الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
The Book of Jihad and Expeditions
2. باب تَأْمِيرِ الإِمَامِ الأُمَرَاءَ عَلَى الْبُعُوثِ وَوَصِيَّتِهِ إِيَّاهُمْ بِآدَابِ الْغَزْوِ وَغَيْرِهَا:
2. باب: امام امیروں کو لڑائی پر کیونکر بھیجے اور ان کو طریقے کیونکر بتلائے۔
حدیث نمبر: 4522
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
ح وحدثني عبد الله بن هاشم واللفظ له، حدثني عبد الرحمن يعني ابن مهدي، حدثنا سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " إذا امر اميرا على جيش او سرية اوصاه في خاصته بتقوى الله ومن معه من المسلمين خيرا، ثم قال: اغزوا باسم الله في سبيل الله، قاتلوا من كفر بالله اغزوا، ولا تغلوا ولا تغدروا ولا تمثلوا ولا تقتلوا وليدا، وإذا لقيت عدوك من المشركين، فادعهم إلى ثلاث خصال او خلال فايتهن ما اجابوك، فاقبل منهم وكف عنهم ثم ادعهم إلى الإسلام، فإن اجابوك، فاقبل منهم وكف عنهم ثم ادعهم إلى التحول من دارهم إلى دار المهاجرين، واخبرهم انهم إن فعلوا ذلك، فلهم ما للمهاجرين وعليهم ما على المهاجرين، فإن ابوا ان يتحولوا منها، فاخبرهم انهم يكونون كاعراب المسلمين يجري عليهم حكم الله الذي يجري على المؤمنين، ولا يكون لهم في الغنيمة والفيء شيء إلا ان يجاهدوا مع المسلمين، فإن هم ابوا فسلهم الجزية، فإن هم اجابوك، فاقبل منهم وكف عنهم، فإن هم ابوا، فاستعن بالله وقاتلهم، وإذا حاصرت اهل حصن، فارادوك ان تجعل لهم ذمة الله وذمة نبيه، فلا تجعل لهم ذمة الله ولا ذمة نبيه ولكن اجعل لهم ذمتك وذمة اصحابك، فإنكم ان تخفروا ذممكم وذمم اصحابكم اهون من ان تخفروا ذمة الله وذمة رسوله، وإذا حاصرت اهل حصن فارادوك ان تنزلهم على حكم الله، فلا تنزلهم على حكم الله ولكن انزلهم على حكمك، فإنك لا تدري اتصيب حكم الله فيهم ام لا؟ "، قال عبد الرحمن: هذا او نحوه وزاد إسحاق في آخر حديثه، عن يحيي بن آدم، قال: فذكرت هذا الحديث لمقاتل بن حيان ، قال يحيي: يعني ان علقمة يقوله لابن حيان، فقال: حدثني مسلم بن هيصم ، عن النعمان بن مقرن ، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه،ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا أَمَّرَ أَمِيرًا عَلَى جَيْشٍ أَوْ سَرِيَّةٍ أَوْصَاهُ فِي خَاصَّتِهِ بِتَقْوَى اللَّهِ وَمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا، ثُمَّ قَالَ: اغْزُوا بِاسْمِ اللَّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ اغْزُوا، وَلَا تَغُلُّوا وَلَا تَغْدِرُوا وَلَا تَمْثُلُوا وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا، وَإِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَادْعُهُمْ إِلَى ثَلَاثِ خِصَالٍ أَوْ خِلَالٍ فَأَيَّتُهُنَّ مَا أَجَابُوكَ، فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَإِنْ أَجَابُوكَ، فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِينَ، وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِكَ، فَلَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُهَاجِرِينَ، فَإِنْ أَبَوْا أَنْ يَتَحَوَّلُوا مِنْهَا، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ كَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ يَجْرِي عَلَيْهِمْ حُكْمُ اللَّهِ الَّذِي يَجْرِي عَلَى الْمُؤْمِنِينَ، وَلَا يَكُونُ لَهُمْ فِي الْغَنِيمَةِ وَالْفَيْءِ شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَسَلْهُمُ الْجِزْيَةَ، فَإِنْ هُمْ أَجَابُوكَ، فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا، فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَقَاتِلْهُمْ، وَإِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ، فَأَرَادُوكَ أَنْ تَجْعَلَ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ نَبِيِّهِ، فَلَا تَجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَلَا ذِمَّةَ نَبِيِّهِ وَلَكِنْ اجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّتَكَ وَذِمَّةَ أَصْحَابِكَ، فَإِنَّكُمْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَمَكُمْ وَذِمَمَ أَصْحَابِكُمْ أَهْوَنُ مِنْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ رَسُولِهِ، وَإِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوكَ أَنْ تُنْزِلَهُمْ عَلَى حُكْمِ اللَّهِ، فَلَا تُنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِ اللَّهِ وَلَكِنْ أَنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي أَتُصِيبُ حُكْمَ اللَّهِ فِيهِمْ أَمْ لَا؟ "، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: هَذَا أَوْ نَحْوَهُ وَزَادَ إِسْحَاقُ فِي آخِرِ حَدِيثِهِ، عَنْ يَحْيَي بْنِ آدَمَ، قَالَ: فَذَكَرْتُ هَذَا الْحَدِيثَ لِمُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ ، قَالَ يَحْيَي: يَعْنِي أَنَّ عَلْقَمَةَ يَقُولُهُ لِابْنِ حَيَّانَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي مُسْلِمُ بْنُ هَيْصَمٍ ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ،
نیز عبداللہ بن ہاشم نے کہا۔۔ الفاظ انہی کے ہیں۔۔ مجھے عبدالرحمٰن بن مہدی نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے علقمہ بن مرثد سے حدیث بیان کی، انہوں نے سلیمان بن بریدہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بڑے لشکر یا چھوٹے دستے پر کسی کو امیر مقرر کرتے تو اسے خاص اس کی اپنی ذات کے بارے میں اللہ سے ڈرنے کی اور ان تمام مسلمانوں کے بارے میں، جو اس کے ساتھ ہیں، بھلائی کی تلقین کرتے، پھر فرماتے: "اللہ کے نام سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو، جو اللہ تعالیٰ سے کفر کرتے ہیں ان سے لڑو، نہ خیانت کرو، نہ بد عہدی کرو، نہ مثلہ کرو اور نہ کسی بچے کو قتل کرو اور جب مشرکوں میں سے اپنے دشمن سے ٹکراؤ تو انہیں تین باتوں کی طرف بلاؤ، ان میں سے جسے وہ تسلیم کر لیں، (اسی کو) ان کی طرف سے قبول کر لو اور ان (پر حملے) سے رک جاؤ، انہیں اسلام کی دعوت دو، اگر وہ مان لیں تو اسے ان (کی طرف) سے قبول کر لو اور (جنگ سے) رک جاؤ، پھر انہیں اپنے علاقے سے مہاجرین کے علاقے میں آ جانے کی دعوت دو اور انہیں بتاؤ کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کے لیے وہی حقوق ہوں گے جو مہاجرین کے ہیں اور ان پر وہی ذمہ دریاں ہوں گی جو مہاجرین پر ہیں۔ اگر وہ وہاں سے نقل مکانی کرنے پر انکار کریں تو انہیں بتاؤ کہ پھر وہ بادیہ نشیں مسلمانوں کی طرح ہوں گے، ان پر اللہ کا وہی حکم نافذ ہو گا جو مومنوں پر نافذ ہوتا ہے اور غنیمت اور فے میں سے ان کے لیے کچھ نہ ہو گا مگر اس صورت میں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں۔ اگر وہ انکار کریں تو ان سے جزیے کا مطالبہ کرو، اگر وہ تسلیم کر لیں تو ان کی طرف سے قبول کر لو اور رک جاؤ اور اگر وہ انکار کریں تو اللہ سے مدد مانگو اور ان سے لڑو اور جب تم کسی قلعے (میں رہنے) والوں کا محاصرہ کرو اور وہ تم سے چاہیں کہ تم انہیں اللہ اور اس کے نبی کا عہدوپیمان عطا کرو تو انہیں اللہ اور اس کے نبی کا عہدوپیمان نہ دو بلکہ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے عہد و امان دو، کیونکہ یہ بات کہ تم لوگ اپنے اور اپنے ساتھیوں کے عہدوپیمان کی خلاف ورزی کر بیٹھو، اس کی نسبت ہلکی ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عہدوپیمان توڑ دو۔ اور جب تم قلعہ بند لوگوں کا محاصرہ کرو اور وہ تم سے چاہیں کہ تم انہیں اللہ کے حکم پر (قلعے سے) نیچے اترنے دو تو انہیں اللہ کے حکم پر نیچے نہ اترنے دو بلکہ اپنے حکم پر انہیں نیچے اتارو کیونکہ تمہیں معلوم نہیں کہ تم ان کے بارے میں اللہ کے صحیح حکم پر پہنچ پاتے ہو یا نہیں۔" (ابن ہشام نے کہا:) عبدالرحمان نے یہی کہا یا اسی طرح کہا۔ اسحا نے اپنی حدیث کے آخر میں یہ اضافہ کیا: یحییٰ بن آدم سے روایت ہے کہ (علقمہ نے) کہا: میں نے یہ حدیث مقاتل بن حیان سے بیان کی۔۔ یحییٰ نے کہا: یعنی علقمہ نے ابن حیان سے بیان کی۔۔ تو انہوں نے کہا: مجھے مسلم بن ہیصم نے حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کے واسطے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح حدیث بیان کی
سلیمان بن بریدہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو لشکر یا دستہ کا امیر مقرر کرتے تو اسے اس کی ذات کے سلسلہ میں اللہ کی حدود کی پابندی اور مسلمان ساتھیوں کے بارے میں بھلائی کی تلقین فرماتے، پھر فرماتے: اللہ کا نام لے کر، اللہ کے راستہ میں نکلو، اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں سے لڑائی کرو، جنگ کرو اور خیانت نہ کرو اور غدر (بد عہدی) سے باز رہو، کسی کے اعضاء نہ کاٹو اور کسی بچے کو قتل نہ کرو اور جب تمہارا مشرک دشمن سے مقابلہ ہو تو انہیں تین باتوں (خوبیوں) کی دعوت دو، سب سے پہلے انہیں اسلام قبول کرنے کر لو اور لڑائی کرنے سے رک جاؤ۔ پھر انہیں اپنے علاقہ سے ہجرت کر کے مہاجروں کے علاقہ میں آنے کی دعوت دو اور انہیں بتا دو، اگر انہوں نے ایسا کر لیا (ہجرت کر لی) تو انہیں مہاجروں والے حقوق حاصل ہوں گے، اور ان پر مہاجروں والی ذمہ داریاں ہوں گی، اگر وہ اپنے علاقہ کے چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہوں تو انہیں بتا دو کہ وہ بدوی (جنگلی) مسلمانوں کی طرح ہوں گے، ان پر اللہ کا وہ حکم جاری ہو گا، جو دوسرے مسلمانوں پر نافذ ہو گا اور انہیں غنیمت اور فے سے کچھ نہیں ملے گا، الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہوں اور اگر وہ اسلام لانے سے انکار کر دیں تو ان سے جزیہ دینے کا سوال کرو، اگر وہ تیری اس بات کو قبول کر لیں تو ان سے اس کو قبول کر لو اور ان سے جنگ کرنے سے باز رہو اور اگر وہ اس سے بھی انکار کر دیں تو اللہ تعالیٰ سے طالب مدد ہو کر ان سے جنگ لڑو اور جب کسی قلعہ والوں کا محاصرہ کرو اور وہ تم سے اللہ اور اس کے رسول کا عہد و پیماں مانگیں تو انہیں نہ اللہ کا عہد دو اور نہ اس کے رسول کا عہد دو، لیکن انہیں اپنا اور اپنے ساتھیوں کا عہد دو، کیونکہ اگر تم اپنے عہد اور اپنے ساتھیوں کے عہد کو توڑو یہ اس سے ہلکا ہے کہ تم اللہ کا عہد توڑو اور جب تم کسی قلعہ والوں کا محاصرہ کر لو اور وہ تم سے یہ چاہیں کہ انہیں اللہ کے حکم پر اترنے دو تو انہیں اللہ کے حکم پر اترنے کی اجازت نہ دو، لیکن اپنے حکم پر اترنے دو، کیونکہ تمہیں معلوم نہیں، تم ان کے بارے میں اللہ کے حکم تک رسائی پاتے ہو یا نہیں؟ عبدالرحمٰن نے کہا، یہی یا اس کی طرح اور یحییٰ بن آدم سے اسحاق اپنی روایت میں یہ اضافہ کرتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث مقاتل بن حیان سے بیان کی، یحییٰ کہتے ہیں، یعنی علقمہ نے ابن حیان سے بیان کی تو اس نے کہا، مجھے سلم بن ہیصم نے نعمان بن مقرن رضی اللہ تعالی عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے ہم معنی روایت سنائی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1731
   صحيح مسلم4522اغزوا باسم الله في سبيل الله قاتلوا من كفر بالله اغزوا ولا تغلوا ولا تغدروا ولا تمثلوا ولا تقتلوا وليدا
   سنن ابن ماجه2858اغزوا باسم الله وفي سبيل الله قاتلوا من كفر بالله اغزوا ولا تغدروا ولا تغلوا ولا تمثلوا ولا تقتلوا وليدا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2858  
´مجاہدین کو امام اور حاکم کی وصیت۔`
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی فوجی دستے پر کسی شخص کو امیر متعین فرماتے تو اسے ذاتی طور پر اللہ سے ڈرتے رہنے اور اپنے ساتھی مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی وصیت کرتے، اور فرماتے: اللہ کے راستے میں اللہ کا نام لے کر لڑنا، جو اللہ کے ساتھ کفر کرے اس سے لڑنا، اور بدعہدی نہ کرنا، (مال غنیمت میں) خیانت نہ کرنا، مثلہ نہ کرنا، اور کسی بچے کو قتل نہ کرنا، جب مشرکوں میں سے اپنے دشمن سے مڈبھیڑ ہو تو انہیں تین باتوں میں سے ایک کی دعوت دینا، ان میں سے جس بات پر وہ راضی ہو جائیں اسے قبول کرنا، اور ان سے جنگ سے رک جا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2858]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
امیر المومنین کو چاہیے کہ جہادی لشکر روانہ کرتے وقت ان سے خطاب کرے اور مناسب ہدایات دے۔

(2)
یوں تو تقوی اور اخلاص ہر عمل میں ضروری ہے لیکن جہاد میں اس کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے کیونکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں اللہ کے بندوں کی جانیں لی جاتی ہیں اور مال چھنتے ہیں۔
اگر دوسروں کے جان ومال میں تصرف اللہ کی رضا کے لیے نہ ہوتو اس سے بڑھ کر کوئی ظلم نہیں ہوسکتا۔

(3)
جہاد میں انسانوں کو قتل کرنا اصل مقصود نہیں بلکہ اصل مقصود لوگوں کو سچا دین قبول کرنے پر آمادہ کرنا یا اسے قبول کرنے والوں کی راہ سے رکاوٹیں دود کرنا ہے اس لیے اصل مقصود لوگوں کو سچا دین قبول کرنے پر آمادہ کرنا یا اسے قبول کرنے والوں کی راہ سے رکاوٹیں دور کرنا ہے اس لیے اگر کافر اسلام قبول کرلے تو یہ بھی درست ہے کیونکہ اس طرح وہ دوسروں کو اسلام قبول کرنے سے روکنے کی طاقت سے محروم ہوجاتا ہے۔

(4)
ہجرت کرنے والے مسلمان اور ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں میں بعض مسائل میں فرق ہے۔

(5)
ہجرت غیر مسلموں کے علاقے سے مسلمانوں کی سلطنت کی طرف جاتی ہے۔

(6)
مجاہدین غیر مسلموں کو امان دے سکتے ہیں۔

(7)
امان دیتے وقت اپنی ذاتی ذمہ داری پر امان دینی چاہیے۔
یہ کہنا درست نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی ذمہ داری پر امان ہے۔

(8)
جنگ کے دوران میں دشمن کے قلعے کا محاصرہ کرنا درست ہے۔

(9)
اگر محصورین مسلمانوں کے امیر لشکر کا فیصلہ قبول کرنے اور ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوں تو ان کا مطالبہ تسلیم کرکے ان کے ساتھ جنگی قیدی کی حیثیت سے مناسب معاملہ کرنا چاہیے۔

(10)
حالات کے مطابق جنگی قیدیوں کو فدیہ لے کر یا فدیہ رہا کرنا درست ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2858   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.