الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: علم کے بیان میں
The Book of Knowledge
37. بَابُ لِيُبَلِّغِ الْعِلْمَ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ:
37. باب: اس بارے میں کہ جو لوگ موجود ہیں وہ غائب شخص کو علم پہنچائیں۔
(37) Chapter. It is incumbent on those who are present [in a religious meeting (or conference)] to convey the knowledge to those who are absent.
حدیث نمبر: Q104
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
قاله ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم.قَالَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
‏‏‏‏ یہ قول ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے (اور بخاری کتاب الحج میں یہ تعلیق باسناد موجود ہے)۔

حدیث نمبر: 104
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال: حدثني الليث، قال: حدثني سعيد، عن ابي شريح، انه قال لعمرو بن سعيد وهو يبعث البعوث إلى مكة: ائذن لي ايها الامير احدثك قولا قام به النبي صلى الله عليه وسلم الغد من يوم الفتح، سمعته اذناي، ووعاه قلبي، وابصرته عيناي حين تكلم به، حمد الله واثنى عليه، ثم قال:" إن مكة حرمها الله ولم يحرمها الناس، فلا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر ان يسفك بها دما، ولا يعضد بها شجرة، فإن احد ترخص لقتال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها فقولوا: إن الله قد اذن لرسوله ولم ياذن لكم، وإنما اذن لي فيها ساعة من نهار، ثم عادت حرمتها اليوم كحرمتها بالامس وليبلغ الشاهد الغائب"، فقيل لابي شريح: ما قال عمرو؟ قال: انا اعلم منك يا ابا شريح، لا يعيذ عاصيا ولا فارا بدم ولا فارا بخربة.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدٌ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ، أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ: ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ، سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي، وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ، حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً، فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا فَقُولُوا: إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذِنَ لِرَسُولِهِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ، وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، ثُمَّ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ وَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ"، فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ: مَا قَالَ عَمْرٌو؟ قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ، لَا يُعِيذُ عَاصِيًا وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، ان سے لیث نے، ان سے سعید بن ابی سعید نے، وہ ابوشریح سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عمرو بن سعید (والی مدینہ) سے جب وہ مکہ میں (ابن زبیر سے لڑنے کے لیے) فوجیں بھیج رہے تھے کہا کہ اے امیر! مجھے آپ اجازت دیں تو میں وہ حدیث آپ سے بیان کر دوں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی، اس (حدیث) کو میرے دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے اسے یاد رکھا ہے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث فرما رہے تھے تو میری آنکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ مکہ کو اللہ نے حرام کیا ہے، آدمیوں نے حرام نہیں کیا۔ تو (سن لو) کہ کسی شخص کے لیے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو جائز نہیں ہے کہ مکہ میں خون ریزی کرے، یا اس کا کوئی پیڑ کاٹے، پھر اگر کوئی اللہ کے رسول (کے لڑنے) کی وجہ سے اس کا جواز نکالے تو اس سے کہہ دو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اجازت دی تھی، تمہارے لیے نہیں دی اور مجھے بھی دن کے کچھ لمحوں کے لیے اجازت ملی تھی۔ آج اس کی حرمت لوٹ آئی، جیسی کل تھی۔ اور حاضر غائب کو (یہ بات) پہنچا دے۔ (یہ حدیث سننے کے بعد راوی حدیث) ابوشریح سے پوچھا گیا کہ (آپ کی یہ بات سن کر) عمرو نے کیا جواب دیا؟ کہا یوں کہ اے (ابوشریح!) حدیث کو میں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ مگر حرم (مکہ) کسی خطاکار کو یا خون کر کے اور فتنہ پھیلا کر بھاگ آنے والے کو پناہ نہیں دیتا۔

Narrated Sa`id: Abu Shuraih said, "When `Amr bin Sa`id was sending the troops to Mecca (to fight `Abdullah bin Az- Zubair) I said to him, 'O chief! Allow me to tell you what the Prophet said on the day following the conquests of Mecca. My ears heard and my heart comprehended, and I saw him with my own eyes, when he said it. He glorified and praised Allah and then said, "Allah and not the people has made Mecca a sanctuary. So anybody who has belief in Allah and the Last Day (i.e. a Muslim) should neither shed blood in it nor cut down its trees. If anybody argues that fighting is allowed in Mecca as Allah's Apostle did fight (in Mecca), tell him that Allah gave permission to His Apostle, but He did not give it to you. The Prophet added: Allah allowed me only for a few hours on that day (of the conquest) and today (now) its sanctity is the same (valid) as it was before. So it is incumbent upon those who are present to convey it (this information) to those who are absent." Abu- Shuraih was asked, "What did `Amr reply?" He said `Amr said, "O Abu Shuraih! I know better than you (in this respect). Mecca does not give protection to one who disobeys (Allah) or runs after committing murder, or theft (and takes refuge in Mecca).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 104

   صحيح البخاري4295خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   صحيح البخاري104خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   صحيح البخاري1832خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   صحيح مسلم3304خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   جامع الترمذي809خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   سنن النسائى الصغرى2879خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 104  
´مکہ میں خون ریزی جائز نہیں`
«. . . ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ مکہ کو اللہ نے حرام کیا ہے، آدمیوں نے حرام نہیں کیا۔ تو (سن لو) کہ کسی شخص کے لیے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو جائز نہیں ہے کہ مکہ میں خون ریزی کرے، یا اس کا کوئی پیڑ کاٹے، پھر اگر کوئی اللہ کے رسول (کے لڑنے) کی وجہ سے اس کا جواز نکالے تو اس سے کہہ دو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اجازت دی تھی، تمہارے لیے نہیں دی اور مجھے بھی دن کے کچھ لمحوں کے لیے اجازت ملی تھی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 104]

تشریح:
عمرو بن سعید یزید کی طرف سے مدینہ کے گورنر تھے، انھوں نے ابوشریح سے حدیث نبوی سن کر تاویل سے کام لیا اور صحابی رسول حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو باغی فسادی قرار دے کر مکہ شریف پر فوج کشی کا جواز نکالا حالانکہ ان کا خیال بالکل غلط تھا۔ حضرت ابن زبیر نہ باغی تھے نہ فسادی تھے۔ نص کے مقابلہ پر رائے و قیاس و تاویلات فاسدہ سے کام لینے والوں نے ہمیشہ اسی طرح فسادات برپا کر کے اہل حق کو ستایا ہے۔ حضرت ابوشریح کا نام خویلد بن عمرو بن صخر ہے اور بخاری شریف میں ان سے صرف تین احادیث مروی ہیں۔ 68ھ میں آپ نے انتقال فرمایا رحمہ اللہ و رضی اللہ عنہ۔

چونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے یزید کی بیعت سے انکار کر کے حرم مکہ شریف کو اپنے لیے جائے پناہ بنایاتھا۔ اسی لیے یزید نے عمرو بن سعید کو مکہ پر فوج کشی کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے۔ اور حرم مکہ کی سخت بے حرمتی کی گئی  انا للہ وانا الیہ راجعون۔  حضرت زبیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے تھے۔ آج کل بھی اہل بدعت حدیث نبوی کو ایسے بہانے نکال کر رد کر دیتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 104   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 809  
´مکہ کی حرمت کا بیان۔`
ابوشریح عدوی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید ۲؎ سے - جب وہ مکہ کی طرف (عبداللہ بن زبیر سے قتال کے لیے) لشکر روانہ کر رہے تھے کہا: اے امیر! مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک ایسی بات بیان کروں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن فرمایا، میرے کانوں نے اسے سنا، میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا، جب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: مکہ (میں جنگ و جدال کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے۔ لوگوں نے حرام نہیں کیا ہے، لہٰذا کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 809]
اردو حاشہ:
1؎: (حج کے احکام و مناسک کی وضاحت ہے) حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے اس کی فرضیت 5ھ؁ یا 6ھ؁میں ہوئی اور بعض نے 9ھ؁ یا 10ھ؁کہا ہے،
زادالمعاد میں ابن القیم کا رجحان اسی طرف ہے۔

2؎:
عمرو بن سعید:
یزید کی طرف سے مدینہ کا گونر تھا اور یزید کی حکومت کا عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کی خلافت کے خلاف لشکر کشی کرنا اور وہ بھی مکہ مکرمہ پر قطعا غلط تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 809   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:104  
104. حضرت ابوشریح ؓ سے روایت ہے، انہوں نے (گورنر مدینہ) عمرو بن سعید سے کہا جب کہ وہ مکے کی طرف فوج بھیج رہا تھا: امیر (گورنر) صاحب! مجھے اجازت دے کہ میں تجھے وہ حدیث سناؤں جو نبی ﷺ نے فتح مکہ کے دوسرے دن بیان فرمائی تھی۔ جسے میرے کانوں نے سنا، دل نے یاد رکھا اور میری دونوں آنکھوں نے آپ کو دیکھا جب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی۔ آپ نے اللہ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: مکے (میں جنگ و جدال کرنے) کو اللہ نے حرام کیا ہے لوگوں نے اسے حرام نہیں کیا، لہٰذا اگر کوئی شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ مکے میں خون ریزی کرے، یا وہاں سے کوئی درخت کاٹے۔ اگر کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کے قتال سے جواز پیدا کرے تو اس سے کہہ دینا کہ اللہ نے اپنے رسول کو تو اجازت دی تھی لیکن تمہیں نہیں دی ہے۔ اور مجھے بھی دن میں کچھ وقت کے لیے اجازت تھی اور آج اس کی حرمت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:104]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی جو شخص یہاں حاضر ہے اسے چاہیے کہ غائب کو یہ خبر پہنچادے ہمیں خبر دار کرتا ہے کہ اگر علمی مجلس میں کوئی دین کی بات کسی کے کان میں پڑے اور وہ اسے محفوظ کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا ہو تو اسے چاہیے کہ مجلس سے غیر حاضر کو وہ بات پہنچا دے تاکہ اس ذریعے سے عمل و کردار کی اصلاح ہوتی رہے۔

حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر نمائندگان بلاد کی مشاورت سے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد مقرر کر لیا تھا، ان میں انتظامی صلاحیت اور امور خلافت کی قابلیت موجود تھی، پھر بلاد اسلامیہ کے گورنروں کے ذریعے سے باشندگان سے بیعت لی گئی لیکن حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیعت نہ کی، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل کوفہ کی دعوت پر مدینہ منورہ چھوڑ گئے اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ مکرمہ پہنچ کر وہاں کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔
یزید نے مدینے کے گورنر عمرو بن سعید کو لکھا کہ مکے میں عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قتال کے لیے لشکر کشی کی جائے۔
جب انھوں نے مدینے سے مکہ مکرمہ لشکر بھیجنے کا ارادہ کیا تو حضرت ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فریضہ تبلیغ ادا کیا جس کا حدیث میں ذکر ہے۔

حضرت ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حق و صداقت پر مبنی باتیں سن کر عمرو بن سعید نے جو جواب دیا وہ (كلمة حق أريد بها الباطل)
بات صحیح مگر مقاصد برے کا آئینہ دار ہے کیونکہ دو مسئلے ہیں۔
ایک ہے حرم مکہ پر فوج کشی اور دوسرا حدود حرم میں مجرم کو سزا دینا۔
اس کا جواب اس لیے غلط تھا کہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جلیل القدر اور صاحب منقبت صحابی ہیں وہ نہ تو خون ناحق کرنے کے بعد مکہ میں روپوش ہوئے تھے اور نہ انھوں نے چوری ہی کا ارتکاب کر کے یہاں پناہ لی تھی بہر حال گورنرمدینہ عمرو بن سعید کا یہ اقدام فوج کشی کسی طرح بھی درست نہ تھا۔
(فتح الباري: 263/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 104   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.