الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
The Book of Jihad and Expeditions
39. باب مَا لَقِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَذَى الْمُشْرِكِينَ وَالْمُنَافِقِينَ:
39. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں اور منافقوں کے ہاتھ سے جو تکلیف پائی اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 4649
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا عبد الله بن عمر بن محمد بن ابان الجعفي ، حدثنا عبد الرحيم يعني ابن سليمان ، عن زكرياء ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون الاودي ، عن ابن مسعود ، قال: " بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي عند البيت، وابو جهل واصحاب له جلوس، وقد نحرت جزور بالامس، فقال ابو جهل: ايكم يقوم إلى سلا جزور بني فلان فياخذه فيضعه في كتفي محمد إذا سجد، فانبعث اشقى القوم فاخذه، فلما سجد النبي صلى الله عليه وسلم وضعه بين كتفيه، قال: فاستضحكوا وجعل بعضهم يميل على بعض وانا قائم انظر لو كانت لي منعة طرحته عن ظهر رسول الله صلى الله عليه وسلم، والنبي صلى الله عليه وسلم ساجد ما يرفع راسه حتى انطلق إنسان فاخبر فاطمة، فجاءت وهي جويرية فطرحته عنه ثم اقبلت عليهم تشتمهم، فلما قضى النبي صلى الله عليه وسلم صلاته رفع صوته ثم دعا عليهم، وكان إذا دعا دعا ثلاثا وإذا سال سال ثلاثا، ثم قال: اللهم عليك بقريش ثلاث مرات، فلما سمعوا صوته ذهب عنهم الضحك وخافوا دعوته، ثم قال: اللهم عليك بابي جهل بن هشام، وعتبة بن ربيعة، وشيبة بن ربيعة، والوليد بن عقبة، وامية بن خلف، وعقبة بن ابي معيط، وذكر السابع ولم احفظه، فوالذي بعث محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق، لقد رايت الذين سمى صرعى يوم بدر ثم سحبوا إلى القليب، قليب بدر "، قال ابو إسحاق: الوليد بن عقبة غلط في هذا الحديث.وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبَانَ الْجُعْفِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيِّ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: " بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ، وَأَبُو جَهْلٍ وَأَصْحَابٌ لَهُ جُلُوسٌ، وَقَدْ نُحِرَتْ جَزُورٌ بِالْأَمْسِ، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: أَيُّكُمْ يَقُومُ إِلَى سَلَا جَزُورِ بَنِي فُلَانٍ فَيَأْخُذُهُ فَيَضَعُهُ فِي كَتِفَيْ مُحَمَّدٍ إِذَا سَجَدَ، فَانْبَعَثَ أَشْقَى الْقَوْمِ فَأَخَذَهُ، فَلَمَّا سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، قَالَ: فَاسْتَضْحَكُوا وَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَمِيلُ عَلَى بَعْضٍ وَأَنَا قَائِمٌ أَنْظُرُ لَوْ كَانَتْ لِي مَنَعَةٌ طَرَحْتُهُ عَنْ ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ حَتَّى انْطَلَقَ إِنْسَانٌ فَأَخْبَرَ فَاطِمَةَ، فَجَاءَتْ وَهِيَ جُوَيْرِيَةٌ فَطَرَحَتْهُ عَنْهُ ثُمَّ أَقْبَلَتْ عَلَيْهِمْ تَشْتِمُهُمْ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ رَفَعَ صَوْتَهُ ثُمَّ دَعَا عَلَيْهِمْ، وَكَانَ إِذَا دَعَا دَعَا ثَلَاثًا وَإِذَا سَأَلَ سَأَلَ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا سَمِعُوا صَوْتَهُ ذَهَبَ عَنْهُمُ الضِّحْكُ وَخَافُوا دَعْوَتَهُ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِأَبِي جَهْلِ بْنِ هِشَامٍ، وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَالْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ، وَأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ، وَذَكَرَ السَّابِعَ وَلَمْ أَحْفَظْهُ، فَوَالَّذِي بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ، لَقَدْ رَأَيْتُ الَّذِينَ سَمَّى صَرْعَى يَوْمَ بَدْرٍ ثُمَّ سُحِبُوا إِلَى الْقَلِيبِ، قَلِيبِ بَدْرٍ "، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: الْوَلِيدُ بْنُ عُقْبَةَ غَلَطٌ فِي هَذَا الْحَدِيثِ.
زکریا (بن ابی زائدہ) نے ابواسحاق سے، انہوں نے عمرو بن میمون اودی سے، انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے، ابوجہل اور اس کے ساتھی بھی بیٹھے ہوئے تھے، اور ایک دن پہلے ایک اونٹنی ذبح ہوئی تھی۔ ابوجہل نے کہا: تم میں سے کون اٹھ کر بنی فلاں کے محلے سے اونٹنی کی بچے والی جھلی (بچہ دانی) لائے گا اور محمد سجدے میں جائیں تو اس کو ان کے کندھوں کے درمیان رکھ دے گا؟ قوم کا سب سے بدبخت شخص (عقبہ بن ابی معیط) اٹھا اور اس کو لے آیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو اس نے وہ جھلی آپ کے کندھوں کے درمیان رکھ دیا، پھر وہ آپس میں خوب ہنسے اور ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ میں کھڑا ہوا دیکھ رہا تھا، کاش! مجھے کچھ بھی تحفظ حاصل ہوتا تو میں اس جھلی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت سے اٹھا کر پھینک دیتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں تھے۔ اپنا سر مبارک نہیں اٹھا رہے تھے، حتی کہ ایک شخص نے جا کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خبر دی، وہ آئیں، حالانکہ وہ اس وقت کم سن بچی تھیں، انہوں نے وہ جھلی اٹھا کر آپ سے دور پھینکی۔ پھر وہ ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوئیں اور انہیں سخت سست کہا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مکمل کر لی تو آپ نے بآزاو بلند ان کے خلاف دعا کی، آپ جب کوئی دعا کرتے تھے تو تین مرتبہ دہراتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کچھ مانگتے تو تین بار مانگتے تھے، پھر آپ نے تین مرتبہ فرمایا: "اے اللہ! قریش پر گرفت فرما۔" جب قریش نے آپ کی آواز سنی تو ان کی ہنسی جاتی رہی اور وہ آپ کی بددعا سے خوف زدہ ہو گئے۔ آپ نے پھر بددعا فرمائی: اے اللہ! ابوجہل بن ہشام پر گرفت فرما اور عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عقبہ، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط پر گرفت فرما۔"۔۔ (ابواسحاق نے کہا:) انہوں (عمرو بن میمون) نے ساتویں شخص کا نام بھی لیا تھا لیکن وہ مجھے یاد نہیں رہا (بعد ازاں ابواسحاق کو ساتویں شخص عمارہ بن ولید کا نام یاد آ گیا تھا، صحیح البخاری، حدیث: 520)۔۔ (ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:) اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! جن کا آپ نے نام لیا تھا میں نے بدر کے دن ان کو مقتول پڑے دیکھا، پھر ان سب کو گھسیٹ کر کنویں، بدر کے کنویں کی طرف لے جایا گیا اور انہیں اس میں ڈال دیا گیا۔ ابواسحاق نے کہا: اس حدیث میں ولید بن عقبہ (کا نام) غلط ہے۔ (صحیح ولید بن عتبہ ہے۔)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے، ابوجہل اور اس کے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے اور گزشتہ کل ایک اونٹنی ذبح کی گئی تھی تو ابوجہل نے کہا تم میں سے کون، بنو فلاں کی اونٹنی کی بچہ دانی اٹھا لائے گا اور جب محمد سجدہ کرے گا تو اس کے کندھوں کے درمیان رکھ دے گا؟ تو سب سے بدبخت شخص اٹھا اور اسے اٹھا لایا، پھر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے، اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان رکھ دیا اور وہ ایک دوسرے کو ہنسانے لگے اور ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو کر ایک دوسرے پر گرنے لگے، حضرت ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں کھڑا ہوا یہ منظر دیکھ رہا تھا، اگر مجھے تحفظ اور پناہ حاصل ہوتی تو میں اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت سے پھینک دیتا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں پڑے ہوئے تھے، اپنا سر نہیں اٹھا رہے تھے حتی کہ ایک آدمی گیا اور اس نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اطلاع دی، وہ آئیں جبکہ وہ ایک نوخیز بچی تھیں اور انہوں نے آپ سے اسے پھینک دیا، پھر ان کی طرف متوجہ ہو کر انہیں برا بھلا کہنے لگیں تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے بلند آواز سے ان کے خلاف دعا کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا فرماتے تو تین دفعہ دعا فرماتے اور جب مانگتے تو تین دفعہ مانگتے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے اللہ! قریش کا مؤاخذہ فرما۔ تین دفعہ فرمایا تو جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی تو ان کی ہنسی بند ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے خوف زدہ ہو گئے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ابوجہل بن ہشام کو پکڑ، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عقبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو پکڑ راوی کہتے ہیں، استاد نے ساتویں کا نام لیا، مجھے یاد نہیں رہا، اس ذات کی قسم، جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا، میں نے ان لوگوں کو جن کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لیے تھے، بدر کے دن گرے ہوئے دیکھا، پھر انہیں کھینچ کر، بدر کے کچے کنویں میں پھینک دیا گیا، ابو اسحاق کہتے ہیں، اس حدیث میں ولید بن عقبہ کا نام غلط ہے، (کیونکہ وہ ولید بن عتبہ تھا)
ترقیم فوادعبدالباقی: 1794
   صحيح البخاري3960عبد الله بن مسعوداستقبل النبي الكعبة فدعا على نفر من قريش على شيبة بن ربيعة وعتبة بن ربيعة والوليد بن عتبة وأبي جهل بن هشام فأشهد بالله لقد رأيتهم صرعى قد غيرتهم الشمس وكان يوما حارا
   صحيح البخاري3854عبد الله بن مسعودساجد وحوله ناس من قريش جاء عقبة بن أبي معيط بسلى جزور فقذفه على ظهر النبي فلم يرفع رأسه فجاءت فاطمة عليها السلام فأخذته من ظهره ودعت على من صنع فقال النبي اللهم عليك الملأ من قريش أبا جهل بن هشام وعتبة بن ربيعة وشيبة بن ربيعة وأمية بن خلف أو أبي بن خلف شع
   صحيح البخاري2934عبد الله بن مسعوداللهم عليك بقريش اللهم عليك بقريش اللهم عليك بقريش لأبي جهل بن هشام وعتبة بن ربيعة وشيبة بن ربيعة والوليد بن عتبة وأبي بن خلف وعقبة بن أبي معيط قال
   صحيح البخاري3185عبد الله بن مسعوداللهم عليك الملا من قريش اللهم عليك أبا جهل بن هشام وعتبة بن ربيعة وشيبة بن ربيعة وعقبة بن أبي معيط وأمية بن خلف أو أبي بن خلف فلقد رأيتهم قتلوا يوم بدر فألقوا في بئر غير أمية أو أبي فإنه كان رجلا ضخما فلما جروه تقطعت أوصاله قبل أن يلقى في البئر
   صحيح البخاري240عبد الله بن مسعوداللهم عليك بقريش ثلاث مرات فشق عليهم إذ دعا عليهم قال وكانوا يرون أن الدعوة في ذلك البلد مستجابة ثم سمى اللهم عليك بأبي جهل وعليك بعتبة بن ربيعة وشيبة بن ربيعة والوليد بن عتبة وأمية بن خلف وعقبة بن أبي معيط وعد السابع فلم يحفظ قال فوالذي نفسي بيده لقد ر
   صحيح البخاري520عبد الله بن مسعوداللهم عليك بقريش اللهم عليك بقريش اللهم عليك بقريش ثم سمى اللهم عليك بعمرو بن هشام وعتبة بن ربيعة وشيبة بن ربيعة والوليد بن عتبة وأمية بن خلف وعقبة بن أبي معيط وعمارة بن الوليد قال عبد الله فوالله لقد رأيتهم صرعى يوم بدر ثم سحبوا إلى القليب قليب بدر ثم ق
   صحيح مسلم4652عبد الله بن مسعوداستقبل رسول الله البيت فدعا على ستة نفر من قريش فيهم أبو جهل وأمية بن خلف وعتبة بن ربيعة وشيبة بن ربيعة وعقبة بن أبي معيط فأقسم بالله لقد رأيتهم صرعى على بدر قد غيرتهم الشمس وكان يوما حارا
   صحيح مسلم4650عبد الله بن مسعوداللهم عليك الملأ من قريش أبا جهل بن هشام وعتبة بن ربيعة وعقبة بن أبي معيط وشيبة بن ربيعة وأمية بن خلف أو أبي بن خلف شعبة الشاك قال فلقد رأيتهم قتلوا يوم بدر فألقوا في بئر غير أن أمية أو أبيا تقطعت أوصاله فلم يلق في البئر
   صحيح مسلم4649عبد الله بن مسعوداللهم عليك بقريش ثلاث مرات فلما سمعوا صوته ذهب عنهم الضحك وخافوا دعوته ثم قال اللهم عليك بأبي جهل بن هشام وعتبة بن ربيعة وشيبة بن ربيعة والوليد بن عقبة وأمية بن خلف وعقبة بن أبي معيط وذكر السابع ولم أحفظه فوالذي بعث محمدا بالحق لقد رأي
   سنن النسائى الصغرى308عبد الله بن مسعوداللهم عليك بقريش ثلاث مرات اللهم عليك بأبي جهل بن هشام وشيبة بن ربيعة وعتبة بن ربيعة وعقبة بن أبي معيط حتى عد سبعة من قريش قال عبد الله فوالذي أنزل عليه الكتاب لقد رأيتهم صرعى يوم بدر في قليب واحد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3185  
´مشرکوں کی لاشوں کو کنویں میں پھینکوانا اور ان کی لاشوں کی (اگر ان کے ورثاء دینا بھی چاہیں تو بھی) قیمت نہ لینا`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ وَحَوْلَهُ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِذْ جَاءَ عُقْبَةُ بْنُ أَبِي مُعَيْطٍ بِسَلَى جَزُورٍ فَقَذَفَهُ عَلَى ظَهْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَرْفَعْ رَأْسَهُ حَتَّى جَاءَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام فَأَخَذَتْ مِنْ ظَهْرِهِ وَدَعَتْ عَلَى مَنْ صَنَعَ ذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ عَلَيْكَ الْمَلَا مِنْ قُرَيْشٍ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ وَعُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ وَشَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ وَعُقْبَةَ بْنَ أَبِي مُعَيْطٍ وَأُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ أَوْ أُبَيَّ بْنَ خَلَفٍ، فَلَقَدْ رَأَيْتُهُمْ قُتِلُوا يَوْمَ بَدْرٍ فَأُلْقُوا فِي بِئْرٍ غَيْرَ أُمَيَّةَ أَوْ أُبَيٍّ، فَإِنَّهُ كَانَ رَجُلًا ضَخْمًا فَلَمَّا جَرُّوهُ تَقَطَّعَتْ أَوْصَالُهُ قَبْلَ أَنْ يُلْقَى فِي الْبِئْرِ . . .»
. . . عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مکہ میں (شروع اسلام کے زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کی حالت میں تھے اور قریب ہی قریش کے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر عقبہ بن ابی معیط اونٹ کی اوجھڑی لایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر اسے ڈال دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ سے اپنا سر نہ اٹھا سکے۔ آخر فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر سے اس اوجھڑی کو ہٹایا اور جس نے یہ حرکت کی تھی اسے برا بھلا کہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بددعا کی کہ اے اللہ! قریش کی اس جماعت کو پکڑ۔ اے اللہ! ابوجہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، عقبہ بن ابی معیط، امیہ بن خلف یا ابی بن خلف کو برباد کر۔ پھر میں نے دیکھا کہ یہ سب بدر کی لڑائی میں قتل کر دئیے گئے۔ اور ایک کنویں میں انہیں ڈال دیا گیا تھا۔ سوا امیہ یا ابی کے کہ یہ شخص بہت بھاری بھر کم تھا۔ جب اسے صحابہ نے کھینچا تو کنویں میں ڈالنے سے پہلے ہی اس کے جوڑ جوڑ الگ ہو گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ: 3185]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3185 باب: «بَابُ طَرْحِ جِيَفِ الْمُشْرِكِينَ فِي الْبِئْرِ وَلاَ يُؤْخَذُ لَهُمْ ثَمَنٌ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم فرمایا ہے وہ مشرکین کی لاشوں کی قیمت وصول نہ کرنے پر دلالت کرتا ہے، مگر جو حدیث پیش کی ہے اس میں قیمت کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں واضح قیمت کا ذکر موجود ہے مگر وہ آپ رحمہ اللہ کی شرائط کے مطابق نہ تھی اسی لئے آپ نے یہاں اس کا ذکر نہیں فرمایا، مگر ترجمۃ الباب کے ذریعے اس کا دقیق اشارہ فرما دیا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أشار به إلى حديث ابن عباس رضى الله عنه أن المشركين أرادوا أن يشتروا جسد رجل من المشركين فأبي النبى صلى الله عليه وسلم أن يبعيهم . . . و ذكر ابن إسحاق فى المغازي، أن المشركين كانوا سألوا النبى صلى الله عليه وسلم أن يبعيهم جسد نوفل بن عبدالله بن المغيرة، و كان اقتحم الخندق، فقال النبى صلى الله عليه وسلم لا حاجة لنا بثمنه ولا جسده.» [فتح الباري، ج 6، ص: 348]
امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے: مشرکین نے ارادہ کیا کہ مشرکین میں سے ایک آدمی کی نعش (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے) خریدیں، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا (مشرکین کی نعش کو فروخت کرنے سے)۔ ابن اسحاق نے «المغازي» میں ذکر کیا کہ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا نوفل بن عبداللہ کی نعش کے بارے میں کہ اس کی نعش مشرکین کو بیچ دی جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہمیں نہ ہی اس کی نعش کی ضرورت ہے اور نہ ہی (اس کی نعش) کی رقم کی ضرورت ہے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ظاہر (ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ہو گی کہ) امام بخاری رحمہ اللہ کو یہ حدیث پہنچی ابن ابی لیلی سے کہ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقتول کی لاشوں کو فروخت کر دیں، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کر دیا، لیکن یہ حدیث (جو کہ ترمذی کی ہے، رقم: 2715) امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر نہیں ہے۔ [المتواري، ص: 199]
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ یوں ہو گی کہ ترمذی اور ابن ہشام کی کتاب المغازی میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لاشوں کی قیمت وصول کرنے سے انکار کر دیا، لہذا امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی اشارہ انہیں روایات کی طرف ہے، چونکہ یہ احادیث آپ کی شرائط پر نہ تھیں اسی لئے آپ نے دلیل کے طور پر ان کا ذکر نہیں فرمایا، مگر ترجمۃ الباب کے ذریعے اس کی طرف اشارہ فرما دیا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 467   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 308  
´حلال جانوروں کے لید، گوبر کپڑوں میں لگ جانے کا بیان۔`
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیت المال میں بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے، اور قریش کے کچھ شرفاء بیٹھے ہوئے تھے، اور انہوں نے ایک اونٹ ذبح کر رکھا تھا، تو ان میں سے ایک شخص نے کہا ۱؎: تم میں سے کون ہے جو یہ خون آلود اوجھڑی لے کر جائے، پھر کچھ صبر کرے حتیٰ کہ جب آپ اپنا چہرہ زمین پر رکھ دیں، تو وہ اسے ان کی پشت پر رکھ دے، تو ان میں کا سب سے بدبخت (انسان) کھڑا ہوا ۲؎، اور اس نے اوجھڑی لی، اور آپ کے پاس لے جا کر انتظار کرتا رہا، جب آپ سجدہ میں چلے گئے تو اس نے اسے آپ کی پشت پر ڈال دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمسن بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خبر ملی، تو وہ دوڑتی ہوئی آئیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت سے اسے ہٹایا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے تین مرتبہ کہا: «اللہم عليك بقريش» اے اللہ! قریش کو ہلاک کر دے، «اللہم عليك بقريش»، ‏ «اللہم عليك بأبي جهل بن هشام وشيبة بن ربيعة وعتبة بن ربيعة وعقبة بن أبي معيط» اے اللہ! ابوجہل بن ہشام، شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور عقبہ بن ابی معیط سے تو نپٹ لے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے سات ۳؎ لوگوں کا گن کر نام لیا، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا، میں نے انہیں بدر کے دن ایک اوندھے کنویں میں مرا ہوا دیکھا۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 308]
308۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ خبیث رائے پیش کرنے والا ابوجہل تھا جسے بعضھم کہا گیا ہے اور عمل کرنے والا عقبہ بن ابی معیط تھا جسے أشقاھم سے موسوم کیا گیا ہے۔
➋ امام صاحب نے اس روایت سے ماکول اللحم کے گوبر کے پاک ہونے پر استدلال کیا ہے۔ اور یہ درست ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے باوجود نماز جاری رکھی، بعد میں اعادہ بھی نہیں کیا، حالانکہ بعد میں آپ کو یقیناًً پتا چل گیا تھا کہ یہ فلاں چیز ہے۔ جو لوگ اسے پلید سمجھتے ہیں، ان میں سے امام مالک رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ ایسی چیز اگر نماز کے اندر جسم یا کپڑے کو لگ جائے تو نماز مکمل کی جا سکتی ہے، البتہ اگر نماز سے پہلے لگی ہو تو صفائی ضروری ہے لیکن امام نسائی رحمہ اللہ کا استدلال زیادہ قوی ہے۔
➌ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اگرچہ جرم ہے، مگر کم از کم یہ ہدایت کا راستہ بند نہیں کرتی، مگر نبی کی گستاخی اور توہین مستقل طور پر ہدایت کا راستہ بند کر دیتی ہے۔ آپ کی گستاخی کرنے والے وہ سب کے سب کفر پر مرے مگر محض مخالفت کرنے والوں کواللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب فرما دی۔ اہل اللہ سے کسی مسئلے میں اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کی گستاخی اللہ کی رحمت و توفیق سے محروم کر دیتی ہے۔ اہل علم کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے۔
➍ جب ظالم کا ظلم حد سے بڑھ جائے تو اس کا نام لے کر بددعا کی جا سکتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 308   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4649  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
سَلَا جُزُور:
بچہ دانی،
حشیمہ۔
(2)
أشقَي القَوم:
قوم کا سب سے بدبخت آدمی،
یہ عقبہ بن ابی معیط تھا۔
(3)
مَنَعَة:
مجھے پشت پناہی کی بنا پر قوت و طاقت حاصل ہوتی کیونکہ مکہ میں ان کا خاندان موجود نہیں تھا،
جو ان کی پشت پر ہوتا،
اگر اس کو مانع کی جمع بنائیں تو معنی ہو گا،
اگر میرے حمایتی اور دفاع کرنے والے ہوتے۔
(4)
ذَكَرَ السَّابَعَ:
عمرو بن میمون نے ساتویں عمارۃ بن ولید کا نام لیا تھا لیکن ابو اسحاق کو یاد نہیں رہا اور یہ ساتواں جنگ بدر میں شریک نہیں تھا اور القليل كالمعدوم کے تحت اس کو نظر انداز کر دیا گیا۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر نمازی پر نجاست ڈال دی جائے اور اسے اس کا پتہ نہ ہو کہ مجھ پر کیا ڈالا گیا ہے تو اس کی نماز ہو جائے گی،
نیز یہ واقعہ مکی زندگی میں پیش آیا،
جہاں ابھی احکام کی تفصیلات کا نزول نہیں ہوا تھا،
اس لیے اس کی نجاست معلوم نہ تھی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4649   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.