں کمی و بیشی سے بچا جا سکے،
یہ حیلہ نہیں ہے،
کہ اس کو بنیاد بنا کر،
سود کے جواز کے لیے حیلہ نکالا جائے،
جیسا کہ شوافع نے اس کے لیے بیع عینہ کا حیلہ نکالا ہے،
اور بعض معاصر علماء نے بیع عینہ کو بنیاد بنا کر بینک کے تمام مروج کھاتوں کو جائز قرار دینے کے لیے حیلے نکالنے شروع کیے ہیں،
یا احناف نے دارالحرب کے سود کے جواز کے لیے کہا ہے کہ مسلمان اور حربی کے مابین ربا نہیں ہے،
لہذا جن لوگوں سے ہماری جنگ ہو،
ان سے سود لینا جائز ہے،
بیع عینہ یہ ہے کہ ایک چیز ادھار دو سو روپیہ کے عوض خرید لے،
پھر اس کو سو روپیہ نقد میں واپس فروخت کر دے،
اس طرح اس سو روپیہ سے فائدہ اٹھائے اور وقت مقررہ پر سو دو روپیہ ادا کر دے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4086   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.