الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: طہارت کے مسائل
Purification (Kitab Al-Taharah)
124. باب التَّيَمُّمِ
124. باب: تیمم کا بیان۔
Chapter: The Tayammum.
حدیث نمبر: 321
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن سليمان الانباري، حدثنا ابو معاوية الضرير، عن الاعمش، عن شقيق، قال: كنت جالسا بين عبد الله، وابي موسى، فقال ابو موسى: يا ابا عبد الرحمن، ارايت لو ان رجلا اجنب فلم يجد الماء شهرا، اما كان يتيمم؟ فقال: لا، وإن لم يجد الماء شهرا؟ فقال ابو موسى: فكيف تصنعون بهذه الآية التي في سورة المائدة: فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا سورة المائدة آية 6؟ فقال عبد الله: لو رخص لهم في هذا لاوشكوا إذا برد عليهم الماء ان يتيمموا بالصعيد. فقال له ابو موسى: وإنما كرهتم هذا لهذا؟ قال: نعم. فقال له ابو موسى: الم تسمع قول عمار لعمر:" بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في حاجة، فاجنبت فلم اجد الماء فتمرغت في الصعيد كما تتمرغ الدابة ثم، اتيت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فقال: إنما كان يكفيك ان تصنع هكذا:" فضرب بيده على الارض فنفضها، ثم ضرب بشماله على يمينه وبيمينه على شماله على الكفين، ثم مسح وجهه"، فقال له عبد الله: افلم تر عمر لم يقنع بقول عمار.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ الضَّرِيرُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا بَيْنَ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبِي مُوسَى، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا أَجْنَبَ فَلَمْ يَجِدِ الْمَاءَ شَهْرًا، أَمَا كَانَ يَتَيَمَّمُ؟ فَقَالَ: لَا، وَإِنْ لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ شَهْرًا؟ فَقَالَ أَبُو مُوسَى: فَكَيْفَ تَصْنَعُونَ بِهَذِهِ الْآيَةِ الَّتِي فِي سُورَةِ الْمَائِدَةِ: فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا سورة المائدة آية 6؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَوْ رُخِّصَ لَهُمْ فِي هَذَا لَأَوْشَكُوا إِذَا بَرَدَ عَلَيْهِمُ الْمَاءُ أَنْ يَتَيَمَّمُوا بِالصَّعِيدِ. فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: وَإِنَّمَا كَرِهْتُمْ هَذَا لِهَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ. فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: أَلَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ عَمَّار لِعُمَرَ:" بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ، فَأَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدَ الْمَاءَ فَتَمَرَّغْتُ فِي الصَّعِيدِ كَمَا تَتَمَرَّغُ الدَّابَّةُ ثُمَّ، أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَصْنَعَ هَكَذَا:" فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى الْأَرْضِ فَنَفَضَهَا، ثُمَّ ضَرَبَ بِشِمَالِهِ عَلَى يَمِينِهِ وَبِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ عَلَى الْكَفَّيْنِ، ثُمَّ مَسَحَ وَجْهَهُ"، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ: أَفَلَمْ تَرَ عُمَرَ لَمْ يَقْنَعْ بِقَوْلِ عَمَّارٍ.
ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کے درمیان بیٹھا ہوا تھا کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! (یہ عبداللہ بن مسعود کی کنیت ہے) اس مسئلے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص جنبی ہو جائے اور ایک مہینے تک پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کرتا رہے؟ عبداللہ بن مسعود نے کہا: تیمم نہ کرے، اگرچہ ایک مہینہ تک پانی نہ ملے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر آپ سورۃ المائدہ کی اس آیت: «فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا» پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ تو عبداللہ بن مسعود نے کہا: اگر تیمم کی رخصت دی جائے تو قریب ہے کہ جب پانی ٹھنڈا ہو تو لوگ مٹی سے تیمم کرنے لگیں۔ اس پر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ نے اسی وجہ سے اسے ناپسند کیا ہے؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، تو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا آپ نے عمار رضی اللہ عنہ کی بات (جو انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہی) نہیں سنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی ضرورت کے لیے بھیجا تو میں جنبی ہو گیا اور مجھے پانی نہیں ملا تو میں مٹی (زمین) پر لوٹا جیسے جانور لوٹتا ہے، پھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں تو بس اس طرح کر لینا کافی تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا، پھر اسے جھاڑا، پھر اپنے بائیں سے اپنی دائیں ہتھیلی پر اور دائیں سے بائیں ہتھیلی پر مارا، پھر اپنے چہرے کا مسح کیا، تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ عمر رضی اللہ عنہ، عمار رضی اللہ عنہ کی اس بات سے مطمئن نہیں ہوئے؟!۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/التیمم 7 (345، 346)، 8 (347)، صحیح مسلم/الحیض 28 (368)، سنن الترمذی/الطہارة 110 (144 مختصراً)، سنن النسائی/الطھارة 203 (321)، (تحفة الأشراف: 10360)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/264) (صحیح)» ‏‏‏‏

Shaqiq said: While I was sitting between Abdullah and Abu Musa, the latter said: Abu Abdur-Rahman, what do you think if a man becomes defiled (because of seminal omission) and does not find water for a month; should he not perform tayammum ? He replied: No, even if he does not find water for a month. Abu Musa then said: How will you do with the Quranic version (about tayammum) in the chapter al-Ma'idah which says: ". . . and you find no water, then go to clean, high ground" (5: 6)? Abdullah (bin Masud) then said: If they (the people) are granted concession in this respect, they might perform tayammum with pure earth when water is cold. Abu Musa said: For this (reason) you forbade it ? He said: Yes. Abu Musa then said: Did you not hear what Ammar said to Umar ? (He said): The Messenger of Allah ﷺ sent me on some errand. I had seminal emission and I did not find water. Therefore, I rolled on the ground just as an animal rolls down. I then came to the Prophet ﷺ and made a mention of that to him. He said: It would have been enough for you to do thus. Then he struck the ground with his hands and shook them off and then stuck the right hand with his left hand and his left hand with his right hand (and wiped) over his hands (up to the wrist) and wiped his face. Abdullah then said to him: Did you not see that Umar was not satisfied with the statement of Ammar ?
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 321


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (345، 346) صحيح مسلم (368)
   صحيح البخاري347عبد الله بن قيسيكفيك أن تصنع هكذا فضرب بكفه ضربة على الأرض ثم نفضها ثم مسح بها ظهر كفه بشماله أو ظهر شماله بكفه ثم مسح بهما وجهه
   صحيح البخاري346عبد الله بن قيسيكفيك قال ألم تر عمر لم يقنع بذلك فقال أبو موسى فدعنا من قول عمار كيف تصنع بهذه
   سنن أبي داود321عبد الله بن قيسيكفيك أن تصنع هكذا فضرب بيده على الأرض فنفضها ثم ضرب بشماله على يمينه وبيمينه على شماله على الكفين ثم مسح وجهه
   سنن النسائى الصغرى321عبد الله بن قيسيكفيك أن تقول هكذا وضرب بيديه على الأرض ضربة فمسح كفيه ثم نفضهما ثم ضرب بشماله على يمينه وبيمينه على شماله على كفيه ووجهه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 321  
´تیمم کا بیان۔`
ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کے درمیان بیٹھا ہوا تھا کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! (یہ عبداللہ بن مسعود کی کنیت ہے) اس مسئلے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص جنبی ہو جائے اور ایک مہینے تک پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کرتا رہے؟ عبداللہ بن مسعود نے کہا: تیمم نہ کرے، اگرچہ ایک مہینہ تک پانی نہ ملے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر آپ سورۃ المائدہ کی اس آیت: «فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا» پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ تو عبداللہ بن مسعود نے کہا: اگر تیمم کی رخصت دی جائے تو قریب ہے کہ جب پانی ٹھنڈا ہو تو لوگ مٹی سے تیمم کرنے لگیں۔ اس پر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ نے اسی وجہ سے اسے ناپسند کیا ہے؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، تو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا آپ نے عمار رضی اللہ عنہ کی بات (جو انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہی) نہیں سنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی ضرورت کے لیے بھیجا تو میں جنبی ہو گیا اور مجھے پانی نہیں ملا تو میں مٹی (زمین) پر لوٹا جیسے جانور لوٹتا ہے، پھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں تو بس اس طرح کر لینا کافی تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا، پھر اسے جھاڑا، پھر اپنے بائیں سے اپنی دائیں ہتھیلی پر اور دائیں سے بائیں ہتھیلی پر مارا، پھر اپنے چہرے کا مسح کیا، تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ عمر رضی اللہ عنہ، عمار رضی اللہ عنہ کی اس بات سے مطمئن نہیں ہوئے؟!۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 321]
321۔ اردو حاشیہ:
➊ کوئی بھی مسلمان دینی امور میں کسی فاضل علم کے ملنے تک اجتہاد کر سکتا ہے، پھر اس سے اپنے عمل کی توثیق وتصحیح کرا لے جیسے کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے کیا۔
➋ تمیّم کی صحیح تر روایات میں زمین پر ایک ہی دفعہ ہاتھ مارنا ہے اور پھر ہاتھوں اور چہرے کا مسح کرنا ہے۔ اور یہ عمل پانی ملنے تک حدث اصغر اور حدث اکبر (جنابت یا حیض سے طہارت) دونوں کے لیے کافی ہے۔
➌ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ تھے مگر انہیں نسیان ہو گیا اور یاد نہیں رہا اور بعض اوقات ایسے ہو جاتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 321   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 321  
´جنبی کے تیمم کا بیان۔`
ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، تو ابوموسیٰ نے کہا: ۱؎ آپ نے عمار رضی اللہ عنہ کی بات جو انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہی نہیں سنی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ضرورت سے بھیجا، تو میں جنبی ہو گیا، اور مجھے پانی نہیں ملا، تو میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا، پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے بس اس طرح کر لینا ہی کافی تھا، اور آپ نے اپنا دونوں ہاتھ زمین پر ایک بار مارا، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کا مسح کیا، پھر انہیں جھاڑا، پھر آپ نے اپنی بائیں (ہتھیلی) سے اپنی داہنی (ہتھیلی) پر اور داہنی ہتھیلی سے اپنی بائیں (ہتھیلی) پر مارا، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں اور اپنے چہرے کا مسح کیا، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ عمار رضی اللہ عنہ کی بات سے مطمئن نہیں ہوئے؟۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 321]
321۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت عمر اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما جنبی کے لیے تیمم کو کافی نہیں سمجھتے تھے جب کہ حضرت عمار اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم تیمم کو غسل کی جگہ بھی کافی سمجھتے تھے۔ اس تناظر میں مندرجہ بالا مکالمہ ہوا۔
➋ اگرچہ اس روایت میں ذکر نہیں، مگر اس سے قبل تمام روایات میں یہ صراحت ہے کہ جنابت والا واقعہ حضرت عمر اور عمار رضی اللہ عنہما دونوں کو پیش آیا تھا۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے اس واقعے کو اپنے موقف کی تائید میں پیش کیا مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ یاد نہ آسکا، اس لیے انہیں اطمینان نہ ہوا اور وہ اپنے موقف پر قائم رہے مگر جب حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے ان کی جلالت کے پیش نظر اس واقعے کی روایت سے دست بردار ہونے کی پیش کش کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ پسند نہ فرمایا بلکہ فرمایا: تم اپنی ذمے داری پر بیان کرو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد یہ اختلاف ختم ہو گیا۔ اب امت مسلمہ کا متفقہ موقف ہے کہ جنبی کو پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم ہی کافی ہے۔
➌ امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ روایت متعدد دفعہ بیان کی ہے جس میں الفاظ کا معمولی فرق ہے۔ کہیں اختصار بھی ہے۔ تمام روایتیوں کو ملانے سے واقعے کی جو صورت بنتی ہے اور جس کی تفصیل اس روایت میں بھی ہے، وہی اصل ہے۔ ہر کثرت طرق والی روایت سے استدلال کا یہی درست طریقہ ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 321   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.