الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
The Book of Jihad and Expeditions
34. باب صُلْحِ الْحُدَيْبِيَةِ فِي الْحُدَيْبِيَةِ:
34. باب: حدیبیہ میں جو صلح ہوئی اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 4633
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن نمير . ح وحدثنا ابن نمير وتقاربا في اللفظ، حدثنا ابي ، حدثنا عبد العزيز بن سياه ، حدثنا حبيب بن ابي ثابت ، عن ابي وائل ، قال: قام سهل بن حنيف يوم صفين، فقال: ايها الناس اتهموا انفسكم، لقد كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الحديبية ولو نرى قتالا لقاتلنا، وذلك في الصلح الذي كان بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين المشركين، فجاء عمر بن الخطاب، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، السنا على حق وهم على باطل؟، قال: بلى، قال: اليس قتلانا في الجنة وقتلاهم في النار؟، قال: بلى، قال: ففيم نعطي الدنية في ديننا ونرجع ولما يحكم الله بيننا وبينهم؟، فقال يا ابن الخطاب: إني رسول الله ولن يضيعني الله ابدا، قال: فانطلق عمر فلم يصبر متغيظا، فاتى ابا بكر، فقال: يا ابا بكر، السنا على حق وهم على باطل؟، قال: بلى، قال: اليس قتلانا في الجنة وقتلاهم في النار؟، قال: بلى، قال: فعلام نعطي الدنية في ديننا ونرجع ولما يحكم الله بيننا وبينهم؟، فقال: يا ابن الخطاب، إنه رسول الله ولن يضيعه الله ابدا، قال: فنزل القرآن على رسول الله صلى الله عليه وسلم بالفتح، فارسل إلى عمر فاقراه إياه، فقال: يا رسول الله، او فتح هو، قال: نعم فطابت نفسه ورجع ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ سِيَاهٍ ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: قَامَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ يَوْمَ صِفِّينَ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ، لَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَلَوْ نَرَى قِتَالًا لَقَاتَلْنَا، وَذَلِكَ فِي الصُّلْحِ الَّذِي كَانَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ الْمُشْرِكِينَ، فَجَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَسْنَا عَلَى حَقٍّ وَهُمْ عَلَى بَاطِلٍ؟، قَالَ: بَلَى، قَالَ: أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ؟، قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَفِيمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ؟، فَقَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ: إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا، قَالَ: فَانْطَلَقَ عُمَرُ فَلَمْ يَصْبِرْ مُتَغَيِّظًا، فَأَتَى أَبَا بَكْرٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَسْنَا عَلَى حَقٍّ وَهُمْ عَلَى بَاطِلٍ؟، قَالَ: بَلَى، قَالَ: أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ؟، قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَعَلَامَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ؟، فَقَالَ: يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا، قَالَ: فَنَزَلَ الْقُرْآنُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْفَتْحِ، فَأَرْسَلَ إِلَى عُمَرَ فَأَقْرَأَهُ إِيَّاهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوْ فَتْحٌ هُوَ، قَالَ: نَعَمْ فَطَابَتْ نَفْسُهُ وَرَجَعَ ".
حبیب بن ابی ثابت نے ابووائل (شقیق) سے روایت کی، انہوں نے کہا: سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ جنگ صفین کے روز کھڑے ہوئے اور (لوگوں کو مخاطب کر کے) کہا: لوگو! (امیر المومنین پر الزام لگانے کے بجائے) خود کو الزام دو (صلح کو مسترد کر کے اللہ اور اس کے بتائے ہوئے راستے سے تم ہٹ رہے ہو) ہم حدیبیہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور اگر ہم جنگ (ہی کو ناگزیر) دیکھتے تو جنگ کر گزرتے۔ یہ اس صلح کا واقعہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان ہوئی۔ (اب تو مسلمانوں کے دو گروہوں کا معاملہ ہے۔) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں؟ آپ نے فرمایا: "کیوں نہیں!" عرض کی: کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول آگ میں نہ جائیں گے؟ فرمایا: "کیوں نہیں!" عرض کی: تو ہم اپنے دین میں نیچے لگ کر (صلح) کیوں کریں (نیچے لگ کر کیوں صلح کریں؟) اور اس طرح کیوں لوٹ جائیں کہ اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خطاب کے بیٹے! میں اللہ کا رسول ہوں، (اس کے حکم سے صلح کر رہا ہوں) اللہ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔" کہا: عمر رضی اللہ عنہ غصے کے عالم میں چل پڑے اور صبر نہ کر سکے۔ وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: اے ابوبکر! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں؟ کہا: کیوں نہیں! کہا: کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول آگ میں نہیں؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں! (حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو ہم اپنے دین میں نیچے لگ کر (جیسی صلح وہ چاہتے ہیں انہیں) کیوں دیں؟ اور اس طرح کیوں لوٹ جائیں کہ اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا؟ تو انہوں نے کہا: ابن خطاب! وہ اللہ کے رسول ہیں، اللہ انہیں ہرگز کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فتح (کی خوشخبری) کے ساتھ قرآن اترا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور انہیں (جو نازل ہوا تھا) وہ پڑھوایا۔ انہوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا یہ فتح ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں۔" تو (اس پر) عمر رضی اللہ رنہ کا دل خوش ہو گیا اور وہ لوٹ آئے
ابو وائل سے روایت ہے کہ صفین کے دن حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہو کر کہنے لگے، اے لوگو! اپنی سوچ کو مہتم قرار دو، اپنے آپ کو قصوروار خیال کرو، ہم حدیبیہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اگر ہم جنگ ضروری سمجھتے تو ضرور لڑتے اور یہ اس صلح کی بات ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکوں کے درمیان ہوئی، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہو کر عرض کرنے لگے، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں، انہوں نے کہا تو پھر اپنے دین میں ہم دباؤ کیوں قبول کریں اور اس حال میں لوٹ جائیں کہ ابھی اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا؟ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے خطاب کے بیٹے! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ چل دئیے اور غصہ پر قابو نہ پا سکے (غصہ کی وجہ سے رک نہ سکے) اور ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور کہا، اے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، کیوں نہیں، عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں ہوں گے؟ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، کیوں نہیں، عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، پھر ہم اپنے دین میں خست اور کوتاہی کیوں قبول کریں؟ اور اس حال میں کیوں واپس لوٹیں کہ ابھی اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا؟ تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اے خطاب کے بیٹے! آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا، حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فتح کی بشارت کے سلسلہ میں قرآن اترا تو آپ نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف پیغام پہنچا اور انہیں قرآن پڑھایا تو انہوں نے پوچھا، اے اللہ کے رسول! کیا یہ فتح ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اور وہ خوش خوش مطمئن ہو کر لوٹ آئے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1785
   صحيح البخاري4189سهل بن حنيفاتهموا الرأي فلقد رأيتني يوم أبي جندل ولو أستطيع أن أرد على رسول الله أمره لرددت والله ورسوله أعلم وما وضعنا أسيافنا على عواتقنا لأمر يفظعنا إلا أسهلن بنا إلى أمر نعرفه قبل هذا الأمر
   صحيح البخاري3182سهل بن حنيفألسنا على الحق وهم على الباطل فقال بلى فقال أليس قتلانا في الجنة وقتلاهم في النار قال بلى قال فعلي ما نعطي الدنية في ديننا أنرجع ولما يحكم الله بيننا وبينهم فقال يا ابن الخطاب إني رسول الله ولن يضيعني الله أبدا فانطلق عمر إلى أبي بكر فقال له مثل م
   صحيح البخاري3181سهل بن حنيفاتهموا رأيكم رأيتني يوم أبي جندل ولو أستطيع أن أرد أمر النبي لرددته وما وضعنا أسيافنا على عواتقنا لأمر يفظعنا إلا أسهلن بنا إلى أمر نعرفه غير أمرنا هذا
   صحيح مسلم4636سهل بن حنيفاتهموا رأيكم على دينكم فلقد رأيتني يوم أبي جندل ولو أستطيع أن أرد أمر رسول الله ما فتحنا منه في خصم إلا انفجر علينا منه خصم
   صحيح مسلم4633سهل بن حنيفألسنا على حق وهم على باطل قال بلى قال أليس قتلانا في الجنة وقتلاهم في النار قال بلى قال ففيم نعطي الدنية في ديننا ونرجع ولما يحكم الله بيننا وبينهم فقال يا ابن الخطاب إني رسول الله ولن يضيعني الله أبدا قال فانطلق عمر فلم يصبر متغيظا فأتى أبا ب
   صحيح مسلم4634سهل بن حنيفاتهموا رأيكم لقد رأيتني يوم أبي جندل ولو أني أستطيع أن أرد أمر رسول الله لرددته والله ما وضعنا سيوفنا على عواتقنا إلى أمر قط إلا أسهلن بنا إلى أمر نعرفه إلا أمركم هذا
   المعجم الصغير للطبراني787سهل بن حنيف يوم صفين : يا أيها الناس ، اتهموا رأيكم ، فإنا والله ما أخذنا بقوائم سيوفنا إلى أمر يفضعنا إلا أسهل بنا إلى أمر نعرفه إلا أمركم هذا ، فإنه لا يزداد إلا شدة ولبسا ، لقد رأيتني يوم أبى جندل ، ولو أجد أعوانا على رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ، لأنكرت
   مسندالحميدي408سهل بن حنيف

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4633  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
قام سهل بن حنيف يوم صفين:
حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان صفین کے مقام پر جنگ چھڑی اور وہ انتہائی شدت اختیار کر گئی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قرآن مجید کو حکم ماننے کا پیغام بھیجا،
حضرت علی رضی اللہ عنہ،
اس کو قبول کرنے پر آمادہ ہو گئے تو خوارج نے جنگ جاری رکھنے پر اصرار کیا تو حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ لوگوں کو صلح پر آمادہ کرنے کے لیے کھڑے ہوئے،
اور کہنے لگے،
صلح کا نتیجہ ہر صورت میں بہتر نکلتا ہے،
اگرچہ وہ بظاہر پسندیدہ عمل نظر نہیں آتا،
دیکھئے صلح حدیبیہ کے وقت،
مسلمانوں کے جذبات و احساسات،
اس صلح کے مخالف تھے حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں بڑے زور دار انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی،
پھر اپنے ساتھ ملانے کے لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھی مکالمہ کیا اور صلح کی شرطوں کی قبولیت کو دین میں خست دباؤ اور کوتاہی کو قبول کرنا قرار دیا،
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میں اللہ کا رسول ہوں،
اس کی رہنمائی میں بات کرتا ہوں۔
اس لیے اس کی مرضی اور منشا کی مخالفت نہیں کر سکتا اور یہ صلح ہمارے حق میں جائے گی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کی اور پھر اس سلسلہ میں قرآن مجید کا نزول ہوا اور سورہ فتح میں اس صلح کو فتح کا نام دیا گیا اور بعد میں واقعات نے اس کی تصدیق کی،
اس لیے اتهمواانفسكم،
تم جنگ کے جاری رکھنے کے اصرار کے سلسلہ میں اپنے آپ کو قصوروار سمجھو،
تمہاری یہ رائے اور سوچ ناقص ہے کہ صلح کی بجائے جنگ جاری رہنی چاہیے،
صلح کا نتیجہ ہی بہتر ہوتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4633   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.