الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
انبیائے کرام علیہم السلام کے فضائل
The Book of Virtues
35. باب عِلْمِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّهِ تَعَالَى وَشِدَّةِ خَشْيَتِهِ:
35. باب: اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ علم اور سب سے زیادہ خوف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے۔
حدیث نمبر: 6111
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابو كريب ، حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن مسلم ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: " رخص رسول الله صلى الله عليه وسلم في امر، فتنزه عنه ناس من الناس، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فغضب حتى بان الغضب في وجهه، ثم قال: ما بال اقوام يرغبون عما رخص لي فيه، فوالله لانا اعلمهم بالله، واشدهم له خشية ".وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَمْرٍ، فَتَنَزَّهَ عَنْهُ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَغَضِبَ حَتَّى بَانَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ: مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَرْغَبُونَ عَمَّا رُخِّصَ لِي فِيهِ، فَوَاللَّهِ لَأَنَا أَعْلَمُهُمْ بِاللَّهِ، وَأَشَدُّهُمْ لَهُ خَشْيَةً ".
ابو معاویہ نے ہمیں اعمش سے حدیث بیان کی، انھوں نے (ابوضحیٰ) مسلم سے، انھوں نے مسروق سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام میں رخصت روا رکھی۔ لوگوں میں سے کچھ نے خود کوایسا کرنے سے زیادہ پاکباز خیال کیا۔یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آیا حتیٰ کہ غصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور سےظاہر ہوا۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ لوگوں کا کیا حال ہے کہ جس کام میں مجھے رخصت دی گئی ہے اس سے احتراز کرتے ہیں؟ اللہ کی قسم میں تو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جانتا ہوں اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، رسول اللہ نے ایک کام کی رخصت دی تو کچھ لوگوں نے اس سے پر ہیز کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے، حتی کہ ناراضی کا چہرے سے اظہار ہوا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان لوگوں کا کیا حال ہے، اس کام سے بے رغبتی برتتے ہیں، جس کی مجھے رخصت دی گئی ہے، سو اللہ کی قسم! میں ان سے اللہ کے بارے میں زیادہ علم رکھتا ہوں او ران سے اس سے زیادہ ڈرتا ہوں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2356
   صحيح البخاري6101عائشة بنت عبد اللهأعلمهم بالله وأشدهم له خشية
   صحيح البخاري7301عائشة بنت عبد اللهأعلمهم بالله وأشدهم له خشية
   صحيح مسلم6111عائشة بنت عبد اللهأعلمهم بالله وأشدهم له خشية
   صحيح مسلم6109عائشة بنت عبد اللهأعلمهم بالله وأشدهم له خشية
   مشكوة المصابيح146عائشة بنت عبد اللهما بال اقوام يتنزهون عن الشيء اصنعه فوالله إني لاعلمهم بالله واشدهم له خشية

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 146  
´اس کا نام اسلام ہے`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا فَرَخَّصَ فِيهِ فَتَنَزَّهَ عَنْهُ قَوْمٌ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَ فَحَمِدَ اللَّهَ ثُمَّ قَالَ: «مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَتَنَزَّهُونَ عَنِ الشَّيْءِ أَصْنَعُهُ فَوَاللَّهِ إِنِّي لأعلمهم بِاللَّه وأشدهم لَهُ خشيَة» . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام کیا اور اس کے کرنے کی اجازت اور رخصت بھی دے دی لیکن بعض لوگوں نے اس سے پرہیز کیا۔ اور اس رخصت کو منظور نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر پہنچی اور آپ کو یہ معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے شرعی رخصت کو نہیں قبول کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، اللہ کی تعریف و شان بیان کرنے کے بعد فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہو گیا کہ جس کو میں کرتا ہوں اس سے یہ لوگ کنارہ کشی اختیار کر کے پرہیز کرتے اور اس کو پسند کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! میں اللہ کی خوشنودی اور اس کی مرضی کو سب سے زیادہ جانتا ہوں اور سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں، اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 146]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 6101]،
[صحيح مسلم 6109]

فقہ الحدیث:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت بہترین نمونہ زندگی ہے جسے ہر وقت خوشی اور محبت سے اپنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہئیے۔
➋ قرآن و حدیث کی مخالفت اور بدعات کی پیروی سے ہر وقت بچنا ضروری ہے۔
➌ دربار الٰہی میں صرف وہی عمل معتبر و مقبول ہے جس پر قرآن و حدیث کی مہر ثبت ہو۔
➍ آپ نے کون سا کام کیا تھا؟ اس کے بارے میں مولانا عبیداللہ مبارکپوری رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
ظاہر ہے اس سے مراد رات کے بعض حصے میں نیند کرنا اور بعض دنوں میں نفلی روزے نہ رکھنا ہے، آپ نے شادیاں بھی کیں۔ ديكهئے: [مرعاة المفاتيح 1ص 242] «والله اعلم»
↰ کتاب و سنت کے خلاف امور کا خطبہ میں اعلانیہ رد کرنا مسنون ہے , لیکن خاص آدمی کا نام لینے سے اجتناب کرنا چاہئیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت سے محبت اور رحمت للعالمین ہونے کی وجہ سے ناپسندیدہ بات کا رد تو فرما دیا، لیکن خطبے میں اپنے ان صحابہ کا نام نہیں لیا جنہوں نے اجتہادی لغزش کی وجہ سے مسنون کام سے اجتناب کرنے کا اظہار کیا تھا۔ داعی کو یہ طرز عمل ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئیے۔
➏ بعض اوقات موقع کی مناسبت سے صراحت کی بجاے اشارے کنایہ میں سمجھایا جا سکتا ہے , جیسا کہ امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث میں استدلال کیا ہے۔ ديكهيے: [صحيح بخاري مع فتح الباري 513/10 باب من لم يواجه الناس بالعتاب]
➐ دنیا کا کوئی آدمی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر نہیں ہو سکتا چاہے کتنے ہی نیک اعمال کرے اور علم کا کتنا ہی بڑا پہاڑ بن جائے، کجا یہ کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بڑھ جائے؟ ایسا تصور سرے سے باطل اور محال ہے۔
↰ یہاں پر بطور رد عرض ہے کہ ایک شخص نے لکھا ہے: انبیاء اپنی امت سے اگر ممتاز ہوتے ہیں تو علوم ہی میں ممتاز ہوتے ہیں۔ باقی رہا عمل، اس میں بسا اوقات بظاہر امتی مساوی ہو جاتے ہیں بلکہ بڑھ جاتے ہیں اور۔۔۔۔
◄ عرض ہے کہ اس شخص کا عقیدہ باطل اور مردود ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ امتیوں کے مساوی (برابر) ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کجا یہ کہ بڑھ جانے کا دعویٰ کر دیا جائے۔!
◄ اہل ایمان کا یہ عقیدہ ہے کہ ساری امت بلکہ ساری کائنات کے علوم و اعمال مل کر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم و اعمال تک نہیں پہنچ سکتے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو بہت لمبی عمر مل جائے اور وہ نیکیوں کے انبار لگا دے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عام صحابی کے درجے تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«لو وزن ايمان ابي بكر بايمان اهل الارض لرجح به .»
اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ایمان کا ساری زمین والوں کے ایمان سے وزن کیا جائے تو ان (سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ) کا ایمان بھاری ہو گا۔ [السنة لعبدالله بن أحمد بن حنبل قلمي ص49 ب ح 821، مطبوع 378/1 و سند حسن]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھنا چاہئیے کیوں کہ بندہ ذرہ سی گستاخی سے بھی ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے ساتھ رب العالمین کے غضب اور ابدی عذاب کا حقدار ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بچائے۔ «آمين»
➑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ پر عمل پیرا ہونے سے کبھی شرمانا نہیں چاہئیے، جو کہ احادیث کی صورت میں مسلمانوں کے پاس موجود ہے۔ بعض ملحدین اور بے دین لوگ داڑھی اور ٹخنوں سے اوپر ازار پر اعتراضات اور طعن و تشنیع کرتے ہیں، ایسے اعتراضات اور طعن و تشنیع سے قطعًا گھبرانا نہیں چاہئیے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل کرنے میں دونوں جہانوں کی کامیابی کا یقین ہونا چاہئیے۔
➒ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رحمت للعالمین ہیں۔
➓ اگر سنت میں کسی بات کی رخصت موجود ہے تو خواہ مخواہ تشدد نہیں کرنا چاہئیے۔ بعض لوگ تصوف کے جال میں پھنس کر مصنوی پرہیزگاری پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، یہ لوگ سخت گرمیوں کی دھوپ میں اور سخت سردیوں میں ٹھنڈے پانی میں بیٹھے رہتے ہیں۔ اس طرح کے سارے اعمال خلاف سنت ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 146   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6111  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
اگر کوئی انسان یا چند لوگ غلط کام کریں تو لوگوں کے سامنے ان کی تعیین کرنا،
ان کا نام لینا،
بلا ضرورت،
درست نہیں ہے اور آپ علم اور عمل دونوں میں آخری مرتبہ پر فائز تھے،
یہ دونوں قوتیں،
آپ میں کمال درجہ کی پائی جاتی تھیں اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے،
رخصتوں کو چھوڑ کر مشقت والا کام کرنا پسندیدہ نہیں ہے،
کیونکہ اس پر دوام و استمرار مشکل ہے اور آسان و سہل کام پر دوام و ہمیشگی ممکن ہے،
نیز،
انسان کے مقام عبدیت کے لیے رخصت پر عمل کرنا زیادہ مناسب ہے،
کیونکہ مشقت و عزیمت والا کام دلیری اور جسارت پر دلالت کرتا ہے،
جس کے باعث عجب اور خود پسندی کے پیدا ہونے کا خطرہ ہے اور یہ تواضع اور فروتنی کے منافی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 6111   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.