الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
72. بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الشَّهِيدِ:
72. باب: شہید کی نماز جنازہ پڑھیں یا نہیں؟
(72) Chapter. The funeral Salat (prayer) of a martyr.
حدیث نمبر: 1344
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث , حدثني يزيد بن ابي حبيب، عن ابي الخير، عن عقبة بن عامر،" ان النبي صلى الله عليه وسلم خرج يوما فصلى على اهل احد صلاته على الميت ثم انصرف إلى المنبر , فقال: إني فرط لكم وانا شهيد عليكم، وإني والله لانظر إلى حوضي الآن، وإني اعطيت مفاتيح خزائن الارض او مفاتيح الارض، وإني والله ما اخاف عليكم ان تشركوا بعدي ولكن اخاف عليكم ان تنافسوا فيها".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ: إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا ‘ ان سے ابوالخیر یزید بن عبداللہ نے ‘ ان سے عقبہ بن عامر نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا۔ دیکھو میں تم سے پہلے جا کر تمہارے لیے میر ساماں بنوں گا اور میں تم پر گواہ رہوں گا۔ اور قسم اللہ کی میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا (یہ فرمایا کہ) مجھے زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے (نتیجہ یہ کہ آخرت سے غافل ہو جاؤ گے)۔

Narrated `Uqba bin 'Amir: One day the Prophet went out and offered the funeral prayers of the martyrs of Uhud and then went up the pulpit and said, "I will pave the way for you as your predecessor and will be a witness on you. By Allah! I see my Fount (Kauthar) just now and I have been given the keys of all the treasures of the earth (or the keys of the earth). By Allah! I am not afraid that you will worship others along with Allah after my death, but I am afraid that you will fight with one another for the worldly things."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 428

   صحيح البخاري3596عقبة بن عامرإني فرطكم وأنا شهيد عليكم إني والله لأنظر إلى حوضي الآن أعطيت خزائن مفاتيح الأرض وإني والله ما أخاف بعدي أن تشركوا ولكن أخاف أن تنافسوا فيها
   صحيح البخاري6426عقبة بن عامرإني فرطكم وأنا شهيد عليكم الله لأنظر إلى حوضي الآن أعطيت مفاتيح خزائن الأرض أو مفاتيح الأرض الله ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي ولكني أخاف عليكم أن تنافسوا فيها
   صحيح البخاري4085عقبة بن عامرإني فرط لكم أنا شهيد عليكم أنظر إلى حوضي الآن أعطيت مفاتيح خزائن الأرض ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي لكني أخاف عليكم أن تنافسوا فيها
   صحيح البخاري6590عقبة بن عامرإني فرط لكم أنا شهيد عليكم أنظر إلى حوضي الآن أعطيت مفاتيح خزائن الأرض ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي لكن أخاف عليكم أن تنافسوا فيها
   صحيح البخاري1344عقبة بن عامرإني فرط لكم أنا شهيد عليكم أنظر إلى حوضي الآن أعطيت مفاتيح خزائن الأرض ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي لكن أخاف عليكم أن تنافسوا فيها
   صحيح مسلم5976عقبة بن عامرإني فرط لكم أنا شهيد عليكم أنظر إلى حوضي الآن أعطيت مفاتيح خزائن الأرض ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي لكن أخاف عليكم أن تتنافسوا فيها
   سنن النسائى الصغرى1956عقبة بن عامرإني فرط لكم وأنا شهيد عليكم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4085  
´ارشاد نبوی کہ احد پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے`
«. . . عَنْ عُقْبَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ , ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ:" إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ , وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ , وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ , أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ , وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا . . .»
. . . عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی، جیسے مردوں پر ادا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے آگے جاؤں گا، میں تمہارے حق میں گواہ رہوں گا۔ میں اب بھی اپنے حوض (حوض کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجی عطا فرمائی گئی ہے یا (آپ حوض کوثر نے یوں فرمایا) «مفاتيح الأرض» یعنی زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ (دونوں جملوں کا مطلب ایک ہی ہے)۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے لیے حرص کرنے لگو گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي: 4085]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4085کا باب: «بَابُ أُحُدٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ:»
ترجمہ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے احد پہاڑ کی فضیلت ذکر فرمائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے۔
اور ذیل میں تین احادیث ذکر فرمائیں، دو احادیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، جس میں واضح طور پر باب سے حدیث کی مناسبت موجود ہے، تیسری حدیث جو کہ سیدنا عقبہ بن عامر الجھنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس میں باب سے مناسبت لفظ «أحد» کے ساتھ ہے، یعنی ترجمۃ الباب میں احد کا ذکر ہے اور حدیث میں بھی لفظ احد مذکور ہے، لہٰذا نسبت لفظی موجود ہے۔

چنانچہ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة للترجمة لا تاتي الا من حديث إن احد مذكور فيه» [عمدة القاري للعيني: 438/17]
یعنی ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت لفظ «أحد» میں مذکور ہے۔
لہٰذا یہ مناسبت ظاہری ہے، یہ حقیر اور ناچیز بندہ کہتا ہے، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کہ ترجمۃ الباب کے دو اجزاء ہیں پہلا لفظ «أحد» اور دوسرا جزء لفظ «يحبنا» علامہ عینی اور دیگر شارحین کو وضاحت سے لفظ «أحد» کی مناسبت واضح ہوئی، مگر ترجمۃ الباب کا دوسرا جزء لفظ «يحبنا» سے کوئی مناسبت دکھلائی نہیں دیتی، لیکن اگر غور کیا جائے تو «يحبنا» کی مناسبت حدیث میں موجود ہے، مگر بہت گہری سوچ کے بعد، امام بخاری رحمہ اللہ کی فقاہت پر داد دینی چاہیے، آپ نے بڑے ہی دقیق انداز میں ایک بہت باریک چیز کی طرف اشارہ فرمایا ہے، وہ یہ ہے کہ تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے، اس میں حوض کوثر کا ذکر ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حوض کوثر سے وہی حضرات پانی پئیں گے جو جنتی ہوں گے، جن کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اتباع سے گہرا ہو گا، کیونکہ سنت سے دور رہنے والے اور بدعتی کو یہ پانی نصیب نہ ہو گا، لہٰذا حوض کوثر، جنت کی بہت بڑی نعمت ہے، بعین اسی طرح یہ احد پہاڑ کا تعلق بھی آخرت کے ساتھ قائم ہے، وہ کس طرح؟
امام ابن شبہ رحمہ اللہ تاریخ المدینہ میں مرفوعاً ذکر فرماتے ہیں کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے مزید روایت میں اضافہ ہے کہ:
«ان احدا هذا لعلي باب من أبواب الجنة .» اس کی سند میں یحییٰ بن عبداللہ متروک ہے۔ مگر مسند احمد کی حدیث اس مسئلے پر شاہد ہے۔
مذکورہ روایت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ احد پہاڑ کا بھی تعلق جنت سے ہے، بعین اسی طرح جس طرح سے حوضِ کوثر کا تعلق بھی جنت ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أن الحب من الجانبين على حقيقته وظاهره لكون أحد من جبال الجنة كما يثبت فى حديث أبى عبس بن جبر مرفوعا جبل أحد يحبنا و نحبه و هو من جبال الجنة [فتح الباري لابن حجر: 322/7]
حقیقتاً اور ظاہراً یہ محبت (پہاڑ کی) دونوں جانب ہے، (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس سے محبت ہے، اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے محبت کرتا ہے، یہ پہاڑ احد کا جنت کے پہاڑوں میں سے ہے، جیسا کہ حدیث مروی ہے، ابوعبس بن جبر سے مرفوعاً یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے اور وہ (احد) جنت کے پہاڑوں میں سے ہے۔
حافظ صاحب کے اس بیان سے اور پیش کردہ حدیث سے ہماری بیان کی ہوئی مناسبت میں مزید تقویت حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا اب ترجمۃ الباب کا دوسرا جزء «يحبنا» سے حدیث کی مناسبت واضح ہوئی کہ جس طرح حدیث کی اتباع اور بدعت سے بچنے والا ہی حوض کوثر سے پانی پیئے گا، بعین اسی طرح سے حدیث سے محبت رکھنے والا ہی احد پہاڑ سے محبت رکھے گا، لہٰذا احد پہاڑ کی محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے محبت کی دلیل ہے اور جو شخص سنت کی اتباع اور اس کی محبت میں اپنی زندگی بسر کرے گا تو یقیناً وہ حوض کوثر سے مستفید ہو گا، لہٰذا یہیں سے ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔

فائدہ:
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ امت محمدیہ کبھی بھی شرک میں ملوث نہیں ہو گی، چاہے وہ سجدے کرے، چاہے وہ منت و مرادیں قبر والوں سے وابستہ رکھے، الغرض کسی بھی حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی شرک میں مبتلا نہ ہوں گے اور وہ اپنے اس موقف کی تائید میں مذکورہ بالا حدیث اللہ کی قسم میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم شرک کرو گے سے استدلال کو اخذ کرتے ہیں۔
محترم قارئین! اس حدیث سے پوری امت کو مواحد ثابت کرنا ایک بہت بڑی غلط فہمی یا پھر بہت بڑی خیانت ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ہرگز یہ مطلب اخذ نہیں ہوتا کہ امت جو چاہے کرتی پھرے، لیکن وہ کبھی بھی شرک کے جرم کا ارتکا ب نہیں کرے گی، اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں، نمبر ایک، مذکورہ بالا حدیث کا تعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہے، اور دوم، قرآن مجید کی آیات اور دیگر احادیث واضح طور پر اس مسئلہ پر دال ہیں کہ امت سے کئی لوگ شرک کریں گے، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
«وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّـهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ .» [12-يوسف:106]
ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان رکھنے کے باوجود بھی مشرک ہیں۔
سورۃ یوسف کی آیت قیامت تک کے مسلمانوں کو مخاطب کرتی ہے اور یہ آیت مبارکہ واضح کرتی ہے کہ مشرک مسلمانوں میں قیامت تک ہوں گے، بلکہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر غور کیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس مسئلے کو اپنی حدیث کے ذریعہ حل فرمایا ہے۔
چنانچہ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ اپنی سنن میں حدیث کا ذکر فرماتے ہیں:
«وان مما أتخوف صلى امتي أئمة مضلين، وستعبد قبائل من أمتي الأوثان وستلحق قبائل من أمتي بالمشركين .» [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن: 3952]
مجھے اپنی امت کے بارے میں (سب سے زیادہ) گمراہ کرنے والے لیڈروں کا خوف ہے، میری امت کے کچھ قبیلے اوثان (بتوں) کی پوجا کریں گے اور میری امت کے کچھ قبائل مشرکوں سے مل جائیں گے۔
اس حدیث میں امت کے بارے میں صاف طور پر واضح کیا گیا ہے کہ امت کے کچھ لوگ بتوں کی پوجا کریں گے، یاد رکھیں! بتوں کی پوجا سے مراد مورتیاں نہیں ہیں، بلکہ ہر وہ شے ہے، جسے اللہ کے علاوہ پوجا جائے، چاہے وہ بت ہو، قبر ہو، بزرگ ہو، وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق امت کے کچھ لوگ مشرک ہو جائیں گے، اب رہا مسئلہ کہ کن لوگوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی امت میں شرک کا ڈر نہیں ہے؟ اس کے بارے میں جواب دیتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وان أصحابه لا يشركون بعده فكان كذالك .» فتح الباري لابن حجر: 762/6
(حدیث سے مراد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شرک نہ کریں گے، (لہٰذا حدیث کے مطابق) ایسا ہی ہوا تھا۔

امام قرطبی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«أنه قد أمن على جملة أصحابه ان يبدلوا دين الإسلام بدين الشرك .» [المفهم 93/6]
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس بات سے امن دیا کہ وہ دین اسلام کو چھوڑ کر شرک کی طرف مائل ہوں، (یعنی صحابہ کبھی شرک کی طرف نہیں جائیں گے، یہ امن انہیں نصیب ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے)۔
لہٰذا شرک سے امن صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کو تھا، جو مکمل طور پر مواحد تھے اور جنہوں نے ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور اسی حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جس حدیث میں شرک کرنے کی نفی ہے، اس حدیث سے مراد صحابہ ہیں جنہوں نے ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور ایمان کی حالت میں ہی فوت ہوئے، لہٰذا اس سے مراد کلی امت نہیں ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 51   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1344  
1344. حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک دن باہر تشریف لائے اور شہدائے اُحد پر نماز پڑھی جس طرح اموات پر نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے، پھر منبر کی طرف لوٹے اورفرمایا:میں تمھارا میرکاروں اور تم پر گواہ ہوں۔ اللہ کی قسم!میں اب اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین یا زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں اپنے بعد تمھارے متعلق شرک میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتا، لیکن مجھے خطرہ ہے کہ تم دنیا میں رغبت رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1344]
حدیث حاشیہ:
شہید فی سبیل اللہ جو میدان جنگ میں مارا جائے اس پر نماز جنازہ پڑھنے نہ پڑھنے کے بارے میں اختلاف ہے۔
اسی باب کے ذیل میں ہر دو احادیث میں یہ اختلاف موجود ہے۔
ان میں تطبیق یہ ہے کہ دوسری حدیث جس میں شہدائے احد پر نماز کا ذکر ہے اس سے مراد صرف دعا اور استغفار ہے۔
امام شافعی ؒ کہتے ہیں:
کأنه صلی اللہ علیه وسلم دعا لهم واستغفرلهم حین قرب أجله بعد ثمان سنین کالمودع للأحیاء والأموات۔
(تحفة الأحوذي)
یعنی اس حدیث میں جو ذکر ہے یہ معرکہ احد کے آٹھ سال بعد کا ہے۔
یعنی آنحضرت ﷺ اپنے آخری وقت میں شہدائے احد سے بھی رخصت ہونے کے لیے وہاں گئے اور ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔
طویل بحث کے بعد المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں۔
قلت الظاهر عندي أن الصلوٰة علی الشهید لیست بواجبة فیجوز أن یصلی علیها ویجوز ترکها واللہ أعلم۔
یعنی میرے نزدیک شہید پر نماز جنازہ پڑھنا اور نہ پڑھنا ہر دو امور جائز ہیں۔
واللہ اعلم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1344   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1344  
1344. حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک دن باہر تشریف لائے اور شہدائے اُحد پر نماز پڑھی جس طرح اموات پر نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے، پھر منبر کی طرف لوٹے اورفرمایا:میں تمھارا میرکاروں اور تم پر گواہ ہوں۔ اللہ کی قسم!میں اب اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین یا زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں اپنے بعد تمھارے متعلق شرک میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتا، لیکن مجھے خطرہ ہے کہ تم دنیا میں رغبت رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1344]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے شہید کی نماز جنازہ کے متعلق کوئی دو ٹوک فیصلہ نہیں دیا۔
ایسے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں طرح کی احادیث پیش کر کے انہوں نے یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا ہے۔
حدیث جابر سے نفی اور حدیث عقبہ بن عامر سے اثبات معلوم ہوتا ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ زین بن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ غالبا امام بخاری ؒ شہید کے دفن ہونے کے بعد اس کی قبر پر نماز جنازہ کی مشروعیت ثابت کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ شہدائے اُحد کے دفن ہو جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی ہے، دفن ہونے سے قبل نہیں پڑھی۔
اس طرح دونوں احادیث کے ظاہر پر عمل ممکن ہے۔
(فتح الباري: 267/3)
ہمارے نزدیک معرکے میں شہید ہونے والے کی نماز جنازہ عام انسان کی طرح واجب نہیں بلکہ جائز ہے، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔
ایک تو مذکورہ حدیث جسے امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ نے شہدائے اُحد پر اس طرح نماز پڑھی۔
جیسا کہ میت پر پڑھی جاتی ہے۔
٭ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت حمزہ کے پاس سے گزرے جن کا مثلہ کر دیا گیا تھا اور آپ نے شہدائے اُحد میں سے حضرت حمزہ ؓ کے علاوہ کسی کی نماز جنازہ نہ پڑھی۔
(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3137)
حضرت شداد بن ہاد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شہید کو اپنے جبے میں کفن دیا، پھر اس کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔
(سنن النسائي، الجنائز، حدیث: 1955)
ان احادیث کے مقابلے میں حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شہدائے اُحد کو ان کے خونوں سمیت دفن کرنے کا کم دیا اور ان پر نماز جنازہ نہیں پڑھی۔
(4)
ان احادیث کے پیش نظر ہمارا موقف یہ ہے کہ شہید کی نماز جنازہ پڑھنے یا نہ پڑھنے میں انسان کو اختیار ہے، لیکن زیادہ بہتر پڑھنا ہی ہے، کیونکہ دعا اور عبادت اجروثواب میں اضافے کا باعث ہے، البتہ شہید کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا اس کے متعلق خیر القرون میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں حضرت عبداللہ بن رواحہ، حضرت زید بن حارثہ اور حضرت جعفر طیار ؓ مدینہ منورہ سے باہر جنگ موتہ میں شہید ہوئے۔
رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی اطلاع دی گئی، لیکن آپ سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کیا ہو۔
ہمارے ہاں بڑی دھوم دھام سے شہید کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا رواج چل نکلا ہے اور اس کے لیے مندرجہ ذیل امور کی بجا آوری کو بھی ضروری خیال کیا جاتا ہے:
٭ شہید کی غائبانہ نماز جنازہ کے لیے بڑے بڑے اشتہارات شائع کر کے درودیوار پر لگائے جاتے ہیں۔
٭ مساجد اور دینی مراکز میں اس کے متعلق اعلانات کیے جاتے ہیں۔
٭ کسی قد آور شخصیت کو غائبانہ نماز جنازہ کی امامت کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔
٭ علاقہ بھر سے لوگوں کو جمع کرنے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں۔
٭ خواتین کو وہاں لے جانے کے لیے بسوں کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔
٭ اس تقریب میں تقاریر کے لیے مقررین کو دعوت دی جاتی ہے۔
٭ لوہا خوب گرم کرنے کے بعد خواتین و حضرات سے چندے کی بھرپور اپیل کی جاتی ہے۔
٭ آخر میں جلدی سے شہید کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھ کر عوام کو فارغ کر دیا جاتا ہے۔
اس انداز سے شہید کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کے متعلق وہ حضرات خود بھی مطمئن نہیں ہیں اور انہیں اس کے متعلق شرح صدر نہیں۔
بہرحال ہمارے نزدیک مذکورہ بالا انداز سے شہید کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا محل نظر ہے۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1344   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.