الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
97. بَابُ مَا يُنْهَى مِنْ سَبِّ الأَمْوَاتِ:
97. باب: اس بارے میں کہ مردوں کو برا کہنے کی ممانعت ہے۔
(97) Chapter. What is forbidden as regards: Abusing the dead.
حدیث نمبر: 1393
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، عن الاعمش، عن مجاهد، عن عائشة رضي الله عنها , قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا تسبوا الاموات فإنهم قد افضوا إلى ما قدموا"، ورواه عبد الله بن عبد القدوس، ومحمد بن انس، عن الاعمش، تابعه علي بن الجعد، وابن عرعرة، وابن ابي عدي، عن شعبة.حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَة، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا , قَالَتْ: قَالَ الّنَبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّمُوا"، وَرَوَاهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الْقُدُّوسِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، تَابَعَهُ عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، وَابْنُ عَرْعَرَةَ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے اعمش نے بیان کیا ‘ ان سے مجاہد نے بیان کیا اور ان سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ مردوں کو برا نہ کہو کیونکہ انہوں نے جیسا عمل کیا اس کا بدلہ پا لیا۔ اس روایت کی متابعت علی بن جعد ‘ محمد بن عرعرہ اور ابن ابی عدی نے شعبہ سے کی ہے۔ اور اس کی روایت عبداللہ بن عبدالقدوس نے اعمش سے اور محمد بن انس نے بھی اعمش سے کی ہے۔

Narrated `Aisha: The Prophet (p.b.u.h) said, "Don't abuse the dead, because they have reached the result of what they forwarded."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 476

   صحيح البخاري6516عائشة بنت عبد اللهلا تسبوا الأموات فإنهم قد أفضوا إلى ما قدموا
   صحيح البخاري1393عائشة بنت عبد اللهلا تسبوا الأموات فإنهم قد أفضوا إلى ما قدموا
   سنن النسائى الصغرى1938عائشة بنت عبد اللهلا تسبوا الأموات فإنهم قد أفضوا إلى ما قدموا
   بلوغ المرام1300عائشة بنت عبد الله‏‏‏‏لا تسبوا الاموات فإنهم قد افضوا إلى ما قدموا
   بلوغ المرام482عائشة بنت عبد اللهلا تسبوا الاموات،‏‏‏‏ فإنهم قد افضوا إلى ما قد قدموا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1300  
فوت شدہ لوگوں کو گالی مت دو۔
«‏‏‏‏وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏لا تسبوا الاموات فإنهم قد افضوا إلى ما قدموا .‏‏‏‏ اخرجه البخاري»
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردوں کو گالی مت دو کیونکہ یقیناً وہ اس چیز کی طرف پہنچ چکے جو انہوں نے آگے بھیجی۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1300]

تخریج:
[بخاري 6516]،
تحفۃ الاشراف [2/293 ]

مفردات:
«لَا تَسُبُّوا» «سَبَّ» «يَسُبُّ» ( «نصر» «ينصر») سے نہی کا صیغہ ہے یہ دراصل «سَبَّةٌ» ‏‏‏‏ سے مشتق ہے جس کا معنی ( «است») دبر ہوتا ہے «سَبَّهُ اَيْ طَعَنَهُ فِى اِسْتِهِ» یعنی اس نے اسے دبر میں کچوکا لگایا۔ اسی طرح یہ قبیح گالی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ اس میں بھی مخفی اعضاء کا تذکرہ صاف لفظوں میں یا کنائے کے ساتھ کر کے کسی کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔

فوائد:
مردوں کو گالی دینا کیوں منع ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوت شدہ لوگوں کو گالی دینے سے منع فرمایا خواہ مسلمان ہوں یا کافر اور اس کی دو وجہیں بیان فرمائیں۔ ایک تو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا اس کے پاس پہنچ چکے اب انہیں اس کا بدلہ مل رہا ہے۔ انہیں گالی دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان کا مالک خود ہی ان سے نمٹ لے گا۔
دوسری وجہ ترمذی میں مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مردوں کو گالی مت دو کیونکہ ایسا کرنے سے تم زندہ لوگوں کو ایذاء دو گے۔ [ ترمذي: 1982 ]
البانی نے اسے صحیح کہا ہے، دیکھئے السلسلہ الصحیحہ [2397] کیونکہ کوئی شخص بھی پسند نہیں کرتا کہ اس کے عزیزوں کو گالی دی جائے خواہ وہ کافر ہی ہوں۔

قرآن وحدیث میں کفار کی برائیاں کیوں بیان کی گئی ہیں:
مردوں کو گالی دینے کی حرمت کے باوجود قرآن و حدیث میں بہت سے فوت شدہ کفار کی برائیاں بیان کی گئی ہیں۔ بعض علماء نے اسے مردوں کو گالی مت دو کے منافی سمجھ کر اس کی توجیہ کی ہے کہ یہ اس حکم سے مستثنیٰ صورت ہے جیسا کہ غیبت کی بعض صورتیں حرمت سے مستثنیٰ ہیں۔
مگر اصل بات یہ ہے کہ کسی کافر کی غیبت سے منع کیا ہی نہیں گیا نہ ہی اس کی برائی بیان کرنا منع ہے بلکہ اگر مقصد کسی کو کسی شخص کے شر سے بچانا ہو یا شہادت ادا کرنا ہو تو مسلمان کی برائی بھی بیان کر سکتا ہے۔ اس حدیث میں جس چیز سے منع کیا گیا ہے وہ سب و شتم ہے۔ گندی گالی دینا۔ مردوں کو گالی دینا حرام ہے خواہ وہ مسلمان یوں یا کافر، کیونکہ انہیں گالی دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہاں اگر کوئی شخص زندہ ہے اور وہ گالی دینے میں پہل کرتا ہے تو اسے جواب میں اتنی ہی گالی دینا جائز ہے گو صبر افضل ہے۔ اسی طرح زندہ کافر کو ذلیل کرنے کے لیے گالی دینا جائز ہے۔ جیسا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حدیبیہ کے موقع پر کہا تھا:
«امصص بظر اللات انحن نفر عنه؟»
جاؤ لات کی شرم گاہ کو چوسو کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟
اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے احد کے دن سباع کو کہا تھا:
«يا ابن ام انمار مقطعة البطور» [صحيح بخاري، المغازي 25]
اے عورتوں کی شرم گاہوں کا ختنہ کرنے والی ام انمار کے بیٹے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 210   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 482  
´مرنے والوں کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردوں کو گالی مت دو کیونکہ وہ اس تک پہنچ چکے ہیں جو انہوں نے آگے بھیجا۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 482]
لغوی تشریح:
«لَا تَسُبُّوا» «سَبٌّ» سے ماخوذ ہے۔
باب «نَصَر» «يَنْصُرُ» ہے۔ گالی گلوچ، سب و شتم، برے اور قبیح وصف بیان کرنا۔
«أفْضَوْا» «إفضاء» سے ماخوذ ہے۔ پہنچ گئے ہیں، پا چکے ہیں۔
«إلٰي مَاقَدّٰمُوا» جو اعمال و افعال وہ آگے بھیج چکے ہیں۔ یہ تقدیم سے ماخوذ ہے۔
«فَتُؤدُو الّٔاحْيَاءَ» «إيذاء» سے ماخوذ ہے، یعنی تمہارا مردوں کو برا بھلا کہنا اور سب و شتم کرنا اس کے زندہ ورثاء و اقرباء کے لیے باعث اذیت ہے کیونکہ مرنے والوں کا ان سے قرابت داری کا تعلق ہے۔

«فائده:»
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مرنے والوں کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے کیونکہ کسی فوت ہونے والے کا اس انداز سے تذکرہ کرنا، بالخصوص مسلمان کا، جو اس کے عزیز و اقارب کے لیے اذیت اور تکلیف کا باعث ہو، باہمی لڑائی جھگڑے کا باعث بنتا ہے، اس لیے شریعت اسلامیہ نے اسے ممنوع قرار دیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 482   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1393  
1393. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:نبی کریم ﷺ نے فرمایا:مردوں کو بُرا بھلا نہ کہو،وہ جو کچھ کرچکے ہیں اس سے ہم آغوش ہوچکے ہیں۔ اس روایت کو عبداللہ بن عبدالقدوس اور محمد بن انس نے بھی اعمش سے بیان کیا ہے۔شعبہ سے روایت کرنے میں علی بن جعد،محمد بن عرعرہ اور ابن ابی عدی نے آدم کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1393]
حدیث حاشیہ:
یعنی مسلمان جو مرجائیں ان کا مرنے کے بعد عیب نہ بیان کرنا چاہیے۔
اب ان کو برا کہنا ان کے عزیزوں کو ایذا دینا ہے
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1393   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1393  
1393. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:نبی کریم ﷺ نے فرمایا:مردوں کو بُرا بھلا نہ کہو،وہ جو کچھ کرچکے ہیں اس سے ہم آغوش ہوچکے ہیں۔ اس روایت کو عبداللہ بن عبدالقدوس اور محمد بن انس نے بھی اعمش سے بیان کیا ہے۔شعبہ سے روایت کرنے میں علی بن جعد،محمد بن عرعرہ اور ابن ابی عدی نے آدم کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1393]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے گزرنے والے جنازے کی برائی کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
واجب ہو گئی۔
حضرت عمر فاروق ؓ نے دریافت کیا کہ کیا چیز واجب ہو گئی؟ آپ نے فرمایا:
اس کی برائی کرنے سے اس پر آگ واجب ہو گئی، کیونکہ تم زمین پر اللہ کی طرف سے گواہی دینے والے ہو۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1367)
میت کی برائی بیان کرنا اسے گالی دینا نہیں، لہذا مذکورہ حدیث پہلی حدیث کے منافی نہیں۔
(فتح الباري: 327/3)
میت کو برا بھلا کہنے کی دو قسمیں ہیں:
٭ کافر میت کو اگر برا بھلا کہنے سے کسی زندہ مسلمان کو تکلیف ہوتی ہو تو ایسا کرنا سخت منع ہے۔
٭ اگر کسی مسلمان کو ضرورت کے پیش نظر برا بھلا کہا جائے تو یہ ایک شہادت ہے جسے ادا کیا جا سکتا ہے۔
خود رسول اللہ ﷺ نے بعض مرنے والوں کو برا بھلا کہا ہے۔
(فتح الباري: 328/3) (2)
حضرت عائشہ ؓ نے ایک واقعے کے پس منظر میں یہ حدیث بیان کی:
حضرت علی ؓ نے جنگ جمل کے موقع پر یزید بن قیس ارجی کے ہاتھ حضرت عائشہ ؓ کے نام ایک خط روانہ کیا جس کا انہوں نے جواب نہ دیا۔
حضرت عائشہ ؓ کو یہ بات پہنچی کہ اس (یزید)
نے آپ کے متعلق حرف گیری کی ہے تو آپ نے اس پر لعنت کی۔
جب آپ کو پتہ چلا کہ وہ مر گیا ہے تو آپ نے أستغفراللہ پڑھا اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مردوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے۔
(فتح الباري: 328/3) (3)
عام حکم تو یہی ہے کہ مردوں کو برا بھلا نہ کہا جائے۔
اگر کوئی لعین ابو لہب جیسا بدبخت و بدکردار ہو تو اسے برائی سے یاد کرنا جائز ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے خود اس کے متعلق عنوان قائم کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1393   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.