الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: سجدہ سھو کا بیان
The Book of As-Sahw (Forgetting)
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي السَّهْوِ إِذَا قَامَ مِنْ رَكْعَتَيِ الْفَرِيضَةِ:
1. باب: اگر چار رکعت نماز میں پہلا قعدہ نہ کرے اور بھولے سے اٹھ کھڑا ہو تو سجدہ سہو کرے۔
(1) Chapter. What is said regarding the Sahw. If someone gets up (for the third Raka without sitting) after the second Raka of a compulsory Salat (prayer).
حدیث نمبر: 1225
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن يحيى بن سعيد، عن عبد الرحمن الاعرج، عن عبد الله ابن بحينة رضي الله عنه , انه قال:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام من اثنتين من الظهر لم يجلس بينهما، فلما قضى صلاته سجد سجدتين ثم سلم بعد ذلك".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , أَنَّهُ قَالَ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ مِنَ اثْنَتَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ لَمْ يَجْلِسْ بَيْنَهُمَا، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید انصاری نے خبر دی، انہیں عبدالرحمٰن اعرج نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی دو رکعت پڑھنے کے بعد بیٹھے بغیر کھڑے ہو گئے اور قعدہ اولیٰ نہیں کیا، جب نماز پوری کر چکے تو دو سجدے کئے، پھر ان کے بعد سلام پھیرا۔

Narrated `Abdullah bin Buhaina: Allah's Apostle got up after the second rak`a of the Zuhr prayer without sitting in between (the second and the third rak`at). When he finished the prayer he performed two prostrations (of Sahu) and then finished the prayer with Taslim.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 22, Number 316

   صحيح البخاري829عبد الله بن مالكبهم الظهر فقام في الركعتين الأوليين لم يجلس فقام ا
   صحيح البخاري830عبد الله بن مالكصلى بنا رسول الله الظهر فقام وعليه جلوس فلما كان في آخر صلاته سجد سجدتين وهو جالس
   صحيح البخاري6670عبد الله بن مالكصلى بنا النبي فقام في الركعتين الأوليين قبل أن يجلس فمضى في صلاته فلما قضى صلاته انتظر الناس تسليمه فكبر وسجد قبل أن يسلم ثم رفع رأسه ثم كبر وسجد ثم رفع رأسه وسلم
   صحيح البخاري1225عبد الله بن مالكقام من اثنتين من الظهر لم يجلس بينهما فلما قضى صلاته سجد سجدتين ثم سلم بعد ذلك
   صحيح البخاري1224عبد الله بن مالكصلى لنا رسول الله ركعتين من بعض الصلوات ثم قام فلم يجلس فقام الناس معه فلما قضى صلاته ونظرنا تسليمه كبر قبل التسليم فسجد سجدتين وهو جالس ثم سلم
   صحيح البخاري1230عبد الله بن مالكقام في صلاة الظهر وعليه جلوس فلما أتم صلاته سجد سجدتين فكبر في كل سجدة وهو جالس قبل أن يسلم وسجدهما الناس معه مكان ما نسي من الجلوس
   صحيح مسلم1269عبد الله بن مالكصلى لنا رسول الله ركعتين من بعض الصلوات ثم قام فلم يجلس فقام الناس معه فلما قضى صلاته ونظرنا تسليمه كبر فسجد سجدتين وهو جالس قبل التسليم ثم سلم
   صحيح مسلم1271عبد الله بن مالكقام في الشفع الذي يريد أن يجلس في صلاته فمضى في صلاته فلما كان في آخر الصلاة سجد قبل أن يسلم ثم سلم
   صحيح مسلم1270عبد الله بن مالكقام في صلاة الظهر وعليه جلوس فلما أتم صلاته سجد سجدتين يكبر في كل سجدة وهو جالس قبل أن يسلم وسجدهما الناس معه مكان ما نسي من الجلوس
   جامع الترمذي391عبد الله بن مالكقام في صلاة الظهر وعليه جلوس فلما أتم صلاته سجد سجدتين يكبر في كل سجدة وهو جالس قبل أن يسلم وسجدهما الناس معه مكان ما نسي من الجلوس
   سنن أبي داود1034عبد الله بن مالكصلى لنا رسول الله ركعتين ثم قام فلم يجلس فقام الناس معه فلما قضى صلاته وانتظرنا التسليم كبر فسجد سجدتين وهو جالس قبل التسليم ثم سلم
   سنن النسائى الصغرى1179عبد الله بن مالكصلى فقام في الركعتين فسبحوا فمضى فلما فرغ من صلاته سجد سجدتين ثم سلم
   سنن النسائى الصغرى1224عبد الله بن مالكقام في الصلاة وعليه جلوس فسجد سجدتين وهو جالس قبل التسليم
   سنن النسائى الصغرى1262عبد الله بن مالكقام في الثنتين من الظهر فلم يجلس فلما قضى صلاته سجد سجدتين كبر في كل سجدة وهو جالس قبل أن يسلم وسجدهما الناس معه مكان ما نسي من الجلوس
   سنن النسائى الصغرى1178عبد الله بن مالكصلى فقام في الشفع الذي كان يريد أن يجلس فيه فمضى في صلاته حتى إذا كان في آخر صلاته سجد سجدتين قبل أن يسلم ثم سلم
   سنن النسائى الصغرى1223عبد الله بن مالكصلى لنا رسول الله ركعتين ثم قام فلم يجلس فقام الناس معه فلما قضى صلاته ونظرنا تسليمه كبر فسجد سجدتين وهو جالس قبل التسليم ثم سلم
   سنن ابن ماجه1206عبد الله بن مالكصلى صلاة أظن أنها الظهر فلما كان في الثانية قام قبل أن يجلس فلما كان قبل أن يسلم سجد سجدتين
   سنن ابن ماجه1207عبد الله بن مالكقام في ثنتين من الظهر نسي الجلوس حتى إذا فرغ من صلاته إلا أن يسلم سجد سجدتي السهو وسلم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم134عبد الله بن مالكقضى صلاته وانتظرنا تسليمه كبر، فسجد سجدتين وهو جالس قبل السلام، ثم سلم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم137عبد الله بن مالكقام من اثنتين من الظهر لم يجلس فيهما، فلما قضى صلاته سجد سجدتين ثم سلم بعد ذلك
   بلوغ المرام262عبد الله بن مالكصلى بهم الظهر فقام في الركعتين الاوليين ولم يجلس فقام الناس معه حتى إذا قضى الصلاة وانتظر الناس تسليمه كبر وهو جالس،‏‏‏‏ وسجد سجدتين قبل ان يسلم ثم سلم
   مسندالحميدي927عبد الله بن مالكصلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة أظن أنها العصر، فقام في الثانية، ولم يجلس، فلما كان في آخر صلاته سجد سجدتين من قبل أن يسلم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 137  
´اگر آدمی نماز میں بھول جائے تو کیا کرے`
«. . . 489- وعن يحيى بن سعيد عن عبد الرحمن الأعرج عن عبد الله بن بحينة أنه قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام من اثنتين من الظهر لم يجلس فيهما، فلما قضى صلاته سجد سجدتين ثم سلم بعد ذلك. . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی دو رکعتوں کے بعد (تشہد میں) بیٹھے بغیر کھڑے ہو گئے۔ جب نماز مکمل ہوئی تو دو سجدے کئے پھر ان کے بعد سلام پھیرا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 137]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1225، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ اگر نماز میں بھول جائیں تو دو سجدے کئے جاتے ہیں جنھیں سجدہ سہو بھی کہا جاتا ہے۔
➋ سجدۂ سہو دونوں طرف سلام پھیرنے سے پہلے بھی جائز ہے اور بعد میں بھی۔ نیز دیکھئے: [الموطأ ح128، 156،البخاري 1228، مسلم 573/97]
➌ بعض لوگ تشہد پڑھ کر صرف ایک طرف سلام پھیرتے ہیں، یہ ثابت نہیں ہے۔
➍ شیعوں کے ایک مشہور امام ابن بابویہ القمی (متوفی 381ھ) لکھتے ہیں: «إن الغلاة والمفوضة لعنهم الله ينكرون سهو النبى صلّى الله عليه وآله وسلم يقولون لو جاز أن يسهو عليه السلام فى الصلاة جاز أن يسهو فى التبليغ لأن الصلوة عليه فريضة كما أن التبليغ عليه فريضة وهذا لا يلزمنا۔۔۔ وليس سهو النبى صلّى الله عليه وآله وسلم كسهونا لأن سهوه من الله عزوجل وإنما أسهاه ليعلم أنه بشر مخلوق فلا يتخذ ربًا معبودًا دونه وليعلم الناس يسهوه حكم السهو متي سهوا وسهونا عن الشيطان۔۔۔»
اللہ غالیوں اور مفوضہ پر لعنت کرے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سہو کا انکار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اگر آپ علیہ السلام سے نماز میں سہو ہونا جائز ہے تو تبلیغ میں سہو ہونا بھی جائز ہے کیونکہ آپ پر جس طرح تبلیغ فرض ہے اُسی طرح نماز بھی فرض ہے۔ اور یہ ہمیں لازم نہیں آتا۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سہو ہماری سہو کی طرح نہیں ہے کیونکہ آپ کا بھولنا تو اللہ عزوجل کی طرف سے ہے اور اس نے آپ کو صرف اس لئے بھلایا گیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ آپ بشر، مخلوق ہیں تاکہ آپ کو اللہ کے علاوہ رب معبود نہ بنا لیا جائے اور لوگوں کو جب سہو ہو تو آپ کے سہو سے سہو کا حکم معلوم ہو جائے اور ہمارا بھولنا شیطان کی طرف سے ہے۔۔۔ [من لا يحضره الفقيه ج1 ص234]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 489   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 134  
´نمازی پہلے تشہد میں سہواً کھڑا ہو جائے تو اسے بیٹھنا نہیں چاہئے`
«. . . عن عبد الله بن بحينة انه قال: صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين ثم قام فلم يجلس فقام الناس معه. فلما قضى صلاته وانتظرنا تسليمه كبر، فسجد سجدتين وهو جالس قبل السلام، ثم سلم . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے (اور تشہد کے لئے) نہ بیٹھے تو لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کی اور ہم آپ کے سلام کا انتظار کرنے لگے تو آپ نے تکبیر کہی اور دو سجدے سلام سے پہلے بیٹھے ہوئے کئے پھر آپ نے سلام پھیرا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 134]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1224، و مسلم 570، من حديث مالك به]

تفقه
➊ مخلوقات میں سے کوئی بھی وہم اور نسیان سے محفوظ نہیں ہے سوائے اس کے جسے اللہ محفوظ رکھے۔
➋ اگر نمازی پہلے تشہد میں سہواً کھڑا ہو جائے تو اسے بیٹھنا نہیں چاہئے بلکہ نماز مکمل کر کے آخر میں سجدہ سہو یعنی دو سجدے سلام سے پہلے یا بعد میں کر لینے چاہئیں۔ اگر کوئی شخص ایسی حالت میں کھڑا ہو جانے کے بعد بیٹھ جائے تو جمہور علماء کے نزدیک اس کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔ دیکھئے: [التمهيد 10/185]
➌ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے تو تیسری رکعت میں (تشہد کے بغیر) کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے سبحان اللہ کہا: تو آپ نہیں بیٹھے بلکہ لوگوں کو کھڑے ہونے کا اشارہ کیا پھر نماز پڑھ کر (آخر میں) دو سجدے کئے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 34/2 ح4493 و سنده صحيح]
اس مفہوم کی مفصل روایت سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے۔ دیکھئے: [المستدرك 1/325 ح1214]، [والاوسط لابن المنذر 3/288 وسنده صحيح]
➍ سجدہ سہو میں ایک طرف سلام پھیرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے۔
➎ اگر امام نماز میں بھول جائے اور بعد میں سجدہ سہو بھی بھول جائے تو حکم بن عتیبہ کے نزدیک مقتدیوں کو سجدہ سہو کرنا چاہئیے اور حماد بن ابی سلیمان کے نزدیک ان پر سجدہ سہو نہیں ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/39 ح4525 وسنده صحيح]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث صحيح بخاري [1226]، صحيح مسلم [572] سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر امام سجدہ سہو بھول جائے تو سلام پھیرنے کے بعد بھی وہ دو سجدے (لوگوں کے ساتھ) کر لے۔
➏ اس پر علماء کا اجماع ہے کہ نماز میں رکوع، سجود، قیام اور آخری جلسہ فرض ہے۔ [التمهيد 10/189] لہٰذا ان میں سے جو رہ گیا تو رکعت رہ گئی، اس رکعت کا اعادہ کرنا پڑے گا۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 81   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1034  
´دو رکعت پر بغیر تشہد پڑھے اٹھ جائے تو کیا سجدہ سہو کرے؟`
عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو دو رکعت پڑھائی، پھر کھڑے ہو گئے اور قعدہ (تشھد) نہیں کیا تو لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے، پھر جب آپ نے اپنی نماز پوری کر لی اور ہم سلام پھیرنے کے انتظار میں رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے الله أكبر کہہ کر دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1034]
1034۔ اردو حاشیہ:
➊ مقتدیوں پر امام کی اقتداء واجب ہے، خواہ وہ بھو ل رہا ہو۔ امام کو متنبہ کرنا ان کا شرعی حق ہے۔
➋ درمیانی تشہد رہ جائے تو سجدہ سہو سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔
➌ راوی حدیث حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے والد کا نام مالک اور بحینہ ان کی والدہ کا نام ہے۔ اس لئے محدث جب ان کا پورا نام عبدا للہ بن مالک بن بحینہ لکھتے ہیں تو ابن بحینہ کے شروع میں ہمزہ ضرور لکھتے ہیں تاکہ معلوم رہے کہ یہ عبداللہ کی صفت ہے نہ کہ مالک کی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1034   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1206  
´جو شخص بھول سے دو رکعت پڑھ کر کھڑا ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابن بحینہ (عبداللہ بن مالک) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز پڑھائی، میرا خیال ہے کہ وہ ظہر کی نماز تھی، جب آپ دوسری رکعت میں تھے تو تشہد کیے بغیر (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہو گئے، پھر جب آپ آخری تشہد میں بیٹھے تو سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کئے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1206]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
درمیانی تشہد بھولے سے رہ جائے تو آخر میں سجدہ سہو کرلینا چاہیے۔

(2)
سجدہ سہو سلام سے پہلے بھی جائز ہے۔
اور سلام کے بعد بھی دیکھئے: (حدیث 1213)

(3)
سہو کے دو سجدے ہوتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1206   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 262  
´سجود سہو وغیرہ کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز ظہر پڑھائی تو دو رکعت ادا کر کے تشہد میں نہ بیٹھے اور سیدھے کھڑے ہو گئے اور مقتدی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی کھڑے ہو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر لی تو لوگ سلام پھیرنے کے انتظار میں تھے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھے ہی «الله اكبر» کہا اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا۔
اسے ساتوں یعنی احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ البتہ یہ الفاظ بخاری کے ہیں اور مسلم کی روایت میں ہے کہ بیٹھے ہوئے ہر سجدہ کے لیے «الله اكبر» کہتے تھے اور لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ سہو کیا۔ دو رکعت کے بعد تشہد میں بیٹھنا بھول گئے تھے، اس کی تلافی کے لیے دو سجدے کیے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 262»
تخریج:
«أخرجه البخاري، السهو، باب ما جاء في السهو إذا قام من ركعتي الفريضة، حديث:1224، ومسلم، المساجد، باب السهو في الصلاة والسجود له، حديث:570، وأبوداود، الصلاة، حديث:1034، والترمذي، الصلاة، حديث:391، والنسائي، السهو، حديث:1223، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1206، 1207، وأحمد:5 /345، 346.»
تشریح:
1. عربی میں بھول کے لیے دو الفاظ مستعمل ہیں: ایک سہو اور دوسرا نسیان۔
پہلے کا اطلاق عموماً افعال کے لیے ہوتا ہے اور دوسرے کا معلومات کے لیے۔
اس کے باوجود کبھی کبھی یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے ہم معنی بھی آجاتے ہیں۔
علماء میں سے شاید ایک بھی ایسا نہیں ہے جو نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نسیان کا قائل ہو۔
یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی ابلاغ احکام الٰہی اور شریعت کے پہنچانے میں نسیان لاحق نہیں ہوا اور لاحق ہونے کا امکان بھی نہیں‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰٓی﴾ (الأعلیٰ ۸۷:۶) باقی جہاں تک سہو کا معاملہ ہے‘ اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ آپ سے سہو کا امکان ہے اور عملاً ہوا بھی ہے۔
متعدد صحیح احادیث اس بارے میں کتب احادیث میں موجود ہیں اور بہت سے واقعات عملی طور پر اس کا ثبوت ہیں۔
ائمۂ اربعہ رحمہم اللہ بھی سہو کو نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ثابت سمجھتے ہیں۔
غالباً آج تک کسی نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس میں تو بہت سی حکمتیں ہیں جنھیں صاحب علم و بصیرت لوگ ہی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
2. دوسرا مسئلہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کسی نمازی کو تشہد اول بھول جائے تو اس نقصان کی تلافی سجدۂ سہو سے ہو جاتی ہے۔
سجدۂ سہو قبل از سلام کیا جائے یا بعد از سلام؟ احادیث سے آپ کا عمل دونوں طرح ثابت ہے۔
زندگی بھر ایک لگے بندھے طریقے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ثابت نہیں ہوتا کہ بس فلاں طریقے پر ساری عمر عمل فرماتے رہے‘ البتہ جب ائمہ رحمہم اللہ کا دور آیا اور تقلید شخصی پر عمل شروع ہوا تو ائمۂ کرام کے مقلدین نے اپنے اپنے دائرے میں صورتیں معین کرلیں۔
3.ایک رائے یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جس مقام پر جو طرز عمل اختیار فرمایا وہاں اسی طرح عمل کیا جائے۔
مگر باقی مواقع پر جس طرح تحقیق سے ثابت ہوا ہو اس پر عمل کرے۔
4.امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار (۳ /۱۲۲. ۱۲۸) میں اس طرز عمل کو بہتر قرار دیا ہے کہ نماز میں کمی واقع ہو جانے کی صورت میں سجدۂ سہو سلام پھیرنے سے پہلے کیا جانا چاہیے اور اگر زیادتی واقع ہو جائے تو سلام پھیرنے کے بعد کیا جائے‘ البتہ ایک طرف سلام پھیر کر سجدہ کرنا‘ پھر تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیرنا‘ صحیح احادیث کی روشنی میں نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 262   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1225  
1225. حضرت عبداللہ ابن بحینہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نماز ظہر کی دو رکعتوں میں بیٹھے بغیر ہی کھڑے ہو گئے۔ جب آپ اپنی نماز پوری کرنے کے قریب تھے تو دو سجدے کیے۔ اس کے بعد آپ نے سلام پھیرا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1225]
حدیث حاشیہ:
اس میں ان پر رد ہے جو کہتے ہیں کہ سہو کے سب سجدے سلام کے بعد ہیں۔
(فتح الباري)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1225   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1225  
1225. حضرت عبداللہ ابن بحینہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نماز ظہر کی دو رکعتوں میں بیٹھے بغیر ہی کھڑے ہو گئے۔ جب آپ اپنی نماز پوری کرنے کے قریب تھے تو دو سجدے کیے۔ اس کے بعد آپ نے سلام پھیرا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1225]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث میں رسول اللہ ﷺ کے دوران نماز میں بھولنے کا بیان ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ لوگوں نے سبحان اللہ کہا لیکن آپ اپنی نماز میں جاری رہے۔
(سنن النسائي، التطبیق، حدیث: 1179)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے دونوں سجدوں میں جاتے وقت اور اٹھتے وقت اللہ أکبر کہا۔
(صحیح البخاري، السھو، حدیث: 1230، و فتح الباري: 121/3)
اس سے معلوم ہوا کہ سجدۂ سہو میں تکبیر بآواز بلند اور درمیانی فاصلہ ہے، نیز پتہ چلا کہ امام کے ساتھ مقتدی بھی سجدہ کریں گے، اگرچہ وہ بھولنے میں امام کے شریک نہ بھی ہوں۔
(فتح الباري: 121/3، 122) (2)
امام بخاری ؒ کے نزدیک تشہد اول واجب نہیں، چنانچہ انہوں نے مذکورہ حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
تشہد اول غیر واجب ہے۔
آپ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشہد اول بھول گئے اور کھڑے ہو گئے۔
لوگوں نے سبحان اللہ کہا، لیکن آپ نہ بیٹھے۔
اگر واجب ہوتا تو آپ دوبارہ بیٹھ کر اس کی تلافی کرتے۔
آپ نے صرف سجدۂ سہو پر اکتفا کیا۔
بہرحال اس روایت سے سجدۂ سہو کے ایک سبب کا پتہ چلتا ہے کہ نمازی جب اپنی نماز میں کسی کمی کا مرتکب ہو تو اس کی تلافی سجدۂ سہو سے ہو گی، چنانچہ دیار عرب کے مشہور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ نے اس موضوع پر ایک رسالہ لکھا ہے۔
اس میں فرماتے ہیں کہ سجدۂ سہو کے تین اسباب ہیں:
٭ نماز میں کسی قسم کا اضافہ۔
٭ دوران نماز کسی قسم کی کمی۔
٭ نماز میں شک و شبہ پڑ جانا۔
مذکورہ حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے تشہد چھوڑ دینے کی وجہ سے سجدۂ سہو کیا تھا، گویا نماز میں کمی کر دی تھی۔
ہم مذکورہ رسالے سے دوران نماز میں کمی کی بنا پر سجدۂ سہو کے مسائل بیان کرتے ہیں۔
اگر نماز میں کوئی رکن رہ جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر تکبیر تحریمہ ہی رہ گئی، خواہ دانستہ یا بھول کر تو سرے سے نماز نہیں ہو گی کیونکہ تکبیر تحریمہ نماز کا ایک ایسا بنیادی رکن ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
اگر تکبیر تحریمہ کے علاوہ کوئی رکن دانستہ چھوڑ دیا جائے تو بھی نماز باطل ہے کیونکہ جان بوجھ کر کسی رکن کو چھوڑ دینا نماز کو خود ہی باطل کر دینا ہے۔
اگر نادانستہ طور پر تکبیر تحریمہ کے علاوہ کسی رکن کو چھوڑ دیا جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں:
٭ اگر نمازی اگلی رکعت میں متروکہ رکن تک پہنچ چکا ہے اور اسے یاد نہیں آتا تو اس صورت میں پہلی رکعت باطل ہو جائے گی، دوسری رکعت خودبخود اس کے قائم مقام ہو گی، مثلاً:
ایک نمازی پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ بھول گیا اور اسے دوسری رکعت میں دو سجدوں کے درمیان بیٹھے ہوئے یاد آیا کہ میں نے پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ نہیں کیا تھا، چونکہ وہ رکن متروک تک پہنچ چکا ہے اور اس کی پہلی رکعت اس کی ادائیگی کے بغیر پڑھی گئی ہے، لہذا پہلی رکعت باطل ہو گی اور دوسری رکعت اس کے قائم مقام ہو گی۔
اس طرح وہ اپنی نماز کو پورا کرے اور سلام پھیر دے، پھر سجدۂ سہو کر کے دوبارہ سلام پھیرے۔
٭ اگر دوسری رکعت میں متروکہ رکن تک پہنچنے سے پہلے پہلے اسے یاد آ گیا کہ میری پہلی رکعت میں دوسرا سجدہ رہ گیا ہے تو فورا اٹھ کر متروکہ رکن ادا کرے۔
اس کے بعد بقیہ نماز پوری کرے، مثلاً:
ایک نمازی پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ اور اس سے قبل بیٹھنا بھول گیا اور اسے دوسری رکعت کے رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد یاد آیا کہ میری پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ رہ گیا ہے تو وہ فوراً بیٹھ جائے اور متروکہ سجدہ کرے۔
اس کے بعد اپنی بقیہ نماز ادا کرے اور سلام پھیر دے۔
پھر سجدۂ سہو کر کے دوبارہ سلام پھیرے۔
اگر نماز میں رکن کے بجائے کوئی دوسرا واجب رہ گیا ہے تو اگر نمازی نے اس واجب کو دانستہ ترک کیا ہے تو اس صورت میں اس کی نماز سرے سے نہیں ہو گی اور اگر بھول کر چھوڑا ہے تو اس کی تین صورتیں ہیں:
٭ جہاں وہ واجب ادا ہوتا ہے اس مقام پر فوراً یاد آ گیا تو اسے مکمل کرے، مثلاً:
ایک نمازی نے دوسری رکعت کے آخری سجدے سے سر اٹھایا اور وہ اپنی دانست کے مطابق تیسری رکعت کے لیے اٹھنا چاہتا ہے، حالانکہ اس نے تشہد نہیں پڑھا، لیکن اٹھنے سے پہلے پہلے یاد آ گیا تو اس صورت میں وہ بیٹھا رہے اور تشہد پڑھ کر اپنی نماز مکمل کرے۔
اس قسم کے سہو و نسیان پر کوئی سجدہ نہیں۔
٭ اگر اسے تیسری رکعت کے لیے اٹھنے کے بعد یاد آیا، لیکن ابھی تک پوری طرح سیدھا کھڑا نہیں ہو پایا تھا کہ اسے متروکہ واجب یاد آ گیا تو فورا اٹھ کر تشہد پڑھے اور اپنی نماز مکمل کر کے سلام پھیرے۔
اس کے بعد سجدۂ سہو کرے اور آخر میں دوبارہ سلام پھیرے۔
٭ اگر اسے دوسرا رکن شروع کرنے کے بعد یاد آیا تو اس صورت میں متروکہ واجب ساقط ہو جائے گا اور وہ اس کے بغیر ہی نماز ادا کرے گا، مثلاً:
نمازی تیسری رکعت ادا کرنے کے لیے تشہد پڑھے بغیر پوری طرح سیدھا کھڑا ہو گیا تو اس صورت میں تشہد ساقط ہو جائے گا۔
نمازی تشہد کے بغیر ہی اپنی نماز مکمل کرے اور سلام سے قبل سجدۂ سہو کر کے آخر میں سلام پھیر دے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں ہے۔
(سجودالسھو للشیخ محمد بن صالح العثیمین) (3)
امام بخاری ؒ کی پہلی پیش کردہ حدیث میں نماز کی صراحت نہیں تھی جس میں رسول اللہ ﷺ کو سہو ہوا تھا، اس لیے دوسری روایت پیش کی جس میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو نماز ظہر میں سہو کا واقعہ پیش آیا تھا۔
آپ کی یہ بھول بھی ہمارے لیے ایک نمونہ ہے۔
اگر یہ واقعہ پیش نہ آتا تو سہو کے متعدد مسائل ہمیں معلوم نہ ہوتے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1225   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.