الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
معاشرتی آداب کا بیان
The Book of Manners and Etiquette
1. باب النَّهْيِ عَنِ التَّكَنِّي بِأَبِي الْقَاسِمِ وَبَيَانِ مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الأَسْمَاءِ:
1. باب: ابوالقاسم کنیت رکھنے کی ممانعت اور اچھے ناموں کا بیان۔
حدیث نمبر: 5598
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، ومحمد بن عبد الله بن نمير ، وابو سعيد الاشج ، ومحمد بن المثنى العنزي ، واللفظ لابن نمير، قالوا: حدثنا ابن إدريس ، عن ابيه ، عن سماك بن حرب ، عن علقمة بن وائل ، عن المغيرة بن شعبة ، قال: لما قدمت نجران سالوني، فقالوا: إنكم تقرءون يا اخت هارون وموسى قبل عيسى بكذا وكذا، فلما قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم سالته، عن ذلك، فقال: " إنهم كانوا يسمون بانبيائهم والصالحين قبلهم ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ نُمَيْرٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قال: لَمَّا قَدِمْتُ نَجْرَانَ سَأَلُونِي، فَقَالُوا: إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ يَا أُخْتَ هَارُونَ وَمُوسَى قَبْلَ عِيسَى بِكَذَا وَكَذَا، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلْتُهُ، عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: " إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَمُّونَ بِأَنْبِيَائِهِمْ وَالصَّالِحِينَ قَبْلَهُمْ ".
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب میں نجران میں آیا، تو وہاں کے (انصاری) لوگوں نے مجھ پر اعتراض کیا کہ تم پڑھتے ہو کہ (آیت) (اے ہارون کی بہن (مریم: 28) (یعنی مریم علیہا السلام کو ہارون کی بہن کہا ہے) حالانکہ (سیدنا ہارون موسیٰ علیہ السلام کے بھائی تھے اور) موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام سے اتنی مدت پہلے تھے (پھر مریم ہارون علیہ السلام کی بہن کیونکر ہو سکتی ہیں؟)، جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (یہ وہ ہارون تھوڑی ہیں جو موسیٰ کے بھائی تھے) بنی اسرائیل کی عادت تھی (جیسے اب سب کی عادت ہے) کہ وہ پیغمبروں اور اگلے نیکوں کے نام پر نام رکھتے تھے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ علیہ السلام بیان کرتے ہیں، جب میں علاقہ نجران آیا، لوگوں نے مجھ سے سوال کیا اور کہا، تم پڑھتے ہو، ہارون کی بہن ﴿يَا اُختَ هٰارُونَ﴾
ترقیم فوادعبدالباقی: 2135
   صحيح مسلم5598مغيرة بن شعبةيسمون بأنبيائهم والصالحين قبلهم
   جامع الترمذي3155مغيرة بن شعبةألا أخبرتهم أنهم كانوا يسمون بأنبيائهم والصالحين قبلهم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3155  
´سورۃ مریم سے بعض آیات کی تفسیر۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نجران بھیجا (وہاں نصاریٰ آباد تھے) انہوں نے مجھ سے کہا: کیا آپ لوگ «يا أخت هارون» ۱؎ نہیں پڑھتے؟ جب کہ موسیٰ و عیسیٰ کے درمیان (فاصلہ) تھا جو تھا ۲؎ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں انہیں کیا جواب دوں؟ میں لوٹ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو بتایا، تو آپ نے فرمایا: تم نے انہیں کیوں نہیں بتا دیا کہ لوگ اپنے سے پہلے کے انبیاء و صالحین کے ناموں پر نام رکھا کرتے تھے ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3155]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے ہارون کی بہن تیرا باپ غلط آدمی نہیں تھا،
اور نہ تیری ماں بدکارتھی۔

2؎:
پھر تو یہ بات غلط ہے کیوں کہ یہاں خطاب مریم سے ہے مریم کو ہارون کی بہن کہا گیا ہے،
ہارون موسیٰ کے بھائی تھے،
اور موسیٰ وعیسیٰ علیہما السلام کے زمانوں میں ایک لمبا فاصلہ ہے،
پھر مریم کو ہارون کی بہن کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟
3؎:
یعنی آیت میں جس ہارون کا ذکر ہے وہ مریم کے بھائی ہیں،
اور وہ ہارون جو موسیٰ کے بھائی ہیں وہ اور ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3155   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5598  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت مریم علیہا السلام کو ﴿يَا أُخْتَ هَارُونَ﴾ کہہ کر پکارا گیا ہے،
حالانکہ ہارون علیہ السلام،
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی ہیں،
جو حضرت مریم اور عیسیٰ علیہم السلام سے کافی عرصہ پہلے گزر چکے ہیں،
آپﷺ نے فرمایا کہ ہارون سے مراد یہاں موسیٰ علیہ السلام کا بھائی نہیں ہے،
بلکہ اور ہارون ہے اور بنو اسرائیل،
اپنی اولاد کے نام گزشتہ انبیاء اور نیک لوگوں کے نام پر رکھ لیتے تھے اور حضرت مریم کو ﴿يَا أُخْتَ هَارُونَ﴾ اس انسان کی نیکی اور پارسائی کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے کہا گیا،
وگرنہ وہ ان کا حقیقی بھائی نہ تھا اور اب علماء کے نزدیک بالاتفاق،
انبیاء کے نام پر نام رکھنا جائز ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو محمد نام رکھنے سے منع فرمایا ہے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نام کا شخص اگر کوئی غلط حرکت کرے تو لوگ اس کی غلط کاری پر لعن طعن کرتے ہیں تو گویا اس کے سبب آپ کے نام کو برا بھلا کہا گیا تو یہ آپ کے نام کی عظمت و احترام کے منافی ہے،
اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا،
یہ نام نہ رکھو،
لیکن جب ان کو بتایا گیا کہ یہ نام آپ نے خود بعض لوگوں کا رکھا ہے تو وہ خاموش ہو گئے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 5598   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.